خورشید حسنین کی شاعری میں انسانوں کے خواب


میں کوئی شاعر ہوں اور نہ ہی نقاد لیکن میرے ہاتھ میں شاعری کی کتاب ”کنار آب کا خواب“ ہے جس کو پڑھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ شاعر اور مجھ میں کوئی قدر مشترک ہو یا نہ ہو، سماجی ترقی، انصاف پسندی اور انسانی زندگی کی بہتری کے خواب اور ان کی تکمیل کی خواہش ضرور مشترک ہے۔

خورشید حسنین اپنی طالب علمی کے زمانے میں ایک ترقی پسند انقلابی لیڈر کے طور پہ ابھرے۔ شاعر اور افسانہ نگار تو وہ نوجوانی ہی سے تھے مگر فزکس جیسی مشکل سائنس کا انتخاب کیا تو ادبی تخلیقات کے لیے وقت کم پڑ گیا۔ میں نے بھی اسی جامعہ کراچی سے مائیکرو بیالوجی سے ماسٹرز کیا کہ جہاں سے خورشید حسنین نے طلبا کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے جنرل سیکریٹری کا انتخاب جیتا۔ پارٹی کا نام تھا پروگریسو فرنٹ۔ جب ہم نے مادر علمی میں قدم رکھا تو خورشید تالیوں اور تحسین کی گونج میں ایم ایس سی کی سند لے کے نکل رہے تھے۔ جامعہ کی میگزین میں اشاعت کے لیے اپنا افسانہ دیتے وقت ان سے براہ راست بمشکل ایک آدھ جملہ ہی بولنے کا موقع ملا ہو گا یا وہ بھی نہیں بس افسانہ تھما دیا ہو گا۔

پھر کئی دہائیوں بعد ان سے ربط انٹر نیٹ کا اعجاز ٹھہرا۔ لیکن اس سے بڑا معجزہ تو یہ کہ انہیں قدرے گمنام سی ایک طالبہ نام کے ساتھ یاد رہ گئی۔

خورشید کا مولانا حالی اور خواجہ احمد عباس، صالحہ عابد حسین جیسے اعزا کی وجہ سے ادب سے ایک خاص تعلق رہا۔ ابا ڈاکٹر ذوالفقار حسنین انگریزی، فارسی اور عربی پہ عبور رکھنے کے ساتھ آرٹ کے دلدادہ تھے۔ خود خورشید کی ذاتی دنیا سائنس، آرٹ اور ادب کا خوشگوار امتزاج ہے۔ جس نے انہیں مائیکل اینجلو، غالب اور ڈارون جیسی شخصیات سے بیک وقت جوڑے رکھا۔ فکری وجدان نے ہمیشہ سوال اٹھانا سکھایا۔ ان کی شاعری میں جو خصوصیت ابھر کے آتی ہے وہ آگہی کے سمندر میں خود شناسی اور ذات کو کھوجنے کا عمل اور سماج میں بسے لوگوں کے دکھوں اور پریشانیوں سے جڑے رہنے کی خواہش۔ ظلم و زیادتی اندرون خانہ ہو یا کسی اور خطہ میں ان کا دل بوجھل اور انگلیاں فگار ہوجاتی ہیں۔ مگر اندرونی حزن و ملال اور شکست و ریخت کا دردمندانہ اظہار ان کے شعری جمال پہ اثر انداز نہیں ہوتا۔

ملاحظہ ہو نظم ”ایک ہاتھ کی کہانی“ کا ابتدایہ

چھوٹا سا ایک ہاتھ ہے پھیلا،
نیلی، سبزی مائل آنکھیں
پوچھ رہی ہیں
پیسہ دو گے؟
وقت ایسا ہے کہ بینائی سے خوف آتا ہے
پاس آتی ہوئی اک کھائی سے خوف آتا ہے
نوحۂ شہر نامراداں
شبنمیں رات رو گئی ہے
دکھ کا ہے اک غبار ہر سو
خلق بے آس ہو گئی ہے

سسکتی انسانیت کے بطن سے جڑنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ فطرت کے حسن سے بیگانہ رہے۔ حسن خواہ بارش کی رم جھم، پتوں کی پازیب، بہار کے رنگ، پھولوں کی خوشبو، ہوا کے سر، بچے کی معصومیت، عورت کا حسن سبھی کچھ ان کی شاعری میں مصوری کا رنگ بھرتے ہیں اور رجائیت اور زندگی کا استعارہ ہیں۔

گھر اترا اک یاد کا بادل
بوندیں برسیں دھیرے، دھیرے

نظم ”ایک سیپی کی صدا“ کو دیکھیے

سر، ساگر، سنگت، موج، ہوا
سورج ڈھلتا،
مدھم مدھم اک نے کی مغاں
بھیگا بھیگا بادل سا دھواں
خوشبو کی پری آنچل سے اڑی
گیسو پہ رکی اور دور گئی

ہجوم میں بھی تنہا ہو جانے والے شاعر  نے شعری تقریبوں میں جا کے اپنا کلام سنانے کی خواہش اور شہرت کی طمع سے دور رکھا۔ لیکن وہ ہم وطنوں کے دکھوں سے کبھی غافل نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی یونیورسٹی میں طبعیات میں پی ایچ ڈی انہیں وطن سے بیگانہ بھی کر سکتی تھی مگر انہوں نے اپنی جڑوں کو وطن سے پیوستہ ہی رکھا۔ دھرتی پہ بسے انسانوں کے آلام ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔

جس روش پہ بے دھڑک زندگی کا راج تھا
اس سڑک پہ اب کوئی سنتری بٹھا گیا
خوف کی زمین پر کون باغبان تھا
خانہ دار تار کی بیل اک اگا گیا
اندر دھنستی دیواروں کے پار کہیں پر
ننگی بھوکی خلقت میں کوئ
جھوٹ کا راشن تول رہا ہے
کچھ جھلسے ہوئے لوگ ہیں اس شہر کا نوحہ
کیوں ان پہ گری برق ستم گار نہ پوچھو
کب پھوٹے گی دھانی کھیتی، کب آئے گا شاخ پہ بور
یاد میں ہے پچھلی فصلوں کی سب روداد پرندے کو

خورشید کی شاعری بظاہر سادہ لیکن دراصل علامتوں اور استعاروں کی شاعری ہے۔ جنہیں سرسری انداز میں پڑھتے ہوئے گزرا ہی نہیں جاسکتا۔ ہر نظم کی گہرائی پڑھنے والے کو سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی امکان و امید پہ مبنی شاعری کا انتساب زندگی کے نام کیا ہے۔ کتاب کا عنوان ”کنار آب کا خواب“ میں خواب امید کا استعارہ ہے۔

دیوار غم کے پار مہکتا ہے کوئی پھول
ایک خواب جس سے جینے کے اسباب ہو گئے
مٹی پکارتی رہی تخلیق کے لیے
وائے کہ خواب دیدہ کوئی کو زہ گر نہ تھے

اس کتاب میں اکاون نظمیں اور انتالیس خوبصورت غزلیں شامل ہیں۔ انہوں نے تعارف میں لکھا ہے کہ وہ فیض کے گھائل اور راشد کے قائل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ خورشید کی شاعری پڑھنے والوں گھائل و قائل کرتے ہوئے ذہن کے دریچے کو وا کرنے کا خوشگوار فریضہ انجام دے گی۔

ویسے تو ان کی کئی نظمیں اور غزلیں چونکاتی ہیں۔ خاص کر جہاں وہ بات کرتا ہے، درگاہ اور پرندہ، کوہ امکان، جل پری، سچائیاں اور کنکر اور بہت سی نظمیں اور غزلیں، مگر سال نو کی آمد کے حوالے سے میرا انتخاب نظم ”نیا سال“ ہے۔

نیا سال
تو کیا کل بھی یہی ہو گا؟
پرانے دن کے ملبے سے
نئے دن کی عمارت پھر کھڑی ہوگی
پرانے دن کے بے اوقات، بے اوصاف یہ پتھر
کہ جن پر آدمی کی بے بسی اور بے حسی کے
نقش کندہ ہیں،
وہی مٹی وہی گارا کہ جس میں
جبر کی سانسیں گندھی ہوں گی
کہیں پر کوششوں کی رائیگانی میں تپی
اینٹیں رکھی ہوں گی
کہیں اس خواب کی کر چیں
جو اک منظر نہ بن پائیں،
کسی کی یاد کی شمعیں
نہ جل پائیں نہ بجھ پائیں،
پرانے دن کے پس انداز سب لہجے
پرانے دن کے ملبے میں نہاں ہوں گے
انہیں سے اک نئے دن کی عمارت
پھر کھڑی ہوگی
نیا اک سلسلہ پھر نارسائی کا شروع ہو گا
پرانے زخم سینے میں لئے
سورج طلوع ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments