استعماری فوج سے قومی ادارے تک کا سفر! ( 3 )۔


ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کو اکثر ’طاقتور‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کیا طاقتور ہونا ہی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا بنیادی سبب ہے؟ پاکستان جن سنگین معاشی اور سلامتی خطرات کے سائے تلے وجود میں آیا تھا، وسائل کی کمیابی کے باوجود ایک طاقتور فوج کا قیام ملک کی مجبوری تھی۔ دنیا کی تمام ریاستیں اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ اپنی دفاعی ضروریات پر صرف کرتی ہیں۔ یورپ کی ترقی کے پس پشت جہاں کئی عوامل کار فرما رہے، و ہیں خطے کی تکنیکی میدان میں ایجادات اور ترقی کو ان ملکوں میں دفاعی صنعتوں کے قیام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسابقت کے ماحول کا مرہون منت قرار جاتا ہے۔

اکثر سکالر اس نکتے پر متفق ہیں کہ ایک ایسی ریاست جو جارحانہ عزائم رکھنے والے ہمسائیوں میں گری ہوئی ہو اپنے وسائل کا بڑا حصہ دفاع کے لئے مختص کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ دوسری طرف یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ کاری، کنزمپشن اور دفاع کے مابین عدم توازن ہی وہ بڑا عنصر ہے کہ جو قوموں کے عروج و زوال کا باعث بنتا ہے۔ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر، دنیا کی تمام قوموں کے پالیسی ساز اسی تکون کے عناصر کے مابین توازن قائم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔

تاہم یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جغرافیہ، بین الاقوامی سیاست، اور انفرادی کلچر وہ تین عوامل ہیں کہ جن کی بناء پر ہر قوم کے لئے مذکورہ تکون میں ایک جیسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔ آج ہمارے ہاں ایک بڑا گروہ جو ملکی ترقی کو دفاعی اخراجات میں کمی سے جوڑتا ہے تو اس کی بات کو سرے سے رد کرنا ہر گز قرین انصاف نہیں۔ تاہم ایسا کرنا کس حد تک ممکن ہے، یقینا بے حد الجھن والا سوال ہے۔ صرف آج ہی نہیں، قیام پاکستان کے وقت بھی ہمارے پالیسی سازوں کو یقینا یہی مخمصہ در پیش رہا ہو گا۔ چنانچہ نو زائیدہ مملکت کی افواج میں توسیع اور انہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا اس وقت بھی سب سے بڑی ترجیح رہی ہوگی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں سلامتی کے ادارے طاقتور ہی ہوتے ہیں۔ بندوقوں، توپوں، ٹینکوں اور لڑاکا جہازوں سے لیس ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں سلامتی کے اداروں کا وجود ہی ریاست کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔ افواج ہی کسی ریاست کا بازوئے شمشیر زن ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہر ریاست، بالخصوص کسی بڑے ہمسائے کے پہلو میں جینے والی ریاست کی پہلی ترجیح اپنی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانا ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں ملک امیر ہوں یا غریب، اپنی افواج کو طاقتور بنانے کے لئے اپنی اپنی بساط کے مطابق کنزمپشن اور انویسٹمنٹ کی مد سے رقوم منہا کر کے دفاع کے لئے مختص کرتے ہیں۔

آئیڈیلی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن برٹرنڈرسل کے مطابق ہم ’آئیڈیل ورلڈ‘ میں نہیں بلکہ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں کا باسی اذیت پسند اور طاقت کی پوجا کرتا ہے۔ جہاں اندھی طاقت ہی معاملات طے کرتی ہے کہ جس کے لئے وہ ہمارے اندر چھپی صدیوں قبل غاروں میں رہنے والے شکاری آبا و اجداد کی طرف سے وراثت میں ملنے والی جبلت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

چونکہ سلامتی کے ادارے طاقتور ہوتے ہیں، لہٰذا سولین حکومتوں کے ساتھ ان کے مسائل بھی چلتے ہیں۔ ان مسائل کو عموماً ’سول ملٹری تعلقات‘ کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے۔ سول ملٹری تعلقات کی مساوات (توازن) میں اونچ نیچ پوری دنیا میں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں افواج یا جنہیں ہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، اپنے ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر سر گرم رہتی ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں برٹش انڈیا آرمی کا حصہ رہنے والی بھارتی فوج بار ہا ان معاملات پر اثر انداز ہوئی ہے جو کہ خالصتاً سویلین لیڈر شپ کا میدان سمجھی جاتی ہیں۔

کلدیپ نائر تقسیم ہند سے لے کر منموہن سنگھ کی حکومت تک کے ادوار کا احوال لکھتے ہوتے اپنی کتاب Beyond the Lines میں بار ہا ان مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جب فوجی مداخلت کے امکانات صاف دکھائی دینے لگے تھے۔ امریکہ میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ صرف Obama ’s War نامی ایک کتاب حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے کافی ہے۔ برطانوی مورخ ہیو سٹریچن اپنی کتاب Politics of the British Army میں برطانوی فوج کو برطانیہ کے نظام حکومت میں ایک باقاعدہ‘ سیاسی فریق ’political entity) ) قرار دیتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں مارشل لاء کیوں نافذ نہیں ہوتا؟ اخلاقی پیرائے میں اس سوال کا جواب تو وہی ہے جو امجد اسلام امجد کو ان کے انگریز میزبان نے برسوں پہلے دیا تھا کہ جس کے خیال میں مارشل لا ء کا نفاذ کرنے والے جرنیل لندن کے بازاروں میں خریداری کے قابل نہ رہتے۔ اگرچہ ہمارے پاس ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب حکمرانوں نے اپنی قومی فوج کو خود کمزور کرنا چاہا۔ سلامتی کے اداروں کو خود اپنے حکمران تب کمزور کرنا چاہتے ہیں جب انہیں اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو خطرہ محسوس ہو۔

جیسے نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کے فوراً بعد لائبیریا میں اقتدار پر قابض ہونے والے آمر سیاکا سٹیونز نے برٹش انڈین آرمی کی طرز پر ہی قائم منظم فوج کا شیرازہ محض اس لئے بکھیر دیا کہ حکومت اور ہیروں کے کاروبار پر اس کے خاندان کی اجارہ داری پر اگر کوئی سوال اٹھا سکتا تھا تو وہ یہی قومی فوج تھی۔ نتیجے میں چند ہی برس کے اندر ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر ویرانے میں بدل گیا۔ لائبیریا کے حکمران خاندان کی استثنائی مثال ایک طرف، حقیقت مگر یہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری حکمران جہاں محدود قومی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سلامتی کے اداروں کو طاقتور بنانے کے لئے سرگرم رہتے ہیں تو بیک وقت ان اداروں کی طاقت کو آئین کے تابع رکھنے کے لئے ہمہ وقت پیراڈاکسی صورتحال سے بھی نبرد آزما رہتے ہیں۔

یہ کچھ اور نہیں‘ سٹیٹ کرافٹ ’کا حصہ ہے۔ طاقتور اداروں کی‘ طاقت ’کو قابو میں رکھنے کی اہلیت جمہوری حکمرانوں کو ‘ سویلین بالادستی ’کا راگ الاپنے سے نہیں بلکہ اخلاقیات، مبنی بر انصاف رویوں، اشرافیہ کے قبضے سے نجات، مضبوط سویلین اداروں کے قیام اور آئین و قانون کی عملداری سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ سال 1958 ء میں پاکستان کے عوام ملک کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور آئین و قانون کی عملداری سے مطمئن ہوتے تو آج ہمارے ملک میں‘ سول ملٹری مساوات ’کی نوعیت ہی نہیں ہماری تاریخ بھی مختلف ہوتی۔

آج بھی مگر ہمارے ہاں ظلم پر مبنی رویوں کا ہی نتیجہ ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ گروہی تعصبات کا بری طرح شکار ہے۔ ملک میں پارلیمنٹ کرم خوردہ اور عملا عضو معطل ہے۔ بچے کچھے ادارے بھی اعتبار کھو چکے ہیں۔ حکم صدر کا ہو یا گورنر کا ، رولنگ چیئرمین سینٹ کی ہویا کہ اسمبلیوں کے سپیکرز کی، صاف الفاظ میں لکھے قانون کی تشریح کے لئے سب عدالتوں کی جانب دوڑتے ہیں۔ عدالتوں کے بارے میں بھی مگر کاش ہماری رائے وہی ہوتی جو ہم برطانوی عدالتوں کے باب میں رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ برطانوی عدالتوں کی مثالیں دینے سے پہلے کاش خود ہم اپنے اپنے رویوں پر بھی ایک نظر کرلیتے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments