ہمارا میرداد کہاں ہے؟


گرو رجنیش عرف اوشو سے ایک بار پو چھا گیا کہ وہ کس کتاب کو پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں تو ان کے منہ سے نکلا ”دی بک آف میرداد“ ۔ میخائل نعیمی کی عربی اور انگریزی میں لکھی اس کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اردو میں اس کتاب کا ترجمہ ’کتاب میرداد‘ کے نام سے امرتا پریتم نے کیا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کا انتخاب خود کرتی ہے۔

میخائل نعیمی خلیل جبران کا ہم وطن، ہم عصر، دوست اور استاد تھا۔ میڈیا میں کم آیا جس کی وجہ سے وہ خلیل جبران جتنا مشہور نہیں مگر کتاب میرداد کو پڑھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ علم و دانش میں ان کا مرتبہ و مقام کہیں زیادہ اونچا ہے۔

اس کتاب پر تبصرہ کرنے کی نہ میری حیثیت ہے اور نہ ہی اوقات، مگر ایک بات میں جانتا ہوں جس وقت یہ کتاب آپ کو منتخب کرے گی اس کو پڑھے بغیر آپ اٹھیں گے نہیں۔

میخائل نعیمی نے لکھا ہے کہ انسان اپنی تقدیر کا خود ہی مالک ہے، وہ خود اپنے انجام کو طے کرتا ہے۔ وہ یہ فیصلہ آغاز میں ہی کرتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ اس نقطہ کو علامہ اقبال کے ’بتا تیری رضا کیا ہے‘ والے تصور سے بھی جدا کر کے دیکھنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس میں خودی کا ”میں“ ہے اور میخائل کی کہانی میں لفظ ’میں‘ معیوب ہے۔ میخائل نعیمی کے بقول ”اپنی رضا کو رضائے کل کے تابع کرو۔ پھر جب عرفان آشکار ہو گا تو رضائے کل یوں تمھارے رضا کے پیچھے چلے گی جیسے کہ وہ تمھارے تابع ہو“ ۔

میخائل نعیمی کے مطابق انسان اپنی زندگی اور موت، ان کا وقت، یہاں تک کہ ان کے طریقہ انتخاب بھی خود طے کرتا ہے۔ اس کی مثال یوں بھی لے سکتے ہیں کہ ہم کھاتے ہوئے یہ طے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا، نتائج سے باخبر ہوتے ہوئے ہم جب کوئی بھی کام کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے انجام کا فیصلہ خود ہی کرتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں ہم کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں تو یہ منزل اس سفر کا انجام ہوتا ہے جس کا آغاز ہم نے کئی سال پہلے کیا تھا۔

میخائل نعیمی کا بتایا یہ تصور صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں بلکہ اس کا اطلاق اجتماعی معاشرتی و سماجی زندگی پر بھی ہوتا ہے۔ گھر، شہر اور ملک جہاں جہاں ہمارے انفرادی اور اجتماعی فیصلے اثرانداز ہوتے ہیں ان کا انجام بھی ان ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی، جو بونا وہی کاٹنا جیسے محاورے بھی ہمارے ہاں کی روایتی دانش کی غمازی کرتے ہیں۔

ہم جس صورت حال سے لمحہ موجود میں دوچار ہیں یہ بھی ایک دم ہوئے حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا بھی وقت برسوں پرورش کرتا رہا ہے۔ آج معاشی و اقتصادی زبوں حالی سے دیوالیہ نکلنے کی دھائی ہر طرف سنائی دیتی ہے تو اس کا انتخاب بھی برسوں قبل کیا گیا تھا۔ جب ملکی پیداوار کے بجائے درآمدات پر عیاشی کرنے کا انتخاب کیا گیا تھا تو یہ طے ہوا تھا کہ تجارتی خسارہ رہے گا جو ایک دیرپا حکمت عملی کی صورت میں معاشی دیوالیہ پن پر منتج ہو گا۔ دیوالیہ نکلنے کے وقت کا اندازہ لگانا بھی معاشی پیش بینی کرنے والوں کے لئے مشکل کام نہیں۔ صرف ہوا یہ کہ ہر دور میں سب نے مشقت کرنے سے جان چھڑا لی اور ٹالتے ٹالتے بات یہاں تک پہنچی ہے۔ اب بھی ٹالیں گے تو کچھ عرصہ اور نکل جائے گا مگر کب تلک؟

کتاب میر داد کی کہانی میں نوح کی کشتی کا استعارہ ہے۔ نوح کی کشتی کی اسطورہ تو ویسے تمام ابراہیمی مذاہب میں موجود ہے جو ناموں کے فرق کے ساتھ ہندو سناتن دھرم میں بھی پائی جاتی ہے۔ ابراہیمی مذاہب کے اسطورے میں اس کہانی کا ہیرو نوح ایک کشتی بناتا ہے جس کی وجہ سے وہ اور اس کے پیروکار ایک بڑے طوفان سے صحیح سلامت بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

کتاب میرداد کی کہانی بغرض نجات بنائی گئی اس کشتی کے بارے میں ہے جو وقت کے ساتھ مقدس بن گئی تھی۔ نوح کے بیٹوں کی اولاد نے اس کشتی کی تقدیس سے ہر دور میں فائدہ اٹھایا۔ کشتی کی تقدیس کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف روایات اور تہوار کا ظہور ہوا جن میں آس پاس کے لوگ شریک ہوتے، نذرانے پیش کرتے اور اپنی نجات کے خواست گزار ہوتے تھے۔ کشتی کے متولی نوح اور کشتی کے تقدیس کے نام پر لوگوں کی داد رسی کرتے اور ان کو نجات کا یقین دلاتے اور ان سے مال بٹورتے تھے۔

اس کہانی کا اطلاق بھی دنیا میں وجود میں آنے والے اداروں، مذاہب اور ممالک اور ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد ایک عالمی پیغام پر رکھی جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک گروہ اور اس سے وابستہ چند لوگوں تک محدود ہوجاتی ہے۔

ریفریجریٹر سے پہلے دنیا میں تازہ دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بنائی نیسلے کی کمپنی نے عالمی جنگوں کے بعد تازہ اور فوری خوراک کی فراہمی سے نہ صرف بچوں کی غذائی ضروریات پوری کی بلکہ خواتین پر باورچی خانہ میں کام کا بوجھ کم کر کے ان کو قومی افرادی قوت میں شامل ہونے میں مدد دی۔ مگر آج سو سال بعد یہ دنیا کے بڑے منافع کمانے والے اداروں میں سے ایک ہے جن پر منفعت کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نیسلے پر ایشیا اور افریقہ میں دودھ کو دیر تک محفوظ رکھنے کے لئے ایسے اجزاء شامل کرنے کا بھی الزام ہے جن کے استعمال سے بچے اپنی فطری عمر سے قبل بلوغت تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ الزامات اگر درست ہوں تو یہ اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لئے اس کے معماروں نے اس ادارے کی تعمیر کی تھی۔

مہاتما گوتم بدھ نے نروان پانے کے لئے شاہی زندگی ترک کردی، برسوں بھوک پیاس میں گزارے، سینکڑوں میل کا سفر کیا اور اس کے بعد آنے والوں نے ان کے نام کا سکہ چلایا، ریاستیں قائم کیں اور ان کے نام پر لوگوں سے نذر نیاز اکٹھا کیا جو اس عظیم شخص کے اس آفاقی پیغام کے خلاف ہے جو تمام انسانوں کو دکھ سے نجات کے لئے تھا۔

پاکستان بنانے والوں کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہندوستان کی نسل پرست اکثریت کے ساتھ نسلی اور مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہوں گی اس لئے ایک ایسا ملک بنایا جائے جو برابری اور مساوات کی بنیاد بنیاد پر قائم ہو۔ مگر وقت کے ساتھ اقلیتوں میں سے بڑی اقلیت اکثریت بن گئی جس نے برابری اور مساوات کے آفاقی پیغام کو دفن کر کے اپنا تسلط کی راہ ہموار کی جو اقلیتوں کے لئے ایک علیحدہ ملک بنانے کے مقصد کے برخلاف ہے۔ نتیجہ وہی ہوا جو پاکستان بناتے ہوئے قرار داد پاکستان میں لکھا گیا تھا کہ اگر اکثریت نے اقلیت کی نہ مانی تو اقلیت کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ خود فیصلہ کرے۔

کتاب میرداد کا ہیرو میرداد جو نوح سے لے کر اس کی اولاد کے زمانوں تک ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں کشتی پر موجود رہتا ہے اور راہنمائی کرتا ہے۔ نجات کے لئے بنائی کشتی کی نجات بھی اس بات پر ہوتی ہے کہ میرداد کی بات سنی جائے جو درجہ، ذات اور حیثیت میں سب سے کم مگر علم، حکمت و دانش میں سب سے اونچا ہوتا ہے۔

گزشتہ پچھتر سالوں میں ہمارے یہاں میر داد کی نہیں سنی گئی، اس کو مطعون و معتوب کیا گیا جس کی وجہ سے وہ قومی و ملکی منظر سے ہی غائب ہوا ہے۔ آج کا میرداد اگلی نسل تیار کرنے کے لئے درس گاہوں میں پڑھانے والا استاد، ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے لکھنے والا صحافی، اپنے الفاظ سے دلوں کو گرمانے والا شاعر، اپنے ہاتھوں سے صنم تراشنے والا آرٹسٹ اور منطق و فلسفہ کی موشگافیوں میں زندگی تلاشنے والا دانشور ہے۔ مگر وہ ہے کہاں؟

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan