غالب اور موج شراب (نیورو سائنس کی روشنی میں)


غالب، شعر و ادب کا ایسا جہاں ہے جو اپنے اندر عظیم شخصیت کی تابانی و توانی، شان بے نیازی، انداز بیاں کی لطافت، آفاقیت، محشر خیال کی فیض یابی، ظرافت کی چاشنی، شوخی تحریر، عالم تقریر، گنجینہ معنی کی طلسمات آرائی، لفظیات کی تہہ داری، معنویت کی گہرائی، تشکیک پسندی، کلاسکیت کی چمک، جدیدیت کی رمک، فلسفیانہ و سائنسی شعور، مسائل تصوف، موج شراب کا لطف، ابہام کی کیفیات، رفعت تخیل، پر کشش تراکیب، دل کش تشبیہات و استعارے، فضائے حیرت آباد، پیچیدگی و سلاست کا حسین امتزاج اور دیگر فکر و فن کے اجزائے پریشاں رکھتا ہے۔

کلام غالب، ہمہ گیریت کے درجے پر فائز ہے جو اپنے عمیق اور بلند تخیل کے سبب مقبول ہے۔ مختلف شارحین نے کلام غالب کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، اپنی فکر کے پیمانے پر اشعار کی قریب قریب تعبیر بھی فرمائی لیکن پھر بھی تشنگی باقی رہی اور وقت کے بدلتے دھارے کے ساتھ ساتھ کلام غالب اپنے منفرد رنگ اور آہنگ کی نمود کرتا رہا۔

اسی تناظر میں، میرزا غالب کا ایک شعر نیورو سائنس کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے :
نشے کے پردے میں ہے محو تماشائے دماغ
بس کہ رکھتی ہے سر نشو و نما موج شراب
لغات:
نشے کے پردے : نشے کی شکل، نشے کی صورت
محو تماشائے دماغ : سرور و مستی کی کیفیت
سر نشو و نما: خیال کی پرورش، آگہی، خیال کا جنم لینا
موج شراب : شراب کا دور، شراب نوشی کا وقت

مفہوم: دماغ نشے کی حالت میں کیف و مستی سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شراب کی مہک اور تاثیر، دماغ میں خیالات کی پرورش میں منہمک ہے اور دماغی قوتوں (نیورو ٹرانسمیٹرز) کو ترقی /تحریک بخشتی ہے۔

شرح:۔

شراب ایوان ادب میں مقبول عام مشروب ہے۔ شراب خمیر کیا ہوا ایک ایسا مشروب ہے جو ہمارے دماغ کو نشہ اور سرور مہیا کرتا ہے۔ عربی، فارسی اور اردو ادب میں اس کا جا بجا استعمال ملتا ہے۔ عناصر خمریات سمیت شراب، شاعری میں مے، خمر، صہبا، بادہ اور دیگر ناموں سے مستعمل ہے۔ خمریات اردو ادب کا مرغوب مضمون رہا ہے۔ جسے تمام قدیم و جدید شعرا نے اپنے مضامین کا حصہ بنا کر تشبیہات و استعارے کی صورت اس میں مختلف معنی بھرنے کی کوشش کی۔

شراب اور مرزا غالب، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جس کی سند ان کے کلام میں جگہ جگہ چھلکتی نظر آتی ہے۔ شراب کی مناسبت سے مرزا کے متعلق بہت سے دلچسپ قصے بھی ملتے ہیں۔

مرزا غالب نے شراب کو معنویت کی وسعت سے برتا۔ کہیں اسے تشبیہ کا لبادہ دیا تو کہیں استعارے کا حسین لباس پہنایا اور عشق حقیقی و مجازی سمیت کثیر الجہت مفاہیم مراد لیے۔

مذکورہ شعر دیوان غالب میں شراب کی شان میں لکھے گئے قصیدے سے منتخب کیا گیا ہے جس کی ردیف ”موج شراب“ ہے۔ شعر میں سر اور دماغ کی مطابقت سے رعایت لفظی کا خوب صورت استعمال ہوا ہے۔

در اصل شعر، شراب کی دماغ سے نسبت اور اس کے عارضی سرور و کیف کی نمائندگی کرتا ہے۔

شعر ہذا، دو حوالوں سے غمازی کرتا دکھائی دیتا ہے ؛ایک شراب پی کر سرور و مستی کا احساس اور دوسرا شراب دیکھ کر سرشاری و خوشی کا۔

جیسے ہی ہم شراب پیتے ہیں تو شراب ہمارے دماغ پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے جس کے پس پردہ نیورو سائنس کارفرما ہوتی ہے۔

نیورو سائنس، دماغ سے تعلق رکھتی ہے۔ دماغ میں ان گنت نرو سیلز اور کیمیائی مادے یعنی نیورو ٹرانسمیٹرز پائے جاتے ہیں۔ جو ہمارے پورے جسم کو باخبر بنانے کے ساتھ حرکت قلب، نظام تنفس، فشار خون کے اعتدال اور خوشی و غم و خوف و ہراس جیسی صورت احوال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی طرح شراب نوشی پر بھی دماغ حساس رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ شراب پینے کے فوراً بعد انسان کیف و مستی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔ اس کے محرکات میں نیورو ٹرانسمیٹرز موجود ہوتے ہیں جو ہمارے اعصاب میں پیغام رسانی اور جسمانی سرگرمیوں کو قابو کرنے کا کام کرتے ہیں۔

شراب پینے پر یہی نیورو ٹرانسمیٹرز دماغ میں خارج ہوتے ہیں اور حرکت میں آ کر اپنی متعلقہ سرگرمی انجام دیتے ہوئے پر لطف سماں اور طاقت خیال کی نشو و نما کی وجہ بنتے ہیں۔ یوں تو بہت سے نیورو ٹرانسمیٹرز، ہمارے نظام اعصاب میں موجود ہوتے ہیں لیکن چند ایک، اپنے تیز اور فوری رد عمل کے باعث مشہور ہیں جن میں سے Glutamate، GABA اور Dopamine ہمارے مضمون سے تعلق رکھتے ہیں۔

غالب کا زیر بحث شعر انھی نیورو ٹرانسمیٹرز کی عکاسی کرتا ہے۔
1-GABA (Gama – Aminobutyric Acid)

یہ ٹرانسمیٹرز اضطراب، پریشانی اور افسردگی کو کم کرتا ہے اور بدلے میں تسکین، خوشی، راحت اور پر سکون نیند کا سبب بنتا ہے۔

2-Glutamate

یہ ٹرانمیسٹر ہمارے دماغ میں بکثرت خارج ہوتا ہے۔ جو یادداشت، سیکھنے، تفکر کرنے کو تیز کرتا اور دماغ کو متحرک بنانے کے ساتھ ساتھ قوت متخیلہ عطا کرتا ہے۔ جس کے لیے شعر میں ”سر نشو و نما“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

3-Dopamine

سب سے مشہور نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو انعامی نیورو ٹرانمسیٹر کہلاتا ہے۔ ہمارے پسندیدہ کاموں کے اختتام پذیر ہونے پر جو خوشی ہمیں انعام کے طور پر نصیب ہوتی ہے وہ اسی نیورو ٹرانسمیٹر کی مرہون منت ہے۔ یہ ہمارے جسم کو مسرت کا احساس، حوصلہ افزائی، سیکھنے کا شوق اور توجہ نیز اچھی نیند فراہم کرتا ہے۔ GABA اور اسے غالب نے شعر میں ”محو تماشائے دماغ“ کے لفظوں میں بیان کیا ہے۔ جس سے مراد دماغ کا طرب انگیزی اور کیف میں محو رہنا ہے۔

اسی طرح جب شراب کی لت لگ جاتی ہے تو شراب کی عدم دستیابی بے چینی کا سبب بنتی ہے کیوں کہ انسان اس کا عادی ہو چکا ہوتا ہے اور ہمارے دماغ کے اعصابی خلیے اور کیمیائی مادے (نیورو ٹرانسمیٹز) اس کے پابند ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان شراب دیکھتا ہے تو اس وقت بھی دماغ مستی کی رفتار پکڑ لیتا ہے۔

شعر سے شراب کی بوتل کا ظاہری حال بھی بیان ہونے کا گمان گزرتا ہے کہ جس طرح شراب بوتل کے ڈھکنے (سر) کی طرف تیزی سے جاتی (نشو و نما) ہے تو شراب اپنے تیور دکھاتی ہے اسی طرح انسان کے اندر جاکر دماغ کو بشاشت بخشنے کے ساتھ خیال کو ترقی دیتی ہے۔

غالب چوں کہ گہرے تردد کے مالک تھے اس لیے انھوں نے شراب کے پردے میں دماغ کا احساس نشاط اور اس میں پیدا ہونے والے خیال کی پرورش اور دماغ کو ملنے والی تحریک اور ترقی کی اس سائنس کو اپنے کلام کا حصہ بنایا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments