میرا اسلامی فٹ بالی سپنا ادھورا رہ گیا


پوری دنیا فٹ بال کے سب سے عظیم الشان مقابلوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے، لیکن پاکستانی بدوؤں نے جس طرح اس میں مذہب کو گھسیڑا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مسلم مراکش کے ہاتھوں غیر مسلم بیلجیم، اسپین اور پرتگال کی شکست کے بعد تو رگ حمیت ایسی پھڑکی، جیسے طارق بن زیاد اندلس کے ساحلوں پر کھڑا، کشتیاں جلائے للکار رہا ہو۔ ان کو لگا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بذریعہ فٹ بال، پچھلے سارے حساب چکتا کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے کھیل کو جہاد جانتے ہوئے فیس بک پر تلواریں نیام سے نکال کر پیش قدمی شروع کردی۔

ان حضرات کو یہ محسوس ہونے لگا کہ مسلمانوں کے ساتھ سفاکانہ سلوک کی تاریخ رکھنے والے ممالک باری باری ذلیل ہو رہے ہیں۔ بیلجیم اس لئے ہارا کہ اس نے حلال ذبیحہ پر پابندی لگائی تھی، کروشیا کے ہار کے پیچھے سربیا اور بوسنیا کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کے اسباب نظر آئے تو اسپین کی ہار میں سقوط غرناطہ کے تانے بانے تلاش کر لیے گئے۔ اس طرح کسی کو صدیوں پرانی جنگوں کی یاد آئی تو کسی کو فرانس کے گستاخانہ کردار کی بازگشت ستانے لگی اور یوں وہ مراکش کی جیت میں اپنے دکھوں کا مداوا تلاش کرنے لگے۔

اس ملک میں کھیلوں کو اسلام قبول کروانے کا سہرا بھی ضیاءالحق اور اس کی باقیات کے سر جاتا ہے۔ ضیاء الحقی ذہنیت نے اس ملک میں جمالیاتی حس اور خوشی کے اظہار کے سب سے خوبصورت ذرائع، موسیقی، مصوری، شاعری، سنگ تراشی، رقص اور تہوار کو تباہ کرنے کے بعد کھیل کا بھی ستیاناس کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے پروفیشنل ازم کو چھوڑ کر اچھا کھیل پیش کرنے کے بجائے، آخرت کو سنوارنے میں ہی اپنا دل لگانا شروع کر دیا۔ اب وہ بیرون ملک کھیل کے بجائے تبلیغ کرتے ہوئے اور مسجدوں میں پیش امام کی جگہ خود، خطبہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ جیت کے لئے کارکردگی سے زیادہ دعاؤں کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اتفاقی چوکے چھکے کے بعد میدان میں بروقت سجدہ کر کے شکر ادا کرتے ہوئے دنیا کو دکھلاتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ کسی شخص کے انفرادی فعل پر تنقید کرنا غیر ضروری ہے، کیونکہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے، لیکن جب آپ کسی بالکل غیر متعلقہ سرگرمی کو مذہبی شناخت کی علامت بنا لیں گے تو وہ کھیل، کھیل نہیں رہتا، بلکہ جہاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح کے اجتماعی رویوں کے باعث آج ہم فنون لطیفہ سمیت ہر قسم کی تفریح سے لطف کشید کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔

پے درپے ناکامیوں، بھوک اور افلاس نے حمیتوں کی ذہنی حالت ایسی کردی ہے کہ اب یہ تصوراتی دنیا میں جیتے ہیں۔ ترکی کا ڈرامہ دیکھا تو ارطغرل غازی کو اپنا نجات دہندہ مان لیا، کسی لڑکے نے اسرائیلی فوجی کی طرف پتھر اچھال دیا تو اس میں صلاح الدین ایوبی کی جھلک نظر آنے لگی اور جب کھیل کے میدان میں مراکشیوں نے سجدے کیے تو ان کے دل نے مسلم نشاۃ ثانیہ کے آغاز کی نوید سنا دی۔ یہ ان سب کرداروں کو مقدس بنا لیتے ہیں اور یہ تقدس تب ٹوٹتا ہے جب حلیمہ سلطان (اسرا بلگچ ) بکنی پہنے دکھائی دیتی ہے یا اشرف حکیمی کی بیگم نیم عریاں نظر آتی ہے۔ اسی طرح مراکش کی فرانس کے ہاتھوں شکست کے بعد انہوں نے رو رو کر یہ کہتے ہوئے خود کو ہلکان کیا کہ میرا اسلامی فٹ بالی سپنا ادھورا رہ گیا رفعت بی۔

کھیل کھیل ہوتا ہے، کھیل کبھی مسلم یا کافر نہیں ہوتا۔ فرانس کی ٹیم میں بھی مسلمان کھیلتے ہیں اور مسلمان ممالک بھی غیر مسلم کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں شامل کرتے ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے فاصلے سمٹتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ صحت مند معاشروں میں کھیلوں کا کردار اور اثر مثبت معنوں میں دیکھا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں کھیل برائے ترقی اور امن کا سلوگن، ایک موثر حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے اپنی سوچ کو پرواز دیں، ضیاء الحقی ذہنیت کو مات دیں اور اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی، امن اور خوشحالی کی خاطر مکالمے اور بین المذاہب ہم آہنگی کی راہ ہموار کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments