آڈیو اور چھجو کا چوبارہ


خدا جھوٹ نہ بلوائے، ملک اس وقت واقعی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ نئی حکومت اور پرانی عوام ہوش ربا مہنگائی۔ پٹرول۔ بجلی۔ گیس کی بڑھتی قیمتوں اور اس پر بھی عدم دستیابی سے اپنے اپنے محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ ڈالر ہے تو امیر گھر کی بگڑی لڑکی بنا، پاکستان یعنی غریب خاوند کر نظرانداز کر کے براستہ چمن آشنا کے ساتھ فرار ہو رہا ہے۔ ڈالر کی بیوفائی کا سدباب سوچا ہی جا رہا تھا کہ ایک بار پھر بنوں خضدار اور میرانشاہ میں موت کے سوداگروں نے بازار گرم کر دیا۔ طالبان نام کے عفریت نے پھر پھن پھیلا لیا۔

مگر صاحب جو مزہ چھجو کے چوبارے وہ بلخ نہ بخارے لہذا آگ لگے بستی میں مگر چھجو کے چوبارے یعنی سوشل میڈیا کے دھواں دار مچیٹوں کا موضوع ان مسائل کے بجائے ”آڈیو جعلی ہے؟ ہاں یا نہ“ رہا۔ جن بزرگوار کی آواز معلوم پڑتی ہے، ان کے حامی کل سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماہر بنے سمجھا رہے ہیں کہ آوازیں یوں نقل کی جاتی ہیں۔ بات ایسے کرتے ہیں جیسے ڈیپ فیک سافٹ وئیر ان کے نام پر پیٹنٹ ہو۔

کچھ کہتے ہیں کہ یہ ذاتی معاملہ یعنی پرسنل افیئر ہے سو اس سے کسی کا کیا واسطہ؟ بات معقول ہے یقیناً یہی ہونا چاہیے شاید ہو بھی جاتا اگر ان ریکارڈنگز کے مرکزی کردار نے اپنے مخالفین کی کردارکشی کو سیاسی ہتھیار نہ بنایا ہوتا۔ پاکستانی سیاسی پیش منظر سے یہ غلاظت بتدریج معدوم ہو رہی تھی چند قدامت پسند مذہبی اساس پے سیاست کرنے والوں کے علاوہ بیہودہ گوئی منبر و ڈائس، بھونپو و مائیک سے کم کم ہی سننے میں آتی۔

کان عادی ہو چلے تھے کہ دو ہزار اٹھارہ لگا اور بھلا ہو اس مرد جانباز، مومن خاص کا جو دکھی دلوں کی آس بن کے آیا اور سیاسی حریفوں کی نقل اتارنے۔ ان کے انداز گفتگو کا مضحکہ اڑانے کے ساتھ خواتین سیاسی رہنماؤں کے لئے تضحیک آمیز پھبتیوں کی روایت متروکہ کو بھی نئے ولولے سے رائج کیا۔ شاہ سے بڑھ کے شاہ کے طرفدار نکلے جنھوں نے اختلاف پر دلیل کی بجائے مخالف کی سات پیڑھیوں کو سات گز لمبی گالی دینا شعار بنا لیا۔ کہاوت ہے کہ کانچ کے گھر میں رہنے والے دوسرے کے گھر پتھر نہیں پھینکا کرتے۔ مگر یہاں گود لینے والو نے لاڈ پیار کی انتہا کر دی تھی لہذا ستر برس کا بگڑا بالک مزید کھل کھیلا۔ تاک تاک کے نشانے لگائے۔ جن میں کچھ اوک گئے کچھ چوک گئے پر جو لگے وہ دل خاک کرنے میں کامیاب رہے۔

اس پے بھی بس نہ کی، اپنے بیہودوں کو ذمہ داری دی کہ حرم رسول صلعم ہو یا ہائی وے ریستوراں، لندن کا کیفے، کافی شاپ یا رستہ جہاں دیکھو بدتمیزی کرو، ہراساں کرو، بد گفتاری کے نئے ریکارڈ بناؤ حتی کہ دوسری جماعت کے رہنماؤں کے گھروں کا محاصرہ کر کے اتنا غل مچاؤ کہ وہاں کے رہائشی بھی عاجز آجائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

لیڈر کو اوتار ماننے والے حامی آئے دن کسی کی بھی عزت اچھال آتے لیکن اپنے مرشد کو ولئی باکردار سمجھتے رہے کہ اچانک کچھ آڈیوز سامنے آئیں، جن سے ثابت ہو گیا کہ ان کی مقدس گائے درحقیقت ایک بپھرا کٹ کھنا بیل ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ کچھ تو پرانے طریقے سے اس ذلت کا سامنا کر رہے ہیں یعنی بات سنے بنا گالم گلوچ۔ کچھ نفسیاتی کیفیت میں انہیں فیک یعنی جھوٹ کہہ کر صاف نظرانداز کر گئے۔

مگر تمام ایک بات پے متفق ہیں کہ یہ ریکارڈنگز کرنا غیر آئینی اور غیر اخلاقی تھا۔ کسی بھی جانثار سے بات کرو، وہ کمال ہوشیاری سے مقابل کی توجہ آڈیوز کے متن کے بجائے مبینہ طور پر ریکارڈنگ کرنے والوں کے اخلاق اور مذموم مقاصد وغیرہ کی جانب موڑ دیتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے ہی نہیں کہ حساس انٹیلی جنس اداروں کا مصنوعی انٹیلی جنس سے جعلی آڈیو یا ویڈیو بنانا نہیں بلکہ ملک اور اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے درست معلومات اکٹھا کرنا ہے۔ مگر جانثاروں سے یہ سوال ضرور ہے کہ جب کسی شریف حریف کی کوئی آڈیو سامنے آتی تھی تو آپ نے نہ احتجاج کیا نہ اسے ڈیپ فیک کا کمال جانا۔ اب یہ دوسرے کے لئے گڑھا کھود کے خود گرنا ہو گیا۔

زیادہ شرمناک اور باعث ذلت ہے کہ یہ وہی رہبر و قائد ہے جسے اجرتی سوشل میڈیا ٹیم نے ولئی کامل۔ تائب مطلق اور دور حاضر کا مجدد الف ثانی منوانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر یہ تو مجدد الف چم جانی نکلے۔ قوم کو زیادہ کوفت اور اذیت اسی سے ہوئی۔

وہ تبدیلی کے نعرے۔ نیکی کے دعوے۔ ریاست مدینہ کے وعدے۔ پھٹی قمیضیں پہن کے فقیر مزاجی اور سادگی کا تاثر۔ چھپر ہوٹل کی چارپائی پر سوتے، چشمے سے وضو کرتے، بیچ سڑک نماز پڑھتے ہوئے فوٹو سیشن سب کا اثر چٹکیوں میں زائل ہو گیا۔

خود صاحب آڈیو نے اپنے باشرع اور خوش ایمان ہونے کے بلند بانگ دعوے نہ کیے ہوتے اور جناب چیف جسٹس انہیں صادق و آمین نہ قرار دیتے تو آج ایسی تھڑ تھڑ نہ ہوتی۔

کچھ عاشقان چندرائے چندرائے سے محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف ہونے والے رکیک پروپیگنڈے کو ”رد آڈیو“ کی دلیل بنا رہے ہیں۔ ان سے عرض ہے، بینظیر۔ جن کے سیاسی سفر کا آغاز ہی ملک کے منتخب وزیر اعظم کی پھانسی یعنی جمہوریت کا قتل سے ہوا۔

وزیر اعظم بھی محض لیڈر نہیں مشفق باپ۔ پھر سالہا سال ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد، قید کی صعوبتیں، جلاوطنی، بھائیوں کے قتل!

پیشتر چودہ سال کی عمر میں شملہ کانفرنس کا مشاہدہ بعدہ آکسفورڈ اور ہاورڈ سے بہترین تعلیم، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا رتبہ۔ ممولے کو شہباز سے لڑاتے تو سنا تھا حاشا یہ تو ممولے کو میمتھ کے برابر دکھانے کی کوشش ہے۔

صاحبو۔ وہ بینظیر تھی، اس کی شخصیت اور سیاسی قد سے اس وقت پاکستان کا کوئی ایک لیڈر مقابلہ نہیں کر سکتا۔
چہ جائیکہ جنھیں مچان پے سجا کے کوتاہ قامتی چھپائی گئی ہو۔
بوزنے کو کتنے ہی بلند مقام پر بٹھا دیں، جھوٹ کے انبار سے بے تحاشا مقبولیت دلوا دیں، وہ رہے گا بالشتیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments