استعماری فوج سے قومی ادارے تک کا سفر! ( 2 )۔


برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کی طے شدہ سکیم کے مطابق پاکستانی علاقوں کے ہندو افسروں اور جوانوں کو چوائس دی گئی کہ وہ چاہیں تو انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کر لیں۔ اسی طرح بھارتی علاقوں کے مکین مسلمان اہلکاروں کو پاکستان آرمی کے انتخاب کا موقع دیا گیا۔ انڈین آرمی کا حصہ بننے والی یونٹس کے مسلمان افسروں اور جوانوں کی اکثریت نے جہاں پاکستان آرمی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو وہیں ایک بڑی تعداد نے بھارت میں ہی رہنا پسند کیا۔

جب نامزد یونٹس نے اپنے اپنے ملک روانگی کا عمل شروع کیا تو بے حد خوش دلی، فوجی روایات اور اعزاز کے ساتھ اپنے پرانے ساتھیوں اور سابقہ یونٹوں کو رخصت کیا گیا۔ دہلی میں پروبن ہارس نے اپنے پاکستان جانے والے مسلمان سکوارڈن جبکہ راولپنڈی میں 2 کیولری رجمنٹ نے بھارتی فوج کا انتخاب کرنے والے ہندو اور سکھ ساتھیوں کے اعزاز میں پرتکلف ’بڑے کھانوں‘ کا انعقاد کرتے ہوئے اس عزم کے ساتھ رخصت کیا کہ ’ہم جہاں بھی جائیں گے، ہم بھائی ہی رہیں گے، کیونکہ ہم نے ایک ساتھ اپنا لہو گرایا ہے‘ ۔ چند ہی مہینوں کے اندر مگر دونوں اطراف کے پرانے ’کامریڈز ان آرمز‘ کشمیر کے پہاڑوں پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔

طے شدہ بندوبست کے تحت آزاد مملکتوں کی افواج میں تعینات برطانوی افسروں نے ایک مقررہ مدت تک برصغیر پاک و ہند میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینی تھیں۔ پالیسی کے مطابق مگر دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی صورت میں دونوں طرف تعینات برطانوی افسروں کو اس کا حصہ نہیں بننا تھا۔ کشمیر کا میدان گرم ہوا تو پاکستان آرمی کے برطانوی کمانڈر ان چیف نے کچھ اسی پس منظر میں پاکستان کے گورنر جنرل کا فوجی دستوں کی کشمیر میں تعیناتی کا حکم ماننے سے معذوری ظاہر کر دی۔

متعدد عوامل کی بناء پر آزادی کے فوراً بعد کے ابتدائی مہینوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ پاکستان آرمی مظلوم کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہندوؤں سے بر سر پیکار ’مسلم فوج‘ ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں قبائلی جہادیوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے والے افسران کو موقع ملا تو انہوں نے جی ایچ کیو میں برطانوی ہائی کمانڈ سے بالا بالا کراچی میں ’سیاسی قیادت‘ سے براہ راست تعلقات استوار کر لئے، کہ جس کی باضابطہ شکایت خود برطانوی کمانڈر ان چیف نے گورنر جنرل سے ایک ملاقات میں کی۔

بعض فوجی افسران نے قائد کے دورہ سٹاف کالج کوئٹہ کے دوران ان سے ملاقات میں حکومت کی کشمیر پالیسی میں تساہل پربھی تحفظات کا اظہار کیا۔ قائد نے ہر دو رویوں کو نا پسند کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے حاضرین پر واضح کیا کہ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا فرقے سے ہو، وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ جبکہ اسی خطاب میں سیاسی معاملات میں مداخلت کی بجائے ’ریاست کے سربراہ‘ کے احکامات کے تابع ہونے کے باب میں قائداعظم نے انہیں ان کا حلف پڑھ کر سنایا۔

سنہ 1819 ء میں کلکتہ میں ہندو کالج کے قیام اور صدی کی آٹھویں دہائی میں علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھے جانے میں 60 برسوں کا فاصلہ ہے۔ یہ تعلیمی فاصلہ طے کرنا تو درکنار، برصغیر، بالخصوص پاکستان کے مسلمان آج اس سے بھی کہیں پیچھے جا گرے ہیں۔ نتیجے میں گزرتے عشروں آج امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں کے سرکاری اور دنیا پر حکمرانی کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اندر اہم عہدوں پر بھارتی جا بجا براجمان ہیں۔ دوسری طرف پاکستانیوں کے لئے نچلے درجے کی ملازمتیں اور وہی کام کاج بچے ہیں جن میں تعلیم یافتہ ہونا بنیادی ضرورت نہیں۔

ایسا راتوں رات نہیں ہوا۔ آج ہندوستان میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پائی جانے والی وسعت در حقیت انیسویں صدی میں بنیاد پرست ہندؤں کے مقابلے میں اٹھنے والی براہمو سماج جیسی تحریکوں سے لے کر نہرو کے ’سائنسی مزاج‘ تک کا ثمر ہے۔ آزادی کے فوراً بعد سے لے کر اگلے پچاس برس بھارت نے کثیر الجہتی، سیکیولر اور سائنسی نظام تعلیم کو ملک میں مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے پر صرف کیے ۔ آج اسی کا پھل کھا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں تعلیمی لحاظ سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اولین برسوں کے دوران قومی اداروں کی مضبوط بنیادیں رکھنے میں ہماری ناکامی کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں تعلیمی نظام ہی نہیں زندگی کا ہر شعبہ مسلسل زوال پذیر ہے۔

ہماری اس قومی تنزلی کی بنیادی وجہ ابتدائی برسوں میں ادارہ سازی کی بجائے نو زائیدہ مملکت کا مختلف نوعیت کے مفاد پرست گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بن جانا ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ اندورنی خلفشار کے ہاتھوں ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی۔ بڑی بڑی جاگیروں اور ’ریاست کے اندر ریاستوں کے مالکان‘ وڈیرے، خوانین، نواب اور سردار ہر قسم کی سیاسی، معاشی اور تعلیمی اصلاحات کے سامنے دیوار بن کر کھڑے تھے۔

چنانچہ جہاں بھارت میں بڑی بڑی جاگیروں، راجوں اور نوابوں کی ریاستوں کا خاتمہ کیا جا رہا تھا، پاکستان میں ایلیٹ کیپچر جڑیں پکڑ رہا تھا۔ مذہبی جماعتیں، حتی کہ وہ بھی کہ جنہوں نے قیام پاکستان کی بھر پور مخالفت کی تھی، قائد کے پاکستان کو اب ’مسجد‘ قرار دے کر ملک میں اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے کے لئے متحرک ہو چکی تھیں۔ سال 1953 ء میں ہونے والے پہلے مذہبی فسادات کے پیچھے انہی میں سے ایک ایسے مذہبی گروہ کا ہاتھ تھا، جو قائد اعظم اور قیام پاکستان کی مخالفت کی پہچان رکھتا تھا۔ اسی پر آشوب برس کے دوران لاہور شہر میں امن و امان کی بحالی اور صفائی ستھرائی کے کام کے مکمل کیے جانے پر ’ڈان‘ اخبار نے جنرل اعظم کو بتایا کہ قوم ان کا احسان برسوں یاد رکھے گی۔

قومی رہنماؤں کی باہم ریشہ دوانیوں اور اس کے نتیجے میں عوام کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ نے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس امر کے شواہد موجود ہونے کے باوجود کہ جنرل ایوب میں سیاسی مہم جوئی کے جراثیم بہت پہلے سے پائے جاتے تھے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کی نا اہلی اور خود غرضی نے ان کو اقتدار پر قابض ہونے کی جرآت عطا کی۔ مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان ہوا تو عوام نے کھلی بانہوں سے فوجی حکمران کو خوش آمدید کہا۔

سرکاری ملازمین دفتروں میں وقت پر آنا شروع ہو گئے۔ دکانداروں نے نرخ نامے آویزاں کر دیے۔ ذخیرہ اندوزوں نے گوداموں کے منہ کھول دیے۔ ملاوٹ زدہ خوراک بھاری مقدار میں راتوں رات ندی نالوں میں بہا دی گئی۔ پورے ملک میں سویلین حکمرانوں کو گھر بھیجے جانے پر ہر طبقے میں پائے جانے والے اطمینان کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی کتاب
Pakistan:The Garrison State
میں لارنس زائرنگ کی کتاب
The Ayub Khan Era
کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلے مارشل لاء کے نفاذ پر خود مادر ملت نے صدر ایوب کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نئے حکمران معاشرے کو لاحق امراض اور ملک کو درپیش بد انتظامی کا خاتمہ کریں گے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments