ایلان مسک کا شیطانی منصوبہ
ثمینہ مالی طور پر خوشحال نہ تھی۔ تین سال قبل شوہر سے علیحدگی کے بعد گھر اور دو بچوں کی تمام ذمہ داری اس پر آ پڑی تھی جس کو وہ بظاہر بخوبی نبھا رہی تھی۔ مگر جب سے دونوں بچے امریکہ کی بہترین یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اس کے اخراجات اس کی آمدن سے تجاوز کرتے جا رہے تھے۔ کیونکہ اس کے بچوں کی فیس ہزاروں ڈالر میں تھی جس کو وہ اکیلے برداشت کر رہی تھی۔ ایک دن ثمینہ نے مقامی اخبار میں نوکری کا اشتہار دیکھا۔ اس نوکری کی تنخواہ اس کی موجودہ نوکری جو ایک مقامی ہسپتال میں سیکرٹری کی تھی، سے چار گنا زیادہ تھی۔
ثمینہ نے نئی نوکری کے لیے درخواست دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کو فوراً ہی متعلقہ کمپنی کی طرف سے جواب موصول ہو گیا جس کے مطابق وہ اس نوکری کے لیے منتخب ہو گئی تھی۔ لیکن اس کی تعیناتی کسی خلائی مقام پر ہوئی تھی۔ چٹھی میں یہ بھی لکھا تھا کہ کام کی نوعیت اور دیگر تفصیلات اس مقام پر پہنچ کر ثمینہ کو بتا دی جائیں گی۔ جوابی چٹھی میں یہ بھی مختصراً تحریر تھا کہ خلائی مقام پر جانے کے لیے اگلی فلائیٹ آج ہی روانہ ہو رہی تھی۔ ثمینہ نے اپنا سفری بیگ کندھے پر لٹکایا اور بس میں سوار ہو کر خلائی اسٹیشن کی طرف چل دی۔ واقعتاً خلائی فلائیٹ پرواز بھرنے ہی والی تھی۔ جیسے ہی اس نے خلائی جہاز پر اپنی سیٹ پر براجمان ہو کر بیلٹ باندھی تو دروازے بند ہو گئے اور سفر شروع ہو گیا۔
خلائی جہاز کا اندرونی حصہ گول بیضوی تھا۔ چھت، فرش اور چاروں طرف ایسا خوبصورت کپڑا منڈھا ہوا تھا جیسے سبز گھاس اگی ہوئی ہو۔ خلابازوں کا ڈانگری نما لباس بھی اسی کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ خلائی جہاز کے اندر کوئی لائٹ نہیں تھی بلکہ اس کپڑے سے ایسی بے مثال روشنی پھوٹ رہی تھی جس نے اندرون کو منور کر رکھا تھا۔ ثمینہ نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہاں خلائی جہاز کے اندر موجود دیگر خواتین عمر میں اس سے خاصی کم تھیں بلکہ ان میں سے کچھ تو ابھی بچیاں تھیں۔
ثمینہ نے متجسس ہو کر اپنے برابر بیٹھی ایک بچی سے پوچھا کیا آپ کی عمر کام کے لیے قانونی طور موزوں ہے۔ میں نوکری کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی ماں کے ساتھ جا رہی ہوں۔ بچی کے جواب میں اعتماد تھا۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ دوسرے سیارے پر اچھا اسکول ہو گا اور وہاں چھوٹے بچوں کی نگہداشت کی نوکری بھی میسر ہوگی۔ ”بچی نے اپنے جواب کی مزید وضاحت کی۔
جب تک زمین کے مدار میں تھے تو کشش ثقل کی زد میں تھے۔ مگر زمین کے مدار سے نکلتے ہی سب کے سب مسافر بے وزن ہو گئے۔ یہ ان کی زندگی کا ایک منفرد تجربہ تھا۔ کچھ ہنسنے لگے اور کچھ نے قے کردی۔ ثمینہ نے خود کو ہلکا پھلکا اور خوش محسوس کیا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی میں اس ایڈونچر کا موقع ملے گا اس نے سوچا۔ خلائی جہاز اب کافی نیچے آ گیا تھا۔ یاقوتی فرش کا حسن دو چند ہو گیا تھا۔ جگمگ جگمگ کرتے ہوئے فرش پر سورج کی کرنوں سے ستارے بن اور ٹوٹ رہے تھے۔ عین اس لمحے ان کے جہاز نے فرش کو چھو لیا۔
خلائی اسٹیشن ایک بہت بڑے دستی بم کی مانند بیضوی شکل کا ایک عظیم الجثہ ڈھانچہ تھا۔ جس کے بیچ میں بہت سے افراد ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ وہ ایک خاص نظم و ضبط سے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے اور کسی سے فالتو بات کرنے کے روادار نہ تھے۔ ثمینہ نے دیکھا کہ وہاں پر موجود ایک خلائی اڈے پر خلائی جہازوں کی آمدو رفت بھی جاری ہے۔ اچانک ایک عجیب بات ہوئی یک دم ثمینہ کے کان سن ہو گئے اور اس کی چھٹی حس نے بتایا کہ اس کے اردگرد کچھ جان پہچان کے لوگ موجود ہیں۔
یہ حس اس کے اندر بچپن سے موجود تھی مگر بیدار کم بیش ہی ہوتی تھی۔ خواتین کی قطار میں چلتے ہوئے ثمینہ کی ٹکر دوسری قطار کے ایک آدمی سے ہوئی اور اس کا بیگ نیچے گر گیا۔ اس آدمی نے فوراً اس کا بیگ اٹھا کر دیا اور معذرت کی۔ ثمینہ نے اس آدمی کو پہچان لیا۔ یہ تامل موسیقار خاندان کا ایک فرد تھا جس کو سب پاپس کہتے تھے۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا تو جانا کہ اس خاندان کے سب لوگ اس کرے پر موجود تھے۔ ثمینہ اپنی جان پہچان کے لوگ دیکھ کر خوش بہت خوش ہوئی۔
آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ثمینہ نے حیرانی اور تجسس سے سوال کیا۔ ”ہمیں ایلان مسک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نوکری دی ہے۔ اس کے علاوہ ہم ہفتہ، اتوار کی چھٹیوں کے دوران تفریحی سرگرمیاں مہیا کرنے والے طائفے کا حصہ ہوں گے ۔ امریکہ کی امیگریشن سروسز والے ہمیں ویزا کے حصول لیے مسلسل پریشان کر رہی تھے اور یہ ایک سنہری موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ہم لوگ معاشی استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔ “ وہ لوگ پر امید تھے۔
خلائی مقام پر طوفانوں میں کام کرنے والی ڈانگری نما یونیفارم پہنے ہوئے ملازمین آپس میں کسی خلائی زبان میں بات چیت کر رہے تھے جو اتفاق سے ثمینہ جانتی تھی۔ اگلے چند لمحوں میں جو اس نے سنا اس نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔
مشہور دادا اور پوتے رک اور مورٹی کی پیچیدہ مشینوں سے بنی گیند نما اسپیس شپ کو ایک دور دراز سیارے میں کریش ہونے کے بعد جاوا کی خلائی مارکیٹ میں بیچ دیا گیا تھا۔ اس خلائی جہاز کو ثمینہ کے سابقہ شوہر قدیر نے سستے داموں خرید کر اس کی مرمت کروائی اور اس میں بیٹھ کر اکیلا کمپیوٹروں میں گھرا خلا میں تیرتا رہتا تھا۔ اس دوران اس کو سوچنے کے لیے بہت وقت ملا جس کو اس نے اپنے رول ماڈل اور آئیڈیل پرسنالٹی ایلان مسک کے لیے ایک دور دراز سیارے میں نئی اور اعلیٰ انسانی کالونی بنانے کے پلان پر صرف کیا۔
قدیر اور ایلان مسک کا خیال تھا کہ اس زمین کے انسان احمق، سست، ناکارہ اور نکمے ہیں۔ ان میں صرف خرابیاں ہی خرابیاں ہیں اور وہ ان کے اعلیٰ معیارات پر اترنے سے قاصر ہیں۔ اپنے ملک کے صدر ٹرمپ کی طرح وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ خواتین کے اجسام کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ بچے اگانا ہے۔ ان کا باہمی فیصلہ تھا کہ ایلان مسک ہی دنیا کی عظیم ترین پوجے جانے کے لائق شخصیت ہے اور سب سے بہترین منصوبہ یہی ہے کہ اور کسی کے نہیں بلکہ صرف اور صرف ایلان مسک کے کلون ایمبریو بنائے جائیں جن کو 35 سال کی عمر تک کی خواتین کی بچہ دانی میں لگا کر ان بچوں کی فصل تیار کی جائے۔ اس کے بعد اس اعلیٰ نسل کے انسان کو زمین سے بہتر سیارے میں آباد کیا جائے جہاں وہ اس زمین کی گوبر آلود مٹی سے دور روبوٹ نوکروں کے درمیان ایک ایک قابل رشک اور عمدہ زندگی گزار سکیں۔
ثمینہ نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ ہر طرف کیمرے اور مائک نصب تھے۔ اس نے تامل موسیقار دوستانہ پاپس کو کچھ بتانے کی کوشش کی کہ یہاں خطرہ ہے اور ان کو ایلان مسک کی شیطانی ایمپائر کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے لیکن وہ کچھ نہیں سمجھا۔ ثمینہ کی جب کاؤنٹر پر باری آئی تو اس نے کہا کہ آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے، میری عمر پینتیس سال سے بہت زیادہ ہے اور اگر آپ نے میری بچہ دانی میں ایلان مسک کا کلون لگایا تو وہ حمل گر جائے گا۔ اس نوکری کے لیے نہ تو میری عمر مناسب ہے اور نہ ہی صحت۔
بہتر ہو گا کہ مجھے زمین پر واپس روانہ کر دیا جائے۔ اگر میرے بچوں کی فیس نہ دی گئی تو یونیورسٹی ان دونوں کو نکال دے گی اور ان کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی اور وہ سفید فام نسل کے لیے مکانوں کی چھت بنانے، لان کی گھانس کاٹنے اور گھر صاف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
کاؤنٹر پر موجود خواتین نے ایک دوسرے کو دیکھا، انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے بات کی اور ثمینہ کو ایک تیسری قطار میں کھڑا ہونے کو کہا۔ ثمینہ نے دیکھا کہ اس تیسری قطار میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ اس کے کان ایک دم سے سن ہو گئے اور اس کی چھٹی حس نے کیلکولیٹ کر کے فوراً نتیجہ اس کے آگے رکھ دیا جس میں ایک عورت کو واپس ٹرمپ کے امریکہ بھیجنے پر آنے والے خرچے اور پچاس کلو گوشت کو زمین سے دوسرے سیارے پر پلتے ہوئے اعلیٰ نسل کے انسانوں کی خوراک کے لیے بھیجنے کی لاگت کا موازنہ کیا گیا۔
- سردیوں میں ہمارا وزن کیوں بڑھ جاتا ہے؟ - 08/11/2023
- ہما اور ٹریسی - 28/10/2023
- آپ کے بچوں میں ہم جنس پسندی - 01/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).