جمہوریت اور ہم


تقسیم ہند کے بعد 1947 میں ریاست پاکستان وجود میں آئی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا۔ گو کہ اسلام اور عصر حاضر کی جمہوریت میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر ہمارا مقصد جمہوریت فی السلام تھا، بار ہاں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خطبات میں فرمایا ہم محض زمین کا ٹکڑا حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ ایک ایسی اسلامی ریاست چاہیے جس میں مسلمان آزادانہ طور پر اپنے رب کی عبادت کر سکیں اور باقی تمام اقلیتوں کو دین کے اصولوں کے مطابق رعایت حاصل ہو۔

قیام پاکستان کے 9 برس بعد 29 فروری 1956 کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے پہلا دستور پیش کیا جو کہ بدقسمتی سے صرف 31 ماہ چل سکا۔ پہلے مسلمان فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے آئین منسوخ کیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ نوزائیدہ جمہوری ملک میں جمہوریت لڑکھڑاتی رہی یوں آمرانہ دور کے بعد پھر ایک مسودہ تیار ہوا جو 8 جون 1962 میں نافذ ہوا۔ وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے اس شخصی دستور کو ”لائل پور کا گھنٹہ گھر“ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اس دستور کی تمام راہیں، صدر صاحب کی ذات سے نکلتی تھیں۔

اس پر معروف شاعر حبیب جالب کا یہ مصرعہ تاریخی اہمیت اختیار کر گیا تھا ”ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا۔“ یہ دوسرا مسودہ 44 ماہ کے مختصر دورانیہ کا اختتام ایک بار پھر مارشل لاء سے ہوا۔ 8 برس کے طویل آمرانہ دور کے بعد ریاست پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا مگر نتیجہ جمہوریت کی لاش کے تابوت کی شکل میں یوں آیا کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ 1972 کا عبوری آئین اور پھر 73 میں ریاست کا آخری آئین ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے پیش کیا، اس کا اختتام بھی فوجی آمر کے ہاتھوں مارشل لا کی صورت میں ہوا۔ پاکستان میں سول ملٹری قیادت ایسے ہی بندر بانٹ کر کے اقتدار سے چمٹی رہی اور عوام کو جمہوریت کا وہ سبق یاد کروایا جو نسل در نسل بھولنے کو تیار نہیں۔ کہنے کو ہم ایک ملک میں ہیں جہاں ستمبر 2018 9 ستمبر 2018 کو عارف علوی پاکستان کے 13 ویں آئینی صدر منتخب ہوئے جو تاحال موجود ہیں۔

ہم تاریخ سے سیکھنے کو قطعاً تیار نہیں ہیں ہمارا ملک کس نظام کا منتظر ہے یہ موضوع قابل بعث ہے۔ ستم یہ ہے ہمارا سیاسی جماعتوں کے اندر مکمل موروثیت اور آمریت ہے اور ان کا طرز حکومت یا سیاست کبھی بھی جمہوری نہیں نظر آیا۔

گزشتہ 75 برسوں سے عوام جمہوریت کی اصل روح اصل شکل دیکھنے سے قاصر ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کیا ہم جمہوریت قابل نہیں ہیں یا ہمارا سطحی معاشرہ جمہوریت کے معیار پر پورا نہیں اترتا، البتہ یہ بھی کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم اس نظام کے متحمل کبھی نہیں ہو سکتے، پڑوسی ممالک کی مثال ہم پر اس لیے بھی نہیں آتی کیونکہ من حیث القوم ہم قند ذہنوں کے ساتھ نمائندہ منتخب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ریاست کے تمام مسائل نظام حکومت اور طرز حکومت کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہمیں کون سا نظام اس غلاظت سے نجات دے سکتا ہے یہ طے کرنے کا وقت ہے۔

محمد زبیر، کیل گراں
Latest posts by محمد زبیر، کیل گراں (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments