ننھا پروفیسر ”بڑا“ بننے کے لیے انگلستان سدھار گیا


کیا عجب ستم ظریفی ہے کہ دنیا کی تمام نعمتوں کو اپنے ننھے سے ذہن میں کشید کر کے وطن عزیز کی کم و بیش یونیورسٹیوں اور خاص طور پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طلباء اور اساتذہ کے سامنے اپنا ”ننھا منھا“ سا گیان بانٹنے والا حماد صافی بذات خود ذہنی بلوغت کے لیے یا ”بڑا پروفیسر“ بننے کے لیے اور خاص طور پر ”ابو جی“ کے کہنے پر اعلی تعلیم حاصل کرنے کا سپنا آنکھوں میں سجا کر انگلستان کے لیے روانہ ہو چکا ہے، جہاں کے متعلق ان جیسوں کی ایک شاعرانہ فینٹسی یا ”بڑ“ ہوتی ہے کہ

”مغرب میں تو سورج بھی غروب ہو جاتا ہے وہاں سے بلندیاں یا عروج پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“
تو کیا سمجھیں کہ ہمارا ننھا پروفیسر وہاں طلوع ہونے گیا ہے یا غروب ہونے؟

کیا قدرت کی شان ہے کہ جو بچہ اپنے ملک کی یونیورسٹیز کی بچیوں کے ساتھ تصویر کھینچوانا پسند نہ کرتا ہو وہ اب یورپ میں مخلوط تعلیم کی نعمتوں سے فیض یاب ہو گا؟ ممکن ہے ثقافتی صدمے سے دوچار ہونے کے بعد اور یورپ سے علم و فضل سمیٹتے ہی وطن واپسی پر ”سنت اقبال“ کی پیروی کرتے ہوئے اسے بھی یہ کہنا پڑ جائے

”مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی“ وغیرہ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس قوم کے رہنما عاشقانہ آوارگی میں الجھے رہے ہوں اور یہی رسم آج بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہو وہاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہتا بلکہ ایسوں کو تو معیشت کے لالے پڑے رہتے ہیں اور انہیں اپنے اثاثے تک گروی رکھنا پڑ جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کچھ وقت تک کے لئے اپنا مستقبل کا اثاثہ حماد صافی انگلستان میں گروی رکھ چھوڑا ہے تاکہ دنیا داری اچھے سے سیکھ لے اور مارکیٹنگ کے جدید رجحانات سے آ گہی حاصل کر لے۔

ظاہر ہے ابن رشد پر تھوکنے والے اور گلے سے لگانے والے بلندیوں اور مرتبوں میں ایک سے کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایسی قوم کے شکوہ و شکایت کی بھلا کیا اہمیت ہو سکتی ہے جنہوں نے ”معتزلائی فکر و سنت“ کو زندہ رکھنے کی بجائے خود اپنے ہاتھوں درگور کر دیا ہو اور ہمیشہ کے لئے فکر و تدبر پر تالے ڈال دیے ہوں اور ان تالوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے ایک طرح سے ”امام ضامن“ باندھنے کے بندوبست کے طور پر ”حماد صافیوں“ کو بھرتی کر رکھا ہو۔ ویسے ہم سوچ رہے تھے کہ حماد صافی جیسے عالی دماغ نے ”ابو جی“ کی اعلی تعلیم کی خاطر مغرب یا کفار کے دیس میں جانے کی خواہش کو رد کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کیوں نہیں فرمایا کہ

”ابو جی! چونکہ وہ عالم اسلام کا بیش قیمت سرمایہ ہے اور وہ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے کافرستان جانے کی بجائے اسلام کے قلعے سعودی عرب یا افغانستان کے سفر پر روانہ ہونے کو ترجیح دے گا“

میرے خیال میں تو کم از کم ٹرینڈ سیٹنگ کی غرض سے ہی سہی حماد کو انہی جگہوں کا انتخاب کرنا چاہیے تھا تاکہ کفار کے کان کھڑے اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں کہ

”ہماری یونیورسٹیاں ایشیا کے ایک جینئس کو اپنی طرف راغب کرنے میں نہ صرف ناکام رہیں بلکہ وہ ایک مستقبل کے قابل ہونہار سے محروم رہ گئیں“

ادھر ہمارے مذہبی قلعے بھی خوشی سے شادمان ہو جاتے اور فخریہ طور پر کہہ رہے ہوتے کہ ”پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“

اور اب پھر سے ہم نویں سے گیارہویں صدی والے زمانے یعنی اسلامک ماڈرن ایج میں واپس لوٹ کر کفار کو للکارتے ہوئے دکھائی دیں گے مگر ”ابو جی“ نے عالم اسلام کی عافیت اسی میں جانی کہ اپنے سپوت کو سعودی عرب یا افغانستان بھیجنے کی بجائے اسی جگہ بھیجا جائے جنہوں نے صدیوں پہلے ان کا علمی اثاثہ چوری کر لیا تھا اور اب ہمارا حماد چوری کر لائے گا، حساب برابر تے ستے ای خیراں۔ ہمارے تو اہل جنوں و خرد بھی بڑے چالاک اور شاطر ہیں جو خود تو زمانے کے حساب سے چلتے ہیں مگر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وطن عزیز میں امریکہ مردہ باد سلوگن کے تحت ریلیوں کی قیادت فرما رہے ہوتے ہیں؟

کون نہیں جانتا کہ ہمارے مذہبی رہنماؤں کے بچے کہاں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں؟ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والے وارثان جماعت اسلامی کے بچے امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں سے علم و فضل سمیٹنے جاتے ہیں اور واپس آ کر دوسروں کے بچوں کو کفار کی برائیاں گنواتے رہتے ہیں۔ ویسے کمال کی منافقت ہے خود کو سربلند رکھنے کے لئے اور اپنے بچوں کا مستقبل سنہری بنانے کے لیے یورپ کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ دوسروں کے بچوں کو مدارس تک محدود رکھنے کا درس دیتے ہیں، اپنے مستقبل کو انہی ملکوں میں علمی یاترا کے لیے بھیجتے ہیں جبکہ دوسروں کے مستقبل کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے انہی ممالک کے خلاف جہاد کے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

شنید ہے کہ حماد نے اس ہجرت کو پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے باعث خیر و فخر ہونے کی دعا بھی مانگی ہے، امت مسلمہ کا تو پتہ نہیں مگر ابا جی نے اپنے ننھے منے سے پروفیسر کو ”بڑا“ بنانے کے لیے یورپ کا انتخاب کیا ہے اور وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ یہاں دولے شاہ کے چوہے تو آرڈر پر تیار کیے جا سکتے ہیں مگر بڑا بنانے کا یہاں کوئی معقول یا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے۔ بڑے سیانے بندے ہیں جناب! وقت کی نزاکتوں کو جانتے اور سمجھتے ہیں ہم جیسوں کو راہ راست یا صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھنے کے لیے ہمارا روحانی تعلق مطالعہ پاکستان کے ساتھ جوڑنے کے بعد خود ہجرت فرما گئے، بڑے لوگ ہیں بھائی ہم چھوٹوں کو کیا خبر؟ ہم اپنے اپنے کنویں میں یونہی ٹراتے رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments