خوبصورت، طرح دار اور متحرک لکھاری سائرہ ہاشمی


رضا رومی کا میسج تھا۔ آنٹی سائرہ ہاشمی کا نمبر چاہیے۔ ”سائرہ ہاشمی“ ۔ زیر لب دہرایا۔ ماضی کی خوبصورت، طرحدار اور متحرک لکھاری جو عرصے سے ادبی منظر نامے سے دور تھی۔ دوری کی ایک وجہ علالت بھی تھی۔ کوئی پانچ چھ ماہ قبل ان کا فون آیا تھا۔ نہ ملنے کا شکوہ، بزم ہم نفساں کا نیا اجرا۔ اپنی کتابوں کی دوبارہ اشاعت جیسے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد پھر خاموشی تھی۔

مجھ جیسی لاپروا عورت نمبر سنبھالتی کہیں ممکن تھا۔ سوچا ڈائری دیکھتی ہوں۔ ڈائری نے جیسے ایک نئے سیاپے میں ڈال دیا۔ جو صفحہ کھولتی وہ روک لیتا کہ وہاں موجود کئی نام کسی دوسری دنیا میں چلے گئے تھے۔ آنکھیں زیادہ گیلی ہوئیں تو اسے بند کر دیا۔ عذرا اصغر سے رابطہ کیا۔ دو دن بعد رضا کی یاد دہانی تھی۔ دراصل عائشہ صدیقہ کو نمبر چاہیے تھا۔ آپ کو پتہ ہے وہ ان کی بھانجی ہیں۔

عائشہ صدیقہ جمیلہ ہاشمی کی بیٹی اور جمیلہ ہاشمی سائرہ کی بڑی بہن۔ دونوں سگی بہنیں، گھر ضرور جڑے ہوئے تھے مگر دکھ کی بات دل کبھی نہ جڑے تھے۔

ہماری آج کی نسل کو کیا پتہ کہ سائرہ ہاشمی کون تھیں؟ خوبصورت اور طرح دار لکھاری خاتون جو ستر (70) ، اسی (80) ، نوے (90) کی دہائیوں کی انتہائی متحرک، کلاسیکل ادب تخلیق کرنے والی سچی بات ہے جو لاہور جیسے ادبی شہر کی ایک خوبصورت پہچان تھیں۔ نو کتابوں کی خالق: سیاہ برف، ردی کاغذ کا ٹکڑا، ریت کی دیوار، زندگی کی بند گلی، وہ کالی ہو گئی، تماشا ہو چکا اور ایک تاثر دو شخصیتیں۔ یہ ناول، افسانوی مجموعے اور مضامین تھے۔ ان سب کے ساتھ بزم ہم نفساں کے نام سے ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے انتہائی کامیابی سے پچیس ( 25 ) تیس ( 30 ) سال چلایا۔

عذرا اصغر کو فون کیا۔ ان کی خیریت دریافت کی۔ سائرہ بارے بات ہوئی۔ دکھ تھا ان کے لہجے میں۔ فالج کا اٹیک ہوا ہے پتہ چلا تھا۔

رضا رومی کو نمبر بھیج کر میں نے خود بھی جانا ضروری سمجھا۔ میاں میر پل سے نیچے اتر کر سینٹ جونز کالونی کی طرف مڑتے ہوئے میرے ساتھ یادوں کی یلغار تھی۔

ستر کی دہائی کے وہ دن تھے جب میرے تین کچے پکے ناول سنگ میل پبلیکیشنز کے بانی نیاز احمد صاحب چھاپ چکے تھے۔ مشرقی پاکستان پر خون جگر سے لکھے گئے ناول ”تنہا“ کو چھاپنے سے انکاری ہو گئے کہ ان کا کہنا تھا مجھے جیل جانے کا کوئی شوق نہیں۔ ایسے میں مسودے کو چھاتی سے لپٹائے اردو بازار اور مال روڈ پر جوتیاں چٹخاتی پھرتی تھی۔ کبھی کبھی ٹی ہاؤس جا دھمکتی۔ الطاف فاطمہ، ندرت الطاف، یونس جاوید، کشور ناہید، جمیلہ ہاشمی، انتظار حسین، مسعود اشعر، سائرہ ہاشمی، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، انور سجاد، اظہر جاوید، سرفراز سید، اسرار زیدی اور دیگر بے شمار نام سبھوں کو دیکھتی۔ ان چمکتے دمکتے ستاروں کا رعب دوب اتنا تھا کہ آگے بڑھ کر بات کرنی مشکل لگتی۔

اردو ڈائجسٹ میں ان سب بڑے لوگوں کے افسانے چھپتے تھے اور اخبارات میں چھپنے والی تصویروں سے شناسائی کے بعد انہیں یوں دیکھنا بھی اچھا لگتا۔ پھر جب اردو ڈائجسٹ کے بینر تلے ہفت روزہ سیاسی پرچہ ”زندگی“ نکلا تو میں بھی اس ادارے سے جڑ گئی اور یوں میرا ادبی حلقوں میں آنا جانا باقاعدگی سے شروع ہو گیا۔ مشرقی پاکستان پر رلتی کھلتی کتاب بھی اردو ڈائجسٹ نے محبت سے چھاپ دی۔ اور میں نے اسے بڑے ادیبوں کو دینے کا آغاز کیا۔

سائرہ ہاشمی میری مرتب کردہ فہرست میں بہت اوپر تھیں۔ ایک دن ان کے گھر جا پہنچی۔ دو کنال کے رقبے پر پھیلا ایک خوبصورت گھر جس میں پنجاب کی ایک جٹی مٹیار نے مجھے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنی تصویروں جیسی ہی تھی رعب دوب اور ٹہکے والی۔ آراستہ پیراستہ کمرے میں کسی مہارانی کا رنگ و روپ لیے ناول ”تنہا“ کے اوراق پھولتی اور پوچھتی تھی تو تم سٹوڈنٹ کے طور پر رہیں وہاں۔ اس سرزمین کو دیکھنے اور اس پر لکھنے کو میرا بھی بہت دل چاہتا تھا۔ پر اب تو سب کچھ ہی ختم ہو گیا۔

ایک بڑی لکھاری، امیر اور طرحدار عورت کا انتہائی پرتپاک سا رویہ میرے لیے حیرت کا باعث تھا کہ اس نے ایک گمنام سی لکھاری کو پذیرائی دی تھی۔ فیض صاحب کا اس دن جنازہ تھا اور وہ وہاں جا رہی تھیں۔

”چلو گی“ انہوں نے خوش دلی سے مجھے پیش کش کی۔ اب بھلا اندھے کو کیا چاہیے تھا۔ میت والے گھر میں کشور ناہید کو دیکھا۔ بانو آپا، منیزہ، سلیمہ ایلس فیض اور اللہ جانے کون کون سی ہستیاں وہاں موجود تھیں۔ کہنا پڑے گا کہ اس دن سائرہ نے مجھے بہت پروٹوکول دیا۔

اب اس نے میرے سر پر دست شفقت رکھ دیا تھا۔ بزم ہم نفساں کی ہر تقریب میں باقاعدہ مدعو کیا جاتا۔ اس زمانے میں ان گھریلو تقریبات میں ہی ادب پھیل پھول رہا تھا اور اخبارات کے ادبی صفحات بے حد اہم سمجھے جاتے تھے۔ تب اس معمولی سی لڑکی نما عورت کے پاس وسائل کی بھی بڑی کمی تھی۔ پر اس کی محبت تھی کہ بیچ کا ایک راستہ اس نے نکال لیا تھا۔ میرے میاں مجھے اس کے گھر ڈراپ کر دیتے اور تقریب کے بعد وہیں سے پک بھی کرلیتے۔

یوں میرے لیے بڑے ادیبوں سے ملنا اور انہیں سننا ممکن ہو گیا۔ بہت محبت دی اس نے۔ بہت سارے اور راستے دکھائے۔ زندگی نے دولت، عزت، شہرت، اولاد، فرمانبردار شوہر بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا تھا اسے۔ دو بچے ڈاکٹر بن چکے تھے۔ تاہم مقدر کہیں تشنگی کے رنگ بھی گھول دیتا ہے۔ بچوں کی شادیاں نہیں ہو رہی تھیں۔ معیار بہت اونچا تھا یا قدرت کی منظوری نہیں تھی۔

پھر جیسے دھیرے دھیرے اس کا لکھنا اور تقریبات کا انعقاد کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ حسن رضوی جیسے بڑے ادبی صحافی کی ناگہانی موت نے بھی بڑا نقصان کیا تھا کہ سائرہ ہاشمی کی بزم ہم نفساں کو اس نے اپنے ادبی صفحے پر جتنی نمایاں کوریج دی تھی اس نے سائرہ کا امیج بہت اوپر اٹھا دیا تھا۔ اب وہ گوشہ نشین سی ہو گئی تھیں۔ عذرا اصغر کا اسلام آباد چلے جانے اور نئے لکھنے والوں کے نئے نئے رنگوں سے بھی ٹکراؤ تھا۔

کبھی کبھی شکوہ بھی لبوں پر آ جاتا تھا کہ وہ جس پائے کی لکھاری ہیں انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی۔ بس یہ سب نصیبوں کی بات ہے۔ بیمار بھی بہت رہنے لگی تھیں۔

اور اب دسمبر میں وہ وہاں چلی گئی ہیں جہاں ہم سب نے جانا ہے۔ دعائیں اور محبتیں۔ سائرہ میں تمہارے پیار اور محبت کی بہت مقروض ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments