(3) ڈاکٹر وزیر آغا اور سید فخرالدین بلے ، داستان رفاقت


سرگودھا سے ملتان منتقلی کے بعد بھی ڈاکٹر وزیر آغا اور دیگر احباب سے مسلسل رابطہ قائم رہا۔ ڈاکٹر انور سدید تو کوٹ ادو میں پوسٹنگ ہونے کے باعث اکثر و بیشتر ہی سید فخرالدین بلے سے ملنے آ جایا کرتے تھے۔ بسا اوقات تو ہر مہینے بھی لیکن ڈاکٹر وزیر آغا بمشکل چار پانچ مرتبہ ہی ملنے کے لیے بنفس نفیس تشریف لائے ہوں گے۔ ان چھ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب، سید انجم معین بلے صاحب، سید عارف معین بلے صاحب، آنس معین صاحب سے ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کی فون پر اکثر گفتگو ہوا کرتی تھی۔

البتہ خط و کتابت صرف والد گرامی سید فخرالدین بلے اور برادر محترم آنس معین سے ہوا کرتی تھی۔ سید فخرالدین بلے اور آنس معین کے نام مکتوبات میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا سہ ماہی اوراق لاہور کے لیے تازہ کلام بھجوانے کا مطالبہ لازمی شامل ہوا کرتا تھا۔ یہ سلسلہ کم و بیش چھ یا سات برس ہی جاری رہا ہو گا کہ فروری کی پانچویں تاریخ انیس سو چھیاسی کو آنس معین کی جواں مرگی کے المناک حادثے نے تو تمام اہل خانہ ہی کیا تمام وابستگان بلے فیملی کو دہلا کر رکھ دیا۔

آنس معین کی المناک موت اور اس کے بلے فیملی پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے علیحدہ سے کسی تحریر میں بیان کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو ایک مفصل تعزیتی خط بھی لکھا اور متعدد بار فون پر بھی تعزیت فرمائی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے تعزیتی خط کے جواب میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جوابی مکتوب ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کو ارسال فرمایا۔ بعد ازاں ڈاکٹر وزیر آغا نے سہ ماہی اوراق لاہور میں گوشۂ آنس معین بہت اہتمام سے شائع کیا۔ اس خصوصی گوشے میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے نام جوابی خط، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر انور جمال اور ڈاکٹر انور سدید کے مضامین کے علاوہ آنس معین کا منتخب کلام، آنس معین کا اپنے والدین کے نام آخری خط اور آنس معین کی فل پیج تصویر بھی اہتمام سے شائع کی گئی تھی۔

شاعر کرب آنس معین کے غم زدہ والد گرامی سید فخرالدین بلے کا ڈاکٹر وزیر آغا کے نام جوابی مکتوب
اسلم خان بلڈنگ،
چوک نواں شہر۔ ملتان
16 مئی 1986
ڈاکٹر وزیر آغا صاحب مکرم! تحیات و السلام علیکم

آپ کا مکتوب ملا درماندۂ فرصت ہونے کے سبب تاخیر سے جواب دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ یوں بھی آنس کی غیر معمولی موت سے گھر کے سب افراد ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، بکھر گئے ہیں۔ اور خود کو سنبھالنے، سمیٹنے اور اس غم کے ساتھ جینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

اپنی اولاد سبھی کو پیاری ہوتی ہے جب کہ آنس فی الحقیقت بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ عہد طفلی میں کھیل کے دوران یا کھلونوں اور ٹافیوں وغیرہ پر بچے جھگڑ بھی پڑتے ہیں، لیکن آنس کو ہم نے اس زمانے میں بھی بھائیوں، بہنوں یا کسی اور سے کبھی جھگڑتے نہیں دیکھا۔ وہ کم آمیز ضرور تھا مگر عموماً مسکراتا رہتا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے اور وہ بھی سب سے بہت محبت کرتا تھا۔ دھبہ تو بڑی چیز ہے وہ اپنے لباس پر معمولی سی شکن تک برداشت نہیں کرتا تھا۔ حیرت ہے کہ جو کسی غیر کو بھی دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا اپنوں کو اتنا بڑا غم کیسے دے گیا۔ اس کی کوئی ایموشنل پروبلم

(emotional problem)

بھی نہیں تھی۔ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کا معاملہ بھی اس نے یہ کہہ کر گھر والوں پر چھوڑ دیا تھا کہ اس کی نظر میں سب سے بہتر لڑکی وہ ہوگی جو کنبے میں بہتر طور پر ایڈجسٹ (adjust) ہو سکے۔ اس کی نہ کسی سے کوئی چپقلش تھی اور نہ ہی گھر یا باہر کا کوئی ایسا مسئلہ جو کسی الجھن کا سبب بنتا۔ بینک میں جہاں وہ کام کرتا تھا، چھوٹے بڑے سب اس کی شرافت اور صلاحیت کے معترف تھے۔ حال ہی میں اس نے فارن ایکس چینج کی تربیت میں امتیاز حاصل کیا تھا اور اس کی فارن پوسٹنگ متوقع تھی۔ ان حالات میں خود کشی جیسا اقدام بعید از قیاس نہیں تو کیا ہے؟

جس دن یہ سانحہ پیش آیا میں اسلام آباد میں تھا اور آنس کی والدہ کراچی گئی ہوئی تھیں۔ گھر پر اس کی چھوٹی بہن اور دو بھائی عارف اور ظفر تھے جن کے ساتھ وہ رات گئے تک ہنستا بولتا رہا۔ اگلے دن وہ گھر سے خوش و خرم گیا اور خون میں ڈوبا ہوا آیا۔ اس کی موت کے متعلق ہماری کل معلومات وہ خط ہے جو اس نے اس اقدام سے ایک دن پہلے لکھا تھا۔ اور اس کی جیب سے برآمد ہوا۔ اس خط کی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں جس سے بس اتنا ہی پتا چلتا ہے کہ اس نے زندگی کا ”آخری ورق“ پڑھنے کی عجلت میں جان دے دی۔

المیہ یہ ہے کہ ہم اس کی تخلیقات اور باتوں کو محض شاعری سمجھتے رہے۔ اس کے بھائی بہنیں اور احباب دانشور کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کی چھوٹی بہن اس سے اکثر کہتی تھی کہ آنس بھائی آپ کی شاعری میں تو بس اندر اور باہر کے آدمی میں جنگ ہی ہوتی رہتی ہے۔ البتہ سرگودھا میں سب سے پہلے آپ نے آنس کی سوچ کو غیر معمولی اور اس کے لہجے اور اشعار کو چونکا دینے والا کہا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اس کے بعض اشعار سے تو مجھے خوف آتا ہے۔

اسی طرح کوئی پانچ برس پہلے اس کے شعر سن کر جوش صاحب اور فیض صاحب نے جہاں بے پناہ داد دی تھی وہاں اس تشویش کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کی سوچ اور لہجہ نہ صرف بڑا انوکھا بلکہ جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ کاش اس وقت ہم نے اس کے فکری رویے کی طرف دھیان دیا ہوتا اور جس داخلی کرب میں وہ مبتلا ہو گیا تھا اس سے نجات کی کوئی راہ نکالی ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

آنس نے شاعری کا آغاز 1977 میں کیا اور نو برسوں میں ڈھائی سو سے زیادہ غزلیں اور ڈھیروں نظمیں کہیں جن میں حقیقت ذات و کائنات کی دریافت اور معرفت و اماں کی یافت کے لیے ظاہر و باطن کی کشمکش کا وہ تسلسل نمایاں ہے جو بالآخر اس کی موت پر منتج ہوا۔ یوں تو وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتا تھا لیکن جن سے ملتا تھا ان سے ایک فاصلہ بھی برقرار رکھتا تھا۔ وہ اپنا کلام چھپوانے، سنانے اور مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں شعر فہمی ہر شاعر کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔

کبھی کبھار اس نے اپنی غزلیں اور نظمیں اوراق میں اشاعت کے لیے ضرور بھیجیں ہیں یا کسی کے اصرار پر بعض اخبارات و جرائد کو دی ہیں۔ لیکن کہتا وہ یہی تھا کہ ”کوئی غزل یا نظم چھپ بھی گئی تو کیا ہو گا؟“ بہر حال ارباب شعر و دانش کی ایک قابل لحاظ تعداد ایک مدت سے اس کی مداح ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کا مصطفی زیدی تھا اور بعض کا خیال ہے کہ اسے اپنے دور کا شکیب جلالی سمجھا جائے جب کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ دراصل شکیب اپنے زمانے کا آنس معین تھا۔

جب کہ فی الحقیقت آنس کے کرب کی علت، نوعیت اور کیفیت قطعی مختلف تھی۔ آپ نے درست لکھا ہے کہ بظاہر وہ اتنا پرسکون تھا کہ اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کے اندر اتنا بڑا طوفان کھول رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے پہلے آپ ہی اس کے اشعار اور لہجے سے چونکے تھے اور آپ نے ہمیں بھی خبردار کیا تھا اور اب آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ آنس کے اشعار میں بالکل شکیب جلالی والا کرب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے کرب اور اس سے جھلکنے والے خوف کی نشاندہی بھی سب سے پہلے آپ ہی نے کی تھی اور اب اس کی سوچوں کے متلاطم دھاروں اور لہجے کی گمبھیرتا کی روشنی میں اس کی تخلیقات کی علت و حکمت اور اثر آفرینی کی دریافت میں بھی آپ سے بہتر رہنمائی کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ امید ہے آپ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود آنس کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیں گے اور اسے پوری طرح جاننے اور قریب سے دیکھنے کا سامان کریں گے۔

والسلام
طالب دعا
سید فخرالدین بلے
16 مئی 1986

اوراق میں گوشۂ آنس معین کی اشاعت کے بعد سہ ماہی فنون میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کا مقالہ آنس معین ایک عبوری ایک لافانی شاعر کے عنوان کے تحت شائع ہوا۔ طفیل ہوشیار پوری نے ماہنامہ محفل لاہور میں، جعفر شیرازی نے گہراب میں، بیدار سرمدی نے پندرہ روزہ انکشاف لاہور میں اور ڈاکٹر فوق کریمی نے ترجمان علی گڑھ بھارت میں آنس معین فہمی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے شاندار اور جاندار گوشے شائع کیے گئے۔ لیکن طفیل ہوشیار پوری اور ڈاکٹر انور سدید نے آنس معین کی تفہیم کا عمل مسلسل جاری رکھا اور متعدد مضامین اور مقالات قلم بند کیے۔

طفیل ہوشیار پوری نے برصغیر پاک و ہند کے ممتاز ناقدین اور ادبا کی نگارشات پر مشتمل ماہنامہ محفل لاہور کا ضخیم اور بھرپور آنس معین نمبر شائع کیا۔ بعد ازاں آنس معین کی چھٹی برسی کے موقع پر ڈاکٹر قمر رئیس، رام لال جی، پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور اظہار احمد پر مشتمل مجلس ادارت نے ماہنامہ معلم اردو لکھنؤ کا آنس معین نمبر شائع گیا۔

نوٹ : زیر نظر مضمون کی اس قسط میں شامل تمام تر مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے ادارہ ہم سب کے لیے بطور تحفہ عطا فرمائے ہیں

ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
حضرت جوش ملیح آبادی صاحب کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
حضرت جوش ملیح آبادی صاحب کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
ظفر معین بلے جعفری صاحب کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
ظفر معین بلے جعفری صاحب کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔
شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کا یہ مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق فرمایا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments