حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیدائش، نام، سلسلہ نسب، کنیت، لقب ( 1 )


آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبد اللہ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔ عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبد الکعبہ تھا، جو حضور ﷺ نے بدل کر عبد اللہ رکھ دیا تھا۔

( تاریخ مشائخ نقشبندیہ از پروفیسر صاحبزادہ محمد عبد الرسول للہی جلد 1 صفحہ 111 )

”آپ کے نام عبد الکعبہ“ کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی جاتی ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ کے والد کے لڑکے زندہ نہیں رہتے تھے، اس لیے انہوں نے نذر مانی، اگر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، اور زندہ رہا، تو وہ اس کا نام ”عبد الکعبہ“ رکھیں گے، اور اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گے۔ چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو انہوں نے نذر کے مطابق آپ کا نام ”عبد الکعبہ“ رکھا، اور جوان ہونے پر آپ عتیق ( آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے، کیونکہ آپ نے موت سے رہائی پائی تھی۔

(ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 26 )

( 1 ) ۔ پیدائش:

حضرت ابو بکر صدیق کی پیدائش عام الفیل سے دو سال چھ ماہ بعد اور ہجرت نبوی سے پچاس سال چھ ماہ پہلے بمطابق 573 عیسوی مکہ میں ہوئی۔ آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے دو سال چھ ماہ چھوٹے تھے۔

( سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 37 ) ( 2 ) ۔ سلسلہ نسب:

والد کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے۔ ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب

(تاریخ اسلام جلد اول از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 237 )
والدہ کی جانب سے سلسہ نسب یہ ہے۔ ام لخیر سلمی بنت صخر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب
( سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 34 )

آپ کے والد اور والدہ دونوں کی جانب سے حضور ﷺ سے سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مل جاتا ہے۔ کیونکہ آپ کے والدین آپس میں عم زاد تھے۔

( 3 ) ۔ کنیت ابو بکر کی وجہ تسمیہ:

آپ کی کنیت ابو بکر کے بارے میں منقول ہے، چونکہ آپ اعلیٰ خصلتوں کے مالک تھے، اس لیے آپ ابو بکر کے نام سے مشہور ہوئے، جو بعد ازاں آپ کی کنیت ٹھہری۔

مورخین نے آپ کی کنیت کی مشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی لکھی، کہ عربی میں بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں، اور آپ کو چونکہ اونٹوں کی غور و پرداخت میں بہت دلچسپی تھی، اور ان کے علاج و معالجے میں بہت واقفیت رکھتے تھے، اس لیے لوگوں نے آپ کو ابو بکر کہنا شروع کر دیا۔ جس کے معنی ہیں اونٹوں کا باپ۔

(ابو بکر صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 27 اور 28 )

کنیت کی دوسری وجہ:

ابوبکر کے معنی والا اور بکر کے معنی اولیت ہے۔ اسی سے بکرہ یا باکرہ ہے۔ ابو بکر کے معنی ہوئے اولیت والے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ ایمان، ہجرت، حضور کی وفات کے بعد خلیفہ بلا فصل اور قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ سب کاموں میں آپ ہی اول ہیں، اس لیے آپ کو ابو بکر کہا گیا۔

(مرآۃ المناجیح اردو ترجمہ و شرح مشکوٰۃ المصابیح از مفتی احمد یار خان نعیمی جلد 8 صفحہ 318 )
کنیت کی تیسری وجہ:

مورخین کے مطابق آپ کو ابوبکر کہنے کی ایک وجہ تسمیہ یہ ہے، کہ اسلام لانے سے قبل آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شادی کی تھی، یہ عورت ام البکر کے نام سے مشہور تھی۔ اس کا ایک لڑکا تھا، جس کا نام بکر تھا، اس لڑکے کے نام کی نسبت سے آپ رضی اللہ عنہ ابوبکر کے نام سے مشہور ہوئے۔

1۔ صدیق کی وجہ تسمیہ:

آپؓ کے لقب صدیق کی وجہ تسمیہ یہ ہے، کہ واقعہ معراج کے بعد حضورﷺ نے قریش مکہ کو اپنی معراج سے آگاہ فرمایا، تو انہوں نے رسالت مآب ﷺ کی تکذیب کی۔ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو واقعہ معراج کے بارے میں پتا چلا، تو آپؓ نے فرمایا، میں حضورﷺ کے معراج پر جانے کی تصدیق کرتا ہوں۔ چنانچہ رحمت اللعالمین ﷺ نے آپؓ کی اس تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔

امام نودی رحمۃ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل فرماتے ہیں، کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق اس وجہ سے ہے، کہ آپ ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے۔ آپ نے حضورﷺ کی نبوت کی تصدیق میں جلدی کی، اور آپ سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ جب معراج میں حضورﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، تو آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا، کہ میری اس سیر کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کی تصدیق ابو بکر کریں گے۔ کیوں کہ وہ صدیق ہیں۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ حضورﷺ جبل احد پر گئے، اور آپ کے ہمراہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اجمعین بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ آ گیا۔ رسالت مآبﷺ نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی، اور فرمایا۔ اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا۔
کہ اللہ نے حضرت ابو بکر کا نام صدیق رکھا، اور پھر آپ نے سورۂ الزمر کی آیت ذیل تلاوت فرمائی:
”وہ جو سچائی لے کر آیا، اور وہ جس نے اس سچائی کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔
(سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 9 اور 10 )

2۔ عتیق کی وجہ تسمیہ:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے بارے میں اکثر محدثین کا خیال ہے، کہ آپ کا نام عتیق تھا۔ عتیق کا مطلب آزاد ہے۔ جبکہ بیشتر محدثین کرام کا خیال ہے، کہ عتیق آپ کا لقب تھا، اور اس ضمن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت بیان فرماتی ہیں۔ کہ ایک روز میں اپنے حجرہ میں موجود تھی، اور باہر صحن میں کچھ صحابہ، آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر صدیق آئے، تو آپﷺ نے فرمایا: جو لوگ کسی عتیق (آزاد) کو دیکھنا چاہیں، وہ ابوبکر کو دیکھ لیں۔

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ نبی کریمﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر صدیق کو آگ سے آزاد کر دیا ہے۔

چنانچہ حضورﷺ کے اس فرمان کے بعد آپ عتیق کے لقب سے بھی مشہور ہوئے۔ حضرت لیث بن سعد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، کہ حضرت ابو بکر کو عتیق حسن و صورت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔

(سیرت سیدنا ابو بکر صدیق از محمد حسیب قادری صفحہ 10 اور 11 )

بعض علما کا قول ہے، کہ چوں کہ آپ کے نسب میں کوئی بھی ایسی بات نہیں، جو عیب سمجھی جا سکے، پس سلسلہ نسب کے بے عیب ہونے کے سبب آپ کا نام عتیق مشہور ہوا۔

(الاصابہ جلد 4 / 221 )
(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments