ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس میں ترامیم۔ سب کو اعتماد میں لیں!


ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان ایک مرتبہ پھر خبروں اور تبصروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ کوئی مثبت خبریں نہیں ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت کمیشن کے اختیارات محدود کرنے کا قصد کیے بیٹھی ہے۔ اس ضمن میں ایچ۔ ای۔ سی آرڈیننس میں کچھ ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ سرکاری اور نجی شعبہ تعلیم کے لئے یہ اطلاعات نہایت اضطراب کا باعث ہیں۔ وفاقی اور صوبائی کمیشنوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں چپ سادھ رکھی ہے۔

ابھی تک حکومتی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ حکومت کی خاموشی اس اضطراب میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ چند دن پہلے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (APSUP) کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو ایک خط ارسال کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا ہے کہ ایچ۔ ای۔ سی کے قانون میں مجوزہ ترمیم کے حوالے سے جامعات کے سربراہان اور اساتذہ میں نہایت بے چینی پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے وزیر اعظم سے استدعا کی ہے کہ کمیشن کی خود مختاری محدود کرنے سے متعلق قانون سازی کو روکا جائے اور شراکت داروں (stakeholders) سے مشاورت کے بغیر کوئی قانون منظور نہ کیا جائے۔

متعلقہ اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت کا مطالبہ قابل جواز ہے۔ عمومی طور پر وہ فیصلے جو وسیع تر مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں، وہ زیادہ نفع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ 2015 میں، مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک ضابطہ اخلاق وضع ہوا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر عرفان صدیقی صاحب کی سربراہی میں قائم حکومتی کمیٹی نے متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنایا تھا۔

کامل اتفاق رائے کے ساتھ یہ ضابطہ اخلاق وضع کیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر یہ نافذ العمل ہو گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایکشن پلان بھی اتفاق رائے کے ساتھ تشکیل پایا تھا۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وفاقی حکومت مجوزہ ترمیم کے حوالے سے متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ مشاورت کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟ عدم مشاورت کی وجہ سے مجوزہ ترمیم تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔

حکومت کی تجویز کردہ ترمیم کا مسودہ میری نگاہوں سے گزرا ہے۔ میری ناقص رائے ہے کہ حکومت نے کمیشن کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے جو تجاویز دی ہیں، ان میں سے کچھ نکات قابل جواز معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر حکومت چاہتی ہے کہ کمیشن کے مالیاتی معاملات آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے طے کردہ قواعد و ضوابط کے تابع ہوں۔ اسی طرح حکومت نے تجویز کیا ہے کہ کمیشن میں افسر، ایڈوائزر، کنسلٹنٹ یا ملازمین کی تعیناتی کے لئے قواعد وضع کیے جائیں۔

وضع کردہ ضابطے متعلقہ وزارت یا ڈویژن سے منظور شدہ ہوں۔ بادی النظر میں ان نکات کے نفاذ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم تجویز کردہ کچھ نکات ایسے ہیں، جو کمیشن کے اختیارات محدود یا سلب کرنے کے مترادف معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مجوزہ ترمیم کے بعد چیئرمین ایچ۔ ای۔ سی کی حیثیت وفاقی وزیر کے بجائے، ایک سرکاری ملازم کے برابر ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کمیشن کے سربراہ سے وفاقی وزیر کا درجہ کیوں واپس لینا چاہتی ہے؟

گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت میں بھی وزراء کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ وفاقی کابینہ کے اراکین کی تعداد 70 سے زیادہ ہے۔ بہت معاونین خصوصی ایسے ہیں جن کے پاس قلمدان تک نہیں ہے۔ ہر حکومت میں کم وبیش یہی صورتحال ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر چیئرمین ایچ۔ ای۔ سی کو وفاقی وزیر کا درجہ اور اختیارات حاصل ہیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سربراہی ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ اس اہم عہدے پر متمکن شخص کو با اختیار ہی ہونا چاہیے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اہمیت اور اختیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ یہ ادارہ براہ راست وزیر اعظم پاکستان کے ما تحت کام کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے بعد کمیشن کا چیئرمین تمام تر اختیار ات کا حامل ہوتا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے بعد وزیر اعظم پاکستان، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معاملات دیکھنے کا اختیار وزیر تعلیم کو تفویض کر سکے گا۔ یعنی ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو وہ اختیارات جو کمیشن کے چیئرمین کے سپرد ہوتے ہیں، وہ وزیر تعلیم کے پاس چلے جائیں گے۔ کمیشن کا چیئرمین جو براہ راست وزیر اعظم کو جوابدہ ہوتا ہے وہ وزیر تعلیم اور وزارت تعلیم کے سامنے جواب دہ ہو گا۔ خدشہ ہے کہ اس سے کمیشن کے معاملات میں مداخلت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ترمیم کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک میں اعلیٰ تعلیم کی واحد ریگولیٹری باڈی کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ اس طرح صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشنوں، پاکستان میڈیکل کمیشن، پاکستان انجینئرنگ کونسل، پاکستان بار کونسل جیسے اہم اداروں کے اختیارات سلب ہوجائیں گے۔ اور کمیشن کا قانون، بہت سے دیگر قوانین سے متصادم ہو گا۔ بالکل اسی طرح کمیشن کے اراکین کی تعداد دس سے کم کر کے چھ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنٹیفک اینڈ ٹیکنالوجیکل ریسرچ ڈویژن کے سیکرٹری بھی کمیشن کے ممبر ہوتے ہیں۔ اب تجویز ہوا ہے کہ یہ سیکرٹری بھی کمیشن کے ممبر نہیں ہوں گے۔ کمیشن میں صوبائی حکومتوں کے چار نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان نمائندوں سے متعلق نکتہ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بلاشبہ حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کمیشن اراکین کی تعداد کم کر دے۔ لیکن اس کمی کی آڑ میں اگر چاروں صوبوں کو نمائندگی سے محروم کیا جاتا ہے تو اس امر کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

کمیشن میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایک نہایت اہم عہدہ ہے۔ اس کی تعیناتی کا اختیار کمیشن کے پاس ہوتا ہے۔ تجویز ہے کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا اختیار کمیشن کے بجائے حکومت کے پاس ہو گا۔ یہ معاملہ بھی کمیشن کا اختیار سلب کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری سیاسی حکومتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہونے لگے گی۔ موجودہ قانون میں کمیشن چیئرمین کی مدت ملازمت کو تحفظ حاصل ہے۔ اب تجویز ہوا ہے کہ ناقص کارکردگی اور مس کنڈکٹ کی بنیاد پر چیئرمین کو کسی بھی وقت نوکری سے برخاست کیا جا سکتا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے بعد کمیشن میں نجی شعبہ تعلیم کی نمائندگی پر بھی زد پڑے گی۔

قصہ مختصر یہ کہ مجوزہ ترمیم کے کچھ نکات ایسے ہیں جو صلح مشورے کے متقاضی ہیں۔ لازم ہے کہ حکومت اس معاملے میں متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنائے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت نیت نیتی سے مجوزہ ترمیم کے ذریعے کمیشن کے معاملات کی اصلاح چاہتی ہو۔ اگر ایسا ہے تب بھی متعلقہ شراکت داروں (یعنی جامعات کے مالکان، سربراہان، اساتذہ، طلبہ وغیرہ) کو نامطلوب عناصر کی طرح مشاورتی عمل سے باہر رکھنا کسی طور درست معلوم نہیں ہوتا۔

پارلیمنٹ جیسا نہایت اہم ادارہ بھی قانون سازی کے عمل میں مشاورت کا اہتمام کرتا ہے، تاکہ تنازعات سے بچا جا سکے۔ کوئی بل جب اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں جاتا ہے تو اکثر و بیشتر متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کو بلا کر ان کا نقطہ نظر سنا جاتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس میں ترمیم کے معاملے میں بھی مشاورت ہونی چاہیے۔ بہت اچھا ہو اگر حکومت جامعات کے مالکان، سربراہان، ماہرین تعلیم اور دیگر شراکت داروں کو اعتماد میں لے اور ان کا نقطہ نظر سنے۔ ایسا کرنے سے حکومت کا بہت اچھا اور مثبت تاثر ابھرے گا۔ اگر حکومت مشاورتی عمل یقینی نہیں بناتی تو وفاقی اور صوبائی کمیشنوں اور جامعات کے ساتھ حکومتی تعلقات میں تلخی پیدا ہو سکتی ہے، جس کا خمیازہ شعبہ تعلیم کو بھگتنا پڑے گا۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments