میسی کا خواب


جاڑے کی بارش تمام گاؤں والوں کو گھروں میں محصور کیے ہوئے تھی۔ کوئی باہر نکلتا تو کھانستا ہوا واپس آتا۔ بارش ہڈیاں صاف کر چھوڑتی۔ سرد ہوا سینہ باندھ دیتی۔ کیچڑ غریب غربوں کی طرح پاؤں پکڑ لیتی۔

میسی کی مرغیاں ظہر کے ساتھ ہی صحن کے پیپل میں جا دبکی تھیں۔ اندھیرا عصر ہوتے ہی اتر آیا تھا۔

میسی نے سارا دن دروازے کے پاس رکھی اپنی چوکی پر بیٹھے بیٹھے ابا کی باتیں سننے، اماں کی گھوریاں سہنے اور پیپل کی ٹہنیوں کو بارش سے سینہ زوری کرتے دیکھنے میں گزار دیا تھا۔ اسے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھ کر کمرے کے درمیان میں رکھے چولھے پر ہاتھ سینکنے بھی جانا پڑتا۔ اماں لکڑیوں کا رونا بھی رو رہی تھیں۔ بادل ٹلے گا تو کسی کی منت کر کے اور لے آئے گا۔ ایک بار ابا نے حقے کے لیے انگارہ مانگا تو میسی نے اپنے ہاتھ سے ہی اٹھا کر پھول پر رکھ دیا۔

اس پر ابا نے اسے ماں کی گالی دی جب کہ اماں نے ابلتی ہوئی دال سے ڈوئی نکال کے بلند کی۔ دونوں چھوٹیاں رونے والی ہو گئیں۔ پھر مغرب سے پہلے ہی اماں نے سب کے آگے ایک ایک روٹی اور آدھی آدھی پیالی دال رکھی اور کہا کہ جلدی جلدی کھانا کھاؤ اور سونے کی تیاری پکڑو۔ ڈیوے میں تیل اتنا نہیں ہے کہ آدھی آدھی رات تک جلتا رہے۔

کھانا کھا کر میسی اترن کے کپڑوں سے بنی رضائی میں گھسا تو سوچا کہ آج بارش نہ برستی تو کتنا مزا آتا۔ حاجی ٹیلی نار کے ڈیرے پر ورلڈ کپ کا سیمی فائنل دیکھنے جاتا۔ حاجی ٹیلی نار کے ڈیرے پر تو بجلی بھی نہیں جاتی تھی۔ جنریٹر کی وجہ سے۔ جس دن اس کے ڈیرے پر ٹیلی نار کا کھمبا لگا، اسی دن اس نے میسی اور اس کے ابا کو بلا کر کھدائی کروائی اور تاریں لے جا کر اپنے سوئچوں میں پہنچا دیں۔ اب سارا گاؤں اندھیرے میں ڈوب جاتا مگر حاجی ٹیلی نار کے بلب جلتے رہتے۔

لوگ کہتے کہ ٹیلی نار والوں کو پتہ ہے کہ حاجی ان کی بجلی کھا رہا ہے پر چپ ہیں کیوں کہ انہیں کھمبا یہیں لگانا ہے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے کہ حاجی اور ٹیلی نار دراصل ایک ہی ہیں۔ مگر میسی کو ایسی باتوں کی سمجھ نہ آتی۔ خیر میسی کو کیا؟ اسے تو مفت میں میچ دیکھنے کو مل جاتے۔ فٹ بال کے پیچھے پاگل ہوتے کھلاڑی اور لوگوں کا شور۔ اف۔

کیا کبھی کوئی میدان اس کے نام کی پکار سے بھی گونجے گا؟

اگر وہ انگارہ اٹھا سکتا ہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس نے جمائی لیتے ہوئے سوچا۔ کبھی فیفا ورلڈ کپ تک پہنچ گیا تو اس کی مرغیاں تک مشہور ہو جائیں گی۔ ایک مرغا اور چار مرغیاں جو اسے حاجی ٹیلی نار نے حکومت سے بالکل مفت لے کر دی تھیں۔ آج کے انڈے پتا نہیں کہاں دے آئی ہوں گی؟ دو درجن اور ہوں تو وہ انہیں بیچ کر نیلی لکیروں والی ٹی شرٹ لے۔ چند ماہ اور اماں کو انڈوں کی جگہ معلوم نہ ہوئی تو جوگر بھی ہو جائیں۔ لیکن اگر بارش جاری رہی اور انڈے گم ہوتے رہے تو؟

کیا کوئی ایسی جگہ بھی ہو گی جہاں انگارے اٹھانے کے پیسے ملیں؟ اس نے ایک بار پھر جمائی لی۔ اگر ملتے ہوئے تو ڈھیر سارے ملتے ہوں گے۔ بس اتنے ہو جائیں کہ ابا میسی کو شام کے وقت فٹ بال کھیلنے دے۔ سورج غروب ہونے سے دو گھنٹے پہلے چھوڑ دے۔ ایک بار کوشش کر کے اس نے سارے دن کی اینٹیں آدھے دن میں ڈھو لی تھیں۔

”ہزار اینٹیں ہو گئیں، ابا۔ اب جاؤں؟“
”ہم دیہاڑی دار ہیں پتر، ٹھیکے دار نہیں۔ حاجی ٹیلی نار نے آدھی دیہاڑی کاٹ لی تو آٹا کہاں سے لیں گے؟“
میسی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

”تو تو گھر کا مرد ہے، پتر۔ دو چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں تیری۔ میں ٹی بی کا مریض۔ ماں تیری کی دید کمزور۔ ایک اینٹ اٹھاتی ہے تو دوسری سے ٹھوکر کھا کر گر پڑتی ہے۔ تو تو ہمت نہ ہار۔ چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں تیری۔“

اگر انگارے اٹھانے کے پیسے ملیں تو میسی اپنی بہنوں کے آگے آٹے کا پہاڑ بنا دے۔ اماں کہتی تھیں کہ ان کا جہیز بھی میسی بنائے گا۔ ڈھیر سارے کپڑے اور برتن۔ اور دو، دو بستر، گرمیوں کے لیے الگ، سردیوں کے لیے الگ۔ خیر ابھی تو بہت چھوٹی ہیں۔ کیا پتہ جب تک یہ بڑی ہوں وہ بہت بڑا فٹ بالر بن چکا ہو؟ پھر تو وہ ان کو سامان کی پوری پیٹی بھر کے دے گا۔ اس نے ایک بار پھر جمائی لی۔ پھر تو وہ ایک ایک بھینس بھی لے کے دے سکتا ہے۔

لیکن ابھی تو وہ چھوٹی ہیں۔ بہتر ہے کہ وہ ابھی کچھ کرے۔ آج جب چھوٹیاں ابھی چھوٹی ہیں۔ لیکن اس کے لیے اسے بھٹے کے چکر سے نکلنا پڑے گا۔ بس کسی طرح سے کچھ آٹا جمع ہو جائے۔ حاجی ٹیلی نار کے ڈیرے پہ ایک کوٹھا بھرا ہوا ہے گندم سے۔ اسی گندم کے نیچے سے بجلی کی تاریں گزر رہی ہیں۔ تھوڑی تھوڑی کر کے میسی دو بوریاں چرا لے تو۔

اچانک وہ استغفراللہ کہہ کر اٹھ بیٹھا۔
”کیا ہوا، پتر؟“ اس کے ابا کی آواز آئی۔

”کچھ نہیں، ابا۔“ اس نے رضائی سے سر نکال کر کہا۔ ڈیوے کی لٹ مدھم پڑ چکی تھی۔ اگر حاجی ٹیلی نار کے گھر بجلی جا سکتی ہے تو میسی کے گھر گندم کیوں نہیں آ سکتی؟ یہ سوال کسی مشکل کتاب کی طرح اس کے ذہن پہ اتنا گراں گزرا کہ اسے نیند آ گئی۔

خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے انگارے اٹھا اٹھا کر بھٹے کے تہہ خانے میں ڈال رہا ہے اور آگ تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اسی آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ لپک کر بھٹے کی دیوار سے لپٹ جاتا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑا ٹی وی بن جاتا ہے۔ وہیں فٹ بال کا میچ لگ جاتا ہے : فیفا ورلڈ کپ کا فائنل۔ فٹ بال کے پیچھے پاگل ہوتے کھلاڑی۔ ان کے دیوانوں کا ہجوم۔ میدان میں گونجتا ایک ہی نام: میسی، میسی، میسی۔

پھر ایک کھلاڑی فٹ بال کو ایک زوردار کک مار کر گول کرتا ہے تو بھٹے کی چمنی میں سے ایک بوری گندم کی اچھل کر میسی کے گھر جا گرتی ہے۔ اس کے بعد گول پر گول ہونے لگتے ہیں۔ اور گندم کی بوریاں اڑ اڑ کر میسی کے گھر گرنے لگتی ہیں۔ میسی اور زیادہ انگارے ڈالتا ہے۔ آگ اور تیز ہوتی ہے۔ میچ میں گول اور زیادہ تیزی سے ہونے لگتے ہیں۔ میسی کے گھر گندم کا اتنا بڑا ڈھیر لگ گیا کہ اس کے صحن کا پیپل چھپ جاتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چھالے ابل آتے ہیں مگر وہ ہمت نہیں ہارتا اور بھٹے کی آگ کا شکم اپنے ہاتھ کے انگاروں سے گرم کرتا رہتا ہے۔

اچانک اسے خیال آتا ہے کہ اس کے گھر کی دیوار بہت چھوٹی ہے۔ اندھے کو بھی نظر آ رہا ہو گا کہ گندم آئی ہے۔ پہلے اسے جا کر گھر کی دیوار اونچی کرنی چاہیے۔ وہ انگاروں کو بھٹے میں پھینکتا ہے اور مٹھیاں سہلاتا ہوا گھر کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ وہاں جا کر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے دیر کر دی۔ اس کے گھر کے آگے کھڑا حاجی ٹیلی نار فیفا کے افسروں کے ساتھ معاملات طے کر رہا ہوتا ہے۔

”مانتا ہوں کہ کھلاڑی آپ کے ہیں مگر بھٹہ میرا ہے۔“
”پسینہ تو کھلاڑیوں کا بہا ہے۔“
”مطلب میرا کچھ نہیں لگا؟ میرے بھٹے کی چمنی مفت میں بادلوں سے اونچی ہو گئی ہے؟“
”گندم کھینچی تو کھلاڑیوں نے ہے۔“

”میں پانی کی طرح پیسہ نہ بہاتا تو کھلاڑی کہاں سے لاتے اتنا بڑا بھٹہ؟ میں چالیسواں دوں گا۔ لینا ہے لو نہیں لینا وہ رستہ پڑا ہے۔“

”کھلاڑی حصہ دار ہیں، حق دار نہیں۔“
”چلو بیسواں اٹھاؤ اور پشت دکھاؤ۔“ حاجی ٹیلی نار نے حتماً کہا۔
فیفا والے اپنے حصے کی گندم گننے کے لیے میسی کے گھر کی طرف بڑھے تو میسی آگے آ گیا۔

”میں نے اپنے ہاتھوں سے انگارے اٹھائے ہیں اس گندم کے لیے۔ یہ دیکھو میرے ہاتھوں کے چھالے۔ مجھ کو بیسواں چاہیے۔“

فیفا والوں نے حاجی ٹیلی نار کی طرف دیکھا۔ حاجی ٹیلی نار چند قدم آگے آیا اور میسی کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ مار کے کہا:

”ممدا میسی بن لیونل میسی نہ بن۔ ابھی چار مہینے تو نہیں ہوئے کہ مرغیاں لے کر دی ہیں میں نے تمہیں۔“
میسی ہڑبڑا کر جاگا تو اس کا ہاتھ گال پر تھا۔ ڈیوے کی لٹ مر چکی تھی۔ کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
”کیا ہوا ممدو؟“

نہ تو اس کی ماں کی آواز اجنبی تھی اور نہ ہی اس کا نام تو پھر یہ کیا ظلم تھا جو اس گھپ اندھیرے میں بھی اسے صاف نہیں دکھ رہا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments