”ہمیں کھسرا کہہ کر مسجد سے نکال دیتے ہیں“


زندہ قومیں مسلسل مکالمہ کرتی ہیں اور اسی کے ذریعے اپنے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں عمر کی بنیاد پر نوجوان نسل کے سوالات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ عمر اور تجربہ کی وجہ سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ صحیح اور درست بات صرف بزرگ ہی کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جنریشن گیپ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اگر نوجوانوں کو سنا جاتا اور ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی تو یقیناً حالات کافی بہتر ہوتے۔

ایک قابل افسوس طرز عمل ہماری دانش گاہوں کا بھی رہا وہ بھی نوجوان کو سننے اور سنانے کے پلیٹ فارمز دینے میں ناکام رہی ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو نوجوانوں کو جب اپنے بات کرنے کے فورمز نہیں ملے تو انہوں نے ان جگہوں پر اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی جہاں انہیں سنا جاتا تھا۔ ہماری نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ فرقہ ورانہ اور علاقیت پرستی کا نظریہ رکھنی والی تنظیموں کا حصہ بن گیا جنہوں نے نوجوانوں کے وژن کو محدود کر دیا۔

اس سے معاشرے کی جو شکل سامنے آئی وہ فرقوں اور علاقیت میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ تفریق اس حد تک بڑھی کہ اب ایک ہی فرقے کے کئی گروہ بن چکے ہیں۔ اس سے خواتین اور ٹرانسجینڈر کے لیے سپیش بالکل ختم ہو گئی اور غیر مسلم آبادی مزید دب کر رہ گئیں۔ جب اکیاون فیصد آبادی کی رائے معاشرے کی تعمیر سے نکل گئی جو انرجی معاشرے کو چلانے کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی طاقت رکھتی تھی معاشرہ اس سے محروم ہو گیا۔ اسی طرح معاشرہ غیر مسلموں کی موثر نمائندگی سے بھی محروم رہ گیا اور غیر مسلم بھی دبک کر کہیں ایک طرف بیٹھ گئے۔

ایسے حالات میں کچھ ادارے امید کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں جو اپنی بساط میں روشنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں شعور فاونڈیشن انہی میں سے ایک بہترین ادارہ ہے۔ انہوں نے پاکستان کے تاریخی ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں نوجوانوں کے ساتھ بہترین مکالمے کا اہتمام کیا اس کا عنوان ”قیام امن کی منصوبہ بندی میں نوجوانوں کا کردار“ تھا۔ پروگرام کا فارمیٹ بہت زبردست تھا اس میں فقط ہم جیسے زعم برتری میں مبتلا لوگوں کو سنانا ہی نہیں تھا بلکہ نوجوانوں کو سننا تھا اور خوب سننا تھا۔

سکردو سے لے کر لاڑکانہ تھا اور کئی جامعات کے طلبا موجود تھے زیادہ تعداد بچیوں کی تھی اور شاید میں پہلے ایسے کسی پروگرام میں آیا جس میں ایک خواجہ سرا بھی شریک تھی۔ بہت خوبصورت مکالمہ ہوا اور یقیناً کریں کہ نوجوان نسل نے مسائل کے ایسے ایسے پہلووں کی نشاندہی کی جو ان کی وطن عزیز سے دلچسپی اور مستقبل کے حوالے سے آگاہی کی عکاس تھی۔ سوال ہوئے اور خوب سوال ہوئے یوں سمجھ لیجیے موسلا دھار سوالات ہوئے۔ اگرچہ یہ پروگرام کئی گھنٹوں پر مشتمل تھا مگر پھر بھی لگا کہ نوجوان نسل کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے ہمیں سننے کا حوصلہ پیدا کر کے انہیں سننا ہو گا۔ ہمارا سننا انہیں حوصلہ دے گا، انہیں مستقبل کے متعلق پر امید کر دے گا۔

پروگرام میں شریک خواجہ سرا جن کا نام رابی تھا انہوں نے بڑا دلچسپ سوال کیا کہ جناب ہم مسجدوں میں جاتے ہیں تو ہمیں وہاں سے کھسرا کہہ کر نکال دیا جاتا ہے۔ ہم اللہ کی عبادت کہاں کریں؟ کیا ہم اپنی الگ مساجد بنا لیں؟ یا ہم مسجد جا ہی نہیں سکتیں؟ یقین جانئیے بہت دکھ ہوا۔ یہ پاکستان کی مظلوم ترین کمیونٹی ہے جب پیدا ہوتے ہیں تو سوتیلے پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے ابھی بچے ہی ہوتے ہیں تو خاندان کا ادارہ ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور معاشرے کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔

یہاں معاشرے نے ان کو صرف ناچنے اور سیکس ورکر کے طور پر ہی دیکھا۔ یہ بیچارے بغیر سرپرستی کے ہوتے ہیں اسی لیے معاشرے کے با اثر لوگ ان کا استحصال کرتے ہیں اور ان کا ریپ کیا جاتا ہے۔ پولیس بھی ان کی جائز قانونی مدد کرنے سے انکاری رہتی ہے کاش جیسے خواتین کے ہراسمنٹ کو خصوصی اہمیت دے کر اس پر فوری قانونی کارروائی کرنے کا احسن اقدام کیا گیا اسی طرح ٹرانسجینڈرز کے لیے بھی ایسا ہی کوئی نظام لایا جائے شاید انہیں کوئی ریلیف مل سکے اور یہ پرامن زندگی گزار سکیں۔

محترمہ رابی صاحبہ کے سوال پر میں نے تمام نوجوان طالبات سے پوچھا کیا آپ مسجد میں نماز کے لیے جاتی ہیں؟ اس پر ایک چند طالبات نے کہا کہ شاید وہ ایک دو بار مسجد میں گئی ہیں۔ میں نے کہا محترمہ رابی صاحبہ سے پہلے تو یہ آپ کا سوال ہونا چاہیے تھا کہ آپ کو مسجد میں کیوں داخل نہیں ہونے دیا جاتا یا آپ کے لیے مساجد میں الگ سے انتظام موجود کیوں نہیں ہے؟ شرعی طور پر کوئی بھی عورت مسجد میں نماز ادا کر سکتی ہے اور اسی طرح کوئی بھی ٹرانسجینڈر مسجد میں نماز ادا کر سکتا ہے اور اللہ کا گھر سب کے لیے ہے مسجد الحرام، مسجد نبویﷺ اور دیگر بڑی مساجد میں خواتین مساجد میں نماز ادا کرتی ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ ہم نے خواتین کے لیے دین کے ایک حصے پر عمل کو مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا ہے۔ میں پاکستان سے باہر ایک اسلامی ملک میں تھا وہاں ایک جنازہ لایا جا رہا تھا دیکھا تو خواتین بھی ساتھ ساتھ ہیں، میں کافی حیران ہوا جب نماز جنازہ کے لیے صفیں درست ہوئی تو خواتین بھی جنازہ میں شریک تھیں سچ پوچھیں تو میں خود بڑا حیران ہوا کہ خواتین نماز جنازہ پڑھ رہی ہیں؟ جب اسلام کو پڑھا تو پتہ چلا کہ خواتین و حضرات ہر دو نماز جنازہ کے فرض کفائی میں برابر کے شریک ہیں۔

ایسے مکالمے اور ان سے اٹھنے والے سوالات معاشرے کی ترقی کی رفتار کو تیز کر دیں گے اور ہر ایک کو ان کے حقوق کا پتہ چلے گا۔ رابی صاحبہ کو اطمینان دلایا کہ آپ مسجد میں جا سکتی ہیں جو نہیں جانے دیتا وہ اللہ کے گھر کو ذاتی پسند و ناپسند کے نام پر اللہ کے بندوں پر بند کر رہا ہے اور یہ صرف خواتین اور خواجہ سراؤں تک محدود نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسرے فرقے کے لوگوں کو بھی مساجد میں داخل نہیں ہونے دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments