ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب پر تبصرہ


اس سال مارچ میں جب کینیڈا گئی، تو ڈاکٹر خالد سہیل صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور وہ اتنے خلوص اور پیار کے ساتھ ملے، کہ احساس تک نہ ہوا میں ان سے پہلی دفعہ مل رہی ہوں۔ بے شک خلوص اور عاجزی دلوں کو فتح کر لیتی ہے۔ ان سے گفتگو کے دوران احساس ہوا، کہ ایک مایہ ناز سائیکاٹرسٹ اور ماہر علم ہونے کے باوجود ان میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ان کی زندگی کا واحد مقصد انسان دوستی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بے حد اثر انگیز تحریروں کے ذریعے اپنا علم بانٹ رہے ہیں اور انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔

اس ملاقات میں انہوں نے مجھے اپنی تین عدد کتابیں تحفتاً دیں، یا دوسرے لفظوں میں اپنے بے پایہ علم اور تجربے سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ سب سے پہلے تو ڈاکٹر صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر کتابوں کو جلدی نہ پڑھ سکی۔

ان میں سے ایک کتاب The Art Of Living in your Green Zoneہے۔ اس کتاب کو تین دفعہ پڑھنے کے باوجود دل کرتا ہے کہ بار بار پڑھوں، پھر سوچا کہ اس خوبصورت کتاب پر اپنی ناقص آرا کا اظہار کروں۔ اس میں انسانی زندگی سے جڑے نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے تین عدد زونز کا استعمال کیا گیا ہے۔ جن کو سرخ، پیلی اور سبز کا نام دیا گیا ہے، تمام زونز کو حقیقی کرداروں کے مسائل کے ساتھ وضاحتوں اور مثالوں کے ساتھ اس قدر آسان اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا، اور دھیان ادھر ادھر نہیں بھٹکتا، بلکہ مزید آگے پڑھنے کا تجسس برقرار رہتا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

بے شک یہ کمال صرف اور صرف ایک اہل علم اور ماہر نفسیات (جس کا مطالعہ بے حد وسیع ہو اور اس کے استعمال کا ہنر جانتا ہو) کا ہی ہو سکتا ہے، جس کو انسان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے، حل کرنے اور ان کو آسان بنانے پر مکمل دسترس ہو، اور وہ قاری کا دھیان ادھر ادھر نہ بھٹکنے دے اور بے شک ڈاکٹر صاحب میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے کلائنٹس کے گونا گوں مسائل اور ان کا تدارک سرخ، پیلے اور سبز زونز کی روشنی میں بہترین مثالوں کے ساتھ اس قدر خوبصورتی اور عام فہم انداز میں کیا ہے، کہ ہر کوئی اپنے زونز کا ادراک بخوبی کر سکتا ہے۔

اپنی کتاب کے پہلے چیپٹر ( step by step) میں انہوں نے بڑے آسان لفظوں میں واضح کر دیا، کہ کیسے ہم اپنی زندگی کے مختلف چیلنجوں کا سامنا کامیابی کے ساتھ کر سکتے ہیں، اور ان چھوٹی چھوٹی نفسیاتی الجھنوں کو سمجھتے ہوئے بہترین اور مطمئن طریقے سے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر صاحب کے زندگی میں بر وقت اور صحیح سمت میں اٹھایا ہوا قدم ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ بہترین زندگی گزارنے کے لئے انہوں نے دس قدم کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، ان کو پڑھنے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ وژن شفاف تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اپنے ساتھ اور ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ جڑے مسائل کا ادراک ہونے لگتا ہے، اور رستہ صاف نظر آنے لگتا ہے کہ اپنی ذات سے جڑے مسائل سی کس طرح نبرد آزما ہونا ہے، اور اپنے دوستوں اور خاندان کے چیدہ چیدہ مسائل کا کیا حل ہے اور ان کو ریڈ زون سے گرین زون میں کیسے لانا ہے

ایک جگہ پر اپنی ایک کلائنٹ کیتھرین کی دوست مونیک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی دوست کو مسائل سے نبٹنے میں سپورٹ کرتی ہے اور اس کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے، اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے دوران وہ بتاتی ہے کہ کس طرح اس نے اپنی ذات سے جڑے مسائل کا تدارک کیا، اس کا کہا ہوا ایک جملہ مجھے بہت اچھا لگا، جب وہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں کے بارے میں بتا رہی ہوتی ہے تو کہتی ہے
There was no ;would;no could ;but a lot of ;should

اور میں سمجھتی ہوں کہ یہی تین الفاظ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں یا دنیا میں جہاں کہیں بھی نفسیاتی مسائل بڑھ جاتے ہیں، اس صورت حال میں یہ الفاظ ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور جس معاشرے کا انحصار ہی صرف اور صرف should پر ہو وہاں کسی کا بھی اپنے لئے گرین زون کا انتخاب کرنا کس قدر مشکل ہو گا اور اسی کے حل کے لئے یہ کتاب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح مونیک اپنی بہترین دوست اپنے اندر کی آواز کو دیتی ہے، اور کہتی ہے کہ یہ آواز میرے اندر ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اور یقیناً جب ہم اپنے اندر کی آواز کو اپنی طاقت بنا لیتے ہیں، تو پھر زندگی کے دشوار گزار رستوں سے گزرنا آسان ہو جاتا ہے۔

اسی طرح وہ اپنی کلائنٹ کیتھرین کی تھراپی کے دوران ہونے والی پروگریس اور اس کے روز بروز بڑھتے مثبت رجحان کی مثال اپنی ایک اسرائیلی دوست لوئس کے لکھے ہوئے خط سے دیتے ہیں، اس خط کا انداز تحریر اس قدر خوبصورت اور اچھوتا ہے، اس کا ایک ایک لفظ دل کو چھوتا ہے، اور ہر جملہ اپنے اندر ہزاروں معنی سمیٹے ہوئے ہے، اس خط کی چند ابتدائی لائنیں اور آخری پیراگراف کچھ اس طرح ہے

There was a small and old book .It was in a corner on a shelf in the library.most of its pages were glued together and a few of them were torn .The cover was stained and one could not read the writer ’s name.No one knew its content .Sometime people would glance at it,some people would open it and then put it back,some would get curious about the writer‘ s name but after useless efforts would give up.

اس کو پڑھنے کے بعد ہر چیز روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جب کوئی نفسیاتی اور زندگی کے روز مرہ مسائل میں جکڑا ہوتا ہے تو اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، لیکن خوش قسمتی سے جب کوئی اس کے مسائل کو سمجھتے ہوئے اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے تو پھر اس کی زندگی کے روز و شب کیسے ہوتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو خط کی آخری چند لائنیں پڑھ کر ہو گا۔

Now the book is complete ,the story is clear,with a begning and an end.Now the book is ready to be read by othet peole.

ایسی خوبصورت مثالیں جو کہ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں کا خاصہ ہیں، کیسے ممکن ہے کہ ان کو پڑھ کر سمجھ کر ہم اپنے زونز کی نشان دہی کر کے ان کا تدارک نہ کر سکیں۔

اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ ایک ان چاہی صورتحال میں، یا کسی کو نہ چاہتے ہوئے مانے کے لئے ہمیں اپنے گرین زون کو کس طرح برقرار رکھنا ہو گا اس کو وہ Emotional Raincoat کا نام دیتے ہیں، اور مثالوں سے واضح کرتے ہیں، کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی دھوپ میں جانے سے پہلے سن بلاک کا استعمال کرے یا کوئی پولیس افسر ڈیوٹی پر جانے سے پہلے بلٹ پروف جیکٹ پہن لے، تاکہ کسی ہونے والے نقصان سے بچ سکے۔ اس کی ایک مثال وہ اپنی بھی دیتے ہیں، کہ جب کبھی اپنے دوستوں سے ملنے ٹورنٹو کے مغرب کی طرف جانا پڑتا ہے تو اس وقت بہت زیادہ رش کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام ہوتا ہے، اور اگر آپ ٹریفک کے اس اژدھام میں پھنس جائیں، تو آپ کا گرین زون کوفت اور پریشانی کی وجہ سے ریڈ یا پیلے زون میں بدل جاتا ہے، تو اس سے بچنے کے لئے میں اپنا پسندیدہ میوزک سنتا ہوں۔ اور ان چیزوں کا سامنا ہم سب ہر روز کرتے ہیں۔ اور اپنی قوت برداشت سے کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال میں اپنے آپ کو خوش رکھنا ہی آپ کا گرین زون ہے۔

آخر میں دیا گیا سوالنامہ کہ کیسے آپ اپنے زونز کے بارے میں جان سکتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے بے پناہ تجربے کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ سوالنامہ لکھ کر آپ نے قاری کو اپنے زونز کو پرکھنا اور آسان بنا دیا ہے۔

بقول خالد سہیل صاحب کے تین رستے گرین زون کی طرف جانے میں مدد گار ہوتے ہیں، اور زندگی کے سفر میں وہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔

creativity
spiritualty,
Serving Humanity.

میرا پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی انسان خود آگاہی کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اپنی روحانی صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے اور اپنے گردونواح (خاندان، دوستوں ) کے مسائل کو حل کرنے میں ان کا مددگار ہو سکتا ہے اور ان کے ریڈ یا پیلے زون کو گرین زون میں بدل سکتا ہے۔

[ ] بے شک یہ کتاب ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور ہم زندگی کے ہر مشکل موڑ پر اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments