مربی سے ملاقات


خود شناسی کے لئے انسان کو شب زاد پیشہ اپنانا چاہیے۔ جب افق پر چار سو سیاہ دبیز چادر پھیل جاتی ہے تو خود شناسی کا سراغ لاتی ہے۔ ایسی ہی ایک ساعت میں شمالی امریکہ کی برفانی چادر تلے (کینیڈا) ماضی کے اوراق حافظے کی لوح پر روشن ہو گئے۔ ہمارا بہت سا وقت عمل کے بجائے معجزوں کے انتظار میں بیت گیا۔ لمحہ افسوس کا پھیلاؤ ہماری زندگی کی حکایت پر محیط ہے۔ ہمارے شعور کی کوتاہ نگاہی نے ہمیں برسوں کی صحرا نوردی کا راستہ دکھایا۔

ہمیں اپنے دامن میں وہ فکری پاکیزگی کی تلاش ہے جو نرگس کی بے نوری کا درماں کر سکے۔ پھر ایک مبارک ساعت میں مربی سے ملاقات ہو گئی۔ گردش روز و شب میں وہ لمحات آن پہنچے جب مربی نے ہمارے سامنے آئینہ رکھ دیا۔ وجاہت مسعود صاحب کی ایک تحریر سے الفاظ مستعار لیں، تو گویا اب ہم کج مج بیانی سے کام لیتے ہیں کہیں ادب کی آڑ لیتے ہیں اور کہیں اشاروں کنایوں سے کام چلاتے ہیں تاکہ پردہ اٹھنے نہ پائے۔ پھر آخر ہم مربی سے موسم خزاں میں اپنی درماندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ مربی ہمیشہ کی طرح گہرے پانیوں کے مہربان لہجے میں ہمارا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور ہمارے احساس زیاں کو نوید بہار سناتے ہیں۔ ہمارے عزم کو از سر نو خدائے رب العزت کے شعوری حوالے سے جوڑنے کا سامان کرتے ہیں۔

ہمیں خدا کی موجودگی کا احساس کیوں یاد نہیں رہتا؟ ہماری نصف صدی پر پھیلی حکایت کا بیشتر حصہ کیوں باعث ندامت بنا؟ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے اسے جاننے کی کوشش ہم نے نہیں کی۔ ہماری سہل پسندی نے ہمیں بحرانی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ زندگی کا المیہ ختم نہیں ہوتا اب رستہ کھو دیا ہے اور اس بستی میں جا نکلے ہیں جہاں ہجوم نے جنگل میں منگل کر رکھا ہے۔ ہر جگہ آسائشوں کا ڈیرا ہے۔ آہستہ آہستہ خاموشی سے لوگ اس قافلے میں شامل ہوتے ہیں ایک دفعہ شمولیت اختیار کرنے کے بعد حکایت ختم نہیں ہوتی عمر بیت جاتی ہے۔ حبیب جالب کا مصرعہ زیر لب کیوں نہ ہو

اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے

مربی ہمیں تناظر درست کرنے کا اشارہ دیتے ہیں جہاں خدائے رب العزت کی ہمہ وقت موجودگی اور قربت کا احساس ہمارے وجود کلی کی کیفیت کا نگہبان بن سکے۔ ہم مربی کو کیسے اپنا المیہ بیان کریں کہ ہم نے تو ان آنکھوں سے تناظر کی گہرائی کا مشاہدہ کر رکھا ہے جہاں خوبصورت راستے دلفریب خواب دکھاتے ہیں۔ معاشی مفاد کا بندوبست بھی موجود ہے بس منزل کا نشان نہیں ملتا۔ معلوم نہیں قصور منزل پر اتری دھند کا ہے یا ہماری مجروح بصارت کا۔ شاید اسی لئے اہل قافلہ نے منزل کے بجائے رستے میں قیام کو ترجیح دی اب آپ ہمیں بانگ درا نہ سنائیے۔ مربی سے ملنے کے بعد یہ معلوم ہو گیا کہ تناظر کی خرابی سے بستی کیسے غریب ہو جاتی ہے۔ خدا مربی کا بھلا کرے

آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

خدا اور اس کے بندوں سے تعلق کو ہم نے صرف تصور اور محدود فہم کی حد تک جانا اور مانا جس کی وجہ سے زندگی کی انفرادیت تو آسان ہو گئی مگر لوگ، تعلق اور مذہب ہمارے لئے بوجھ بن گئے اور اجتماعی زندگی کا بحران نظر آتا ہے۔ مربی کہتے ہیں کہ ندامت کی انگھییٹی دل کے داغ دھو دیتی ہے۔ بقول وجاہت مسعود متاع احساس سلامت ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اچھے لوگ ہر شخص میں خوبی ضرور ڈھونڈ لیتے ہیں۔ تناظر کی صحیح تشکیل کے لئے باطن کی آنکھ کھولنا ضروری ہے تاکہ قلب کو نفس امارہ سے نفس مطمئنہ کی رفاقت نصیب ہو سکے اور ہم کسی بڑے نصب العین سے جڑ سکیں اور یقین کی دولت میسر آئے۔ یقین کے سب سے بڑے ماخذ کو یاد کرتے تو کتاب منیر سے آواز آتی ہے۔

ہم نے یہ قرآن آپ (صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ (صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم) مشقت میں پڑ جائیں۔ مگر یہ تو نصیحت ہے اس کے لئے جو خشیت رکھتا ہو۔ سورت طہ ( 2۔ 3 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments