پاکستان کے سونے کے پہاڑ باہر منتقل کرنے کی سازش


سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن گزشتہ نسل نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا غم دیکھا تھا اور موجودہ نسل نے آرمی پبلک سکول کا سانحہ۔ اب پندرہ دسمبر کو شدید سینئیر صحافی نذیر لغاری صاحب نے ایک ٹویٹ کر کے حب الوطنی سے لبریز اور درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو ایک اور بڑے صدمے کے لیے تیار رہنے کی خبر دے دی۔ لغاری صاحب لکھتے ہیں: ”ریکوڈیک معاہدہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں سے سونا نہیں نکالا جائے گا بلکہ بعض ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ ایک خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے اس پورے پہاڑی سلسلے کو یہاں سے باہر منتقل کر دیا جائے گا تاکہ یہاں موجود سونے کے علاوہ کھربوں کی دوسری قیمتیں دھاتیں بھی معاہدہ کرنے والا کنسورشیئم لے جائے۔“

یہ تو بہت بڑی سازش ہے۔ یقین کریں کہ ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ مغرب زدہ خونی لبرل تو اس کا ٹھٹھا اڑائیں گے کہ پورا پہاڑی سلسلہ کیسے اس پاک دھرتی سے اٹھا کر سات سمندر پار کے دار الکفر میں منتقل کیا جا سکتا ہے، مگر تاریخ پر تفکر کرنے والے محب وطن افراد بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا ہونا عین ممکن ہے۔

انہیں سنہ 2005 کا تباہ کن زلزلہ بھی یاد ہے جو امریکہ نے پاکستان کو وار آن ٹیرر کی دہشت گردی کے باوجود عروج پر جاتے دیکھ کر یہاں برپا کیا تھا، اور وہ سنہ 2010 کے سیلاب کے بارے میں بھی بخوبی جانتے ہیں۔ 2010 میں جب پوری دنیا بدترین کساد بازاری سے سنبھلنے کی کوشش کر رہی تھی تو اس وقت پاکستان ایسا عروج پا رہا تھا کہ امریکہ نے پریشان ہو کر اپنا وہ جدید ترین ہتھیار پاکستان پر آزما لیا جو ہزار ایٹم بموں سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسا زبردست سیلاب بھیجا گیا جو اس خطے نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر اس کامیاب تجربے کے بعد جب سنہ 2022 میں جب امریکہ نے دوبارہ یہ دیکھا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کا ناٹک کر کے در در پیسے مانگتا پھر رہا ہے، لیکن درحقیقت کپتان کی قیادت میں ایک بڑا انقلاب لا کر معاشی سپر پاور بننے جا رہا ہے، تو اس نے دوبارہ ہارپ آزما کر ایک تہائی پاکستان ڈبو دیا۔ آپ خود غور کریں، صدیوں سے یہ رواج ہے کہ بارش ہمیشہ شمالی پہاڑوں پر ہوتی ہے، سیلاب وہاں سے چلتا ہے، اور پھر وادی سندھ کے میدانوں کو ڈبو کر بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ بارش بھی بلوچستان اور سندھ پر برسی اور سیلاب بھی وہیں آیا؟ ظاہر ہے کہ اس کی ایک ہی توجیہہ ہے۔ ہارپ۔

اچھا کیا ایسا واقعی ممکن ہے کہ ایک خطۂ زمین کو اٹھا کر دوسری جگہ لے جایا جائے؟ یہاں بھی نہ جھٹلائی جانے والی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان میں ریل کی پٹڑی بچھائی تھی، تو اس وقت بھی ان کا منصوبہ یہی تھا کہ یہاں کی سونا اگلتی زرخیز زمین کو زنجیروں سے جکڑ کر انگلستان لے جائیں۔ شکر ہے کہ ہماری بیدار قیادت نے اس وقت بھی وہ مذموم منصوبہ پکڑ لیا تھا۔ سازشی انگریزوں کو ایسی خفت سے دوچار ہونا پڑا کہ انہوں نے ریل کا جال بھی بچھایا اور مارے شرمندگی کے زمین بھی انگلستان نہ لے جا سکے۔

اب لبرل تو کہیں گے کہ ایسی کوئی ٹیکنالوجی ابھی تک موجود نہیں جو پورا پہاڑ اٹھا کر لے جا سکے۔ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ یہی ہے کہ ہم پڑھتے لکھتے کچھ ہیں نہیں، بس ماہر بنتے ہیں اور اناپ شناپ ہانکنے لگتے ہیں۔ حالانکہ جس شخص نے بھی اس خطے کی تاریخ پڑھ رکھی ہے وہ جانتا ہے کہ جب یو پی کے رام چندر جی کی لنکا کے راون سے جنگ ہوئی تھی تو ایک مرتبہ لکشمن جی شدید زخمی ہو گئے۔ وید جی نے حکم لگایا کہ لکشمن جی نتھیا گلی کے پہاڑوں میں پائی جانے والی سنجیونی بوٹی سے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ ہنومان جی وہاں پہنچے تو سنجیونی بوٹی نہ پہچان سکے۔ وہ نو ہزار فٹ بلند مکشپوری پہاڑ اٹھا کر لے گئے کہ لو وید جی یہ رہا پہاڑ، خود پہچان لو اپنی بوٹی۔

پھر مسئلہ ہوا کہ لنکا تک پہنچنے کے لیے پل بنانا تھا۔ اب پھر ہنومان جی ہمالیہ کا پورا سلسلہ اٹھا کر لنکا لے گئے اور سمندر میں پتھر ڈال کر پل بنایا۔ روایات کے مطابق اس آمد و رفت کے دوران کچھ پہاڑ سرگودھا کے قریب گر گئے تھے جنہیں کرانہ کے پہاڑ کہا جاتا ہے۔

آپ نے نوٹ کیا کہ اس خطے میں پہاڑوں کو اٹھا کر ہزاروں میل دور لے جانے کا کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اب ہندوستان کو اپنا سٹریٹجک پارٹنر بنا چکا ہے۔ تعجب نہیں کہ دونوں ملک مل کر ہمارے سونے کے پہاڑوں کا پورا سلسلہ اٹھا لے جانے پر کام کر رہے ہوں۔ امریکی سائنسدان اور بھارتی رشی منی مل کر اس ناممکن کام کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ یہ کسی یوٹیوبر کی اڑائی ہوئی ہوائی بات نہیں۔ خبر نکالنے والا راوی نہایت معتبر ہے۔ نذیر لغاری صاحب بول نیوز جیسے جید ادارے کے صدر اور ایڈیٹر انچیف ہیں۔ پہلے روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ یعنی انصافی اور نونی دونوں طبقات ان پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ بلکہ ایک صاحب نے راقم الحروف کو مطلع کیا ہے کہ لغاری صاحب کا رجحان پیپلز پارٹی کی طرف رہا ہے۔ یعنی تینوں بڑے سیاسی مسالک کے لیے وہ معتبر ہیں۔ ہم تو یہی مشورہ دیں گے کہ ان پہاڑوں کو زنجیر سے باندھ دیا جائے تاکہ دشمنوں کا مذموم منصوبہ ویسے ہی ناکام ہو جائے جیسے لوہے کی زنجیروں سے یہاں کی زمین باندھ کر انگلستان لے جانے کا ہوا تھا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments