مشتاق احمد یوسفی کا مقدمہ


نوٹ: پچھلے دنوں ہم سب کے صفحات پہ ایک سینئر مصنفہ کا کالم پڑھا جس میں اردو کے عظیم ترین مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی بعض تحریروں کے اقتباسات نقل کر کے انہیں عورت مخالف یا تضحیک آمیز قرار دیا گیا۔ جس طرح کسی بھی ادیب پر تنقید مصنفہ کا حق ہے اسی طرح ان سے علمی اختلاف ہمارا حق ہے جسے استعمال کرتے ہوئے فی البدیہ ایک تبصرہ کیا مگر پھر یہ لگا کہ یوسفی صاحب سے محبت کا حق ادا نہ ہوا اس لیے مزید چند سطریں سپرد قلم ہیں

غالبا سن ترانوے چورانوے کی بات ہے جب ہم بچوں کی کہانیوں اور ابن صفی کی جاسوسی دنیا سے ترقی کر کے سنجیدہ ادب کی طرف متوجہ ہوئے، ابھی کراچی مٰیں چائنہ کٹنگ کی وبا نہیں پھیلی تھی اور شہر میں جماعت اسلامی کے دور نظامت کی یادگار لائبریریاں موجود تھیں اس لیے ہم نے اپنے اور نانی کے گھر کے تین چار کلومیٹر ریڈیئس پر پانچ چھہ پبلک لائبریریاں دریافت کریں اور وہاں سے ہفتہ وار کتابیں لا کر پڑھنا شروع کر دیں۔ اچھی طرح یاد ہے پہلی کتاب انتظار حسین کی گلی کوچے تھی اور دوسری خاکم بدہن، یہیں سے ان دونوں کے جادو کا اسیر ہو گیا۔

آج سے موازنہ کیا جائے تو یہ اردو ادب کا سنہری دور تھا، کیسا کیسا نابغہ اس وقت موجود تھا قاسمی، ممتاز مفتی، انتظار حسین، مشتاق احمد یوسفی، قرۃالعین حیدر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، شفیق الرحمان اور پھر شاعروں میں منیر نیازی، جون ایلیا اور احمد فراز۔ پھر یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ یہ بزرگ ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے اور اپنے پیچھے صحیح معنوں میں خلاء چھوڑ گئے، اب یہی دیکھیں کہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی رجعت پسندی پر تنقید تو بہت ہوتی ہے مگر راجہ گدھ جیسا ناول تو ایک طرف گڈریا جیسا افسانہ اور من چلے کا سودا جیسا ڈرامہ بھی کوئی نہیں لکھ رہا۔

سب سے پہلے مفتی صاحب نے داغ مفارقت دیا اور 2020 میں مشتاق احمد یوسفی میدان اردو کو سونا چھوڑ گئے۔ یوسفی اردو کا آخری جائنٹ تھا جس کے بعد کلکتہ سے کینیڈا تک اردو کے لینڈ اسکیپ پہ ہو کا عالم طاری ہے، ہندوستان میں ”کئی چاند تھے سر آسمان والے“ شمس الرحمان فاروقی کا نام لیا جا سکتا ہے مگر اب وہ بھی نہیں رہے۔ اتنے بڑے لیجنڈ کے ساتھ کیا ہمارا رویہ منصفانہ ہے؟ کیا سطحی مطالعہ اور صنفی تعصب سے مغلوب تنقید ان کا حق ادا کر سکتی ہے؟

ادب اور فن کی دنیا میں عورت کے اظہار کی حدود اور قیود کے تعین میں سب سے بنیادی سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جب ادیب اور فنکار عورت کو موضوع بنائے تو کیا محیط نفسیاتی اور جذباتی وجود تک محدود رہے یا پھر جسمانی ساخت اور خد و خال پر بھی طبع آزمائی کر سکتا ہے۔ کلاسیکی دور سے لے کر ماڈرن زمانے تک کے ادب اور آرٹ کا سرسری جائزہ بھی یہ ایماندارانہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ایسی کسی پابندی کو کہیں اور کبھی قبول نہیں کیا گیا۔ اب آپ چاہیں تو پورے عالمی ثقافتی اور تخلیقی ورثے کا انکار کر دیں، نقصان کس کا ہو گا؟

اب جب کہ یہ اصول تسلیم ہو گیا کہ فنکار عورت کے جسمانی خطوط اور حسن و جمال کو موضوع بنا سکتا ہے تو پھر شاعر، مزاح نگار اور مصور اپنی اپنی صنف کے فارمیٹ، اصول اور مصالحوں کی مدد سے ہی طبع آزمائی کریں گے، مثلاً شاعر مبالغے سے کام لے کر زمین و آسمان کے قلابے ملائے گا، مصور رنگوں اور برش کی مدد سے نشیب و فراز کو عریاں کرے گا اور مزاح نگار صورتحال کے مضحک پہلووں کو نمایاں کر کے ہنسنے کا سامان کرے گا۔ اب اگر ہم شاعر کو گپ باز اور مصور و سنگ تراش کو فحش نہیں کہتے تو مزاح نگار کو لچر اور بیہودہ کیسے کہہ دیں؟ یوسفی صاحب نے اسی لیے مزاح نگاری کے لیے کیا خوبصورت دست زلیخا کی ترکیب استعمال کی ہے۔ شوق کبھی گستاخ بھی تو ہوجاتا ہے۔

اور پھر یہ بھی عجیب لطیفہ ہے کہ ایک طرف ہم شاعروں اور ادیبوں کو ایسی آزادی دیتے ہیں کہ بارگاہ ایزدی میں بھی شوخی کر جاتے ہیں ذرا اقبال کے یاں مثالیں دیکھیں

اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

اور غالب کے نمرود کی خدائی اور دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو والے اشعار، یہ سب صدیوں سے ہماری روایت کا حصہ رہا ہے۔ ایک طرف ایسی رواداری اور وسعت قلبی اور دوسری طرف صنفی اور طبقاتی تعصب کا ایسا غلبہ کہ ذرا سی بات برداشت نہ ہو۔ یا پھر ایسا کریں کہ مزاح نگاری پر ہی پابندی لگا دیں کیونکہ آج اگر خواتین ناراض ہیں تو کل کوئی اور طبقہ کھڑا ہو جائے گا کہ کیونکہ یوسفی ہی بات کی جائے تو انہوں نے مولوی، شاعر، استاد، تاجر، بنکار اور پھر بر صغیر کی کتنی کمیونٹیز پنجابی، دلی والے، یوپی والے، گجراتی، پٹھان کی ہلکی پھلی چٹکی لی ہے۔ یوسفی کے چاہنے والوں کو ویسے ہی گلہ ہے کہ انہوں نے بہت کم لکھا اس قطع و برید کے بعد تو شاید ہی کچھ بچے۔

مساجنی واقعتاً ادب اور سماج کا مسئلہ ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے مگر اعتدال کی راہ سب سے اچھی ہے ایسا نہ ہو اندھی قطع برید سے بہت سی سچائیاں دفن ہوجائیں یا بہت سا خوبصورت تخلیقی کام گم ہو جائے۔ ایسا ہوا تو یہ انسانیت کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہو گا۔ یوسفی کی چند سطروں پر جن لوگوں کے کان سے دھواں نکل رہا ہے انہیں کولمبین مصنف گارسیا مارکیز کے ناول ”تنہائی کے سو برس“ کے بارے میں جاننا چاہیے اس عظیم ناول میں درجنوں مقامات ایسے ہین جن کے گرد مساجنی کا سرخ دائرہ کھینچا جا سکتا ہے اس کے باوجود کروڑوں لوگ اسے پڑھ چکے ہیں اور اب بھی پڑھ رہے ہیں۔

بات یہ ہے کہ ادیب چاہے کتنا ہے بڑا کیوں نہ ہو اپنے تعصبات سے بلند نہیں ہو سکتا یہ تعصبات لا شعوری طور پر اس کی تحریر میں در آتے ہیں یہ بات جہاں مردوں کے لیے درست ہے وہاں خواتین لکھاریوں پر بھی صادق آتی ہے۔ پچھلی صدی کے امریکن ادب میں افرو امریکی ادیباؤں نے بہت نام کمایا ایک سے ایک بڑھ کر شاندار ناول لکھا مگر ایک بات جو ان تحاریر میں مشترک ہے وہ افرو امریکی مرد کا انتہائی پست تصور ہے تقریباً ہر کہانی میں ایک ہی طرح کا نکما، شرابی، مجرم، متشدد یہاں تک کہ محرم رشتوں کو پامال کرنے والا مرد نظر آتا ہے۔ کیا یہ ہر افرو امریکی مرد کی حقیقت ہے؟ کیا انہی مردوں میں سے بارک اوباما اور مارٹر لوتھر پیدا نہیں ہوئے؟ ہم نے کبھی افرو امریکی مردوں کی جانب سے ایسا مطالبہ نہیں سنا کہ ان کتابوں کے توہین آمیز حصوں کو حذف کر دیا جائے۔

اور اب آخری بات یہ کہ ہمیں ڈاکٹر صاحبہ سے شکایت نہیں انہوں نے تو بہت اہم مورچہ سنبھالا ہوا ہے پھر بات اگر سلیقے اور شائستگی سے ہو تو اختلاف کے باوجود مزہ آتا ہے۔ ہمیں دکھ بعض کمنٹس پڑھ کر ہوا، ایسے سب دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ موقعہ ملے تو مشتاق احمد یوسفی کو پورا پڑھیں بلکہ ضمیر جعفری کے مشورے پر دو بار پڑھیں کیونکہ یوسفی دوسری پڑھائی پہ زیادہ مزہ دیتا ہے۔ یقیناً آپ کہہ اٹھیں گے ”ورتھ اٹ“ ۔

مشتاق احمد یوسفی اور ضیا محی الدین ہنستے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).