شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا دفتر کھلا چوتھی قسط


اگلے روز مس چیکو بنک کارڈ لے کر آ گئی الخاصی پھولے نہیں سماتا تھا اسے چیکوسن مل گئی ہمیں بنک کارڈ مل گئے ہم کو پہلی مرتبہ کسی جاپانی بنک کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جونہی ہم ایک جاپانی دوست کے ساتھ بینک میں داخل ہوئے سامنے مختلف کاؤنٹر پر بیٹھی سات آٹھ خواتین کھڑی ہو گئیں اور ”ارشے مسے۔ ارشے مسے“ کا شور برپا ہو گیا۔ میں خوفزدہ ہو گیا کہ شاید میری کسی غلطی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ جاپانی دوست سے پوچھا یہ اتنا شور کیوں مچ گیا ہے اس نے بتایا وہ دراصل آپ لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔

میرا رکا ہوا سانس بحال ہوا اور مجھے اطمینان حاصل ہوا کہ چلو میری کوئی غلطی نہیں تھی لیکن اس طرح کا استقبال عجیب و غریب لگ رہا تھا کہ اتنی زیادہ خواتین اٹھ اٹھ کر استقبال کر رہی ہیں۔ بعد میں جب میں اکیلا بھی گیا تو ان کا ارشے شسے ختم نہیں ہوا استقبال کا وہی انداز رہا وہی خوشگوار مسکراہٹ ان کے چہروں پر کھیلتی رہی۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا کہ میرے عام جیسے آدمی کے لئے اس طرح استقبال ہو۔ پھر میں یہ کرتا کہ ایک منٹ دروازہ پر رک کر انہیں مصروف دیکھ کر ہال میں داخل ہوتا کہ ان کو دکھائی نہ دوں یہ طریقہ کافی حد تک کامیاب رہتا لیکن جب بھی ان کی نظر پڑ جاتی ”ارشے مسے۔

ارشے مسے“ کا ورد شروع ہو جاتا۔ نہ جانے یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں ہر جگہ آپ کے آگے بچھتے چلے جاتے ہیں جیسے ہم کوئی بڑے سیلیبرٹی ہوں۔ جاپانی کورس فیلو میرے ساتھ جب بھی ڈاؤن ٹاؤن کو نکلتے مجھے لگتا جیسے کوئی شہنشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ نکلا ہوا ہے ایک نے میرے لیے سب وے کا نقشہ تھام رکھا ہے دوسرے نے میرا سامان اٹھا یا ہوا ہے تیسرے نے دھوپ اور بارش میں اپنا چھاتا میرے اوپر تانا ہوا ہے۔ دل میں شرمندگی سی محسوس ہوتی تھی کہ ترقی یافتہ دنیا کے یہ شائستہ لوگ ہماری اتنی عزت کریں اور ہمارے جوتے سیدھے کریں۔ ایک مرتبہ جب میں کار ایکسیڈنٹ میں زخمی ہوا اور میری ٹانگ پر پلستر لگا تو دیکھا یہی ساتھی میرے جوتے سیدھے کر رہے ہیں مجھے جوتے پہنا رہے ہیں، سہارا بھی دے رہے ہیں اور گھنٹوں ہسپتال میں میرا دل بہلا رہے ہیں۔

کوریڈور کے دونوں طرف ہمارے کمرے تھے میرا کمرہ گراؤنڈ فلور پر تھا۔ کوریڈور کی اینٹری پر ایک جاپانی ہماری سہولت کے لئے بلکہ ہماری مانیٹرنگ کے لئے بیٹھا ہوا ہے اس کی ہر آنے جانے والے پر نگاہ ہے اور اگر ہمیں کوئی تکلیف ہو یا کسی چیز کے بارے میں کوئی بھی انفارمیشن لینی ہو تو بھی وہ کافی مدد کرتا ہے۔ مجھے یہاں آئے ہوئے تیسرا روز تھا کہ کوریڈور میں آتے جاتے تلاوت کی آواز سنائی دیتی تھی میں رک بھی جاتا سننے کی کوشش کرتا کہ دیکھوں کون ہے پھر خیال آتا کہ یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کیونکہ پہلے روز جب میں ڈاؤن ٹاؤن گیا تو وہاں پر مجھے لاؤڈ سپیکر پر تلاوت کی آواز آئی تو اس اجنبی دیس میں عجیب سا محسوس ہوا۔

اس آواز نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا میں اس کے پیچھے کبھی ادھر کبھی ادھر دوڑا کیا آخر کافی تگ و دو کے بعد پتہ چلا کہ الیکشن کی آمد ہے اور اس سلسلے میں اناؤنسمنٹ ہو رہی ہے۔ کئی آوازیں ٹکرا کر غلط فہمی پیدا کر رہی تھیں۔ کوریڈور کی آواز کا میں نے چٹر راج سے بھی ذکر کیا اس نے بھی کہا کہ اس کے کانوں میں بھی تلاوت کی آواز پڑی ہے۔ ایک شام ڈائننگ ہال گیا تو چٹر راج کے ساتھ بنگالی رنگ کا ایک آدمی بیٹھا تھا۔

چٹر راج نے کہا میں نے بندہ تلاش کر لیا ہے، ہر صبح آپ کے کانوں میں جس کی تلاوت کی آواز سنائی دیتی تھی وہ یہ حضرت ہیں مسٹر رحمٰن فرام بنگلہ دیش۔ ڈھاکہ میں ان کی جسٹس ڈیپارٹمنٹ میں تعیناتی ہے۔ بنگالی ہیں، اگرچہ ان کے قومی شاعر نذر الاسلام ہیں لیکن یہ ٹیگور کی شاعری پر جھوم اٹھتے ہیں، ان سے ملئے۔ میں نے ان سے مصافحہ کیا اور ان کو غور سے دیکھا۔ شکل سے لگتا تھا کہ 60 سال کو دستک دے رہے ہیں لیکن ان کے رنگ ڈھنگ کیٹس کے ڈان جوان جیسے تھے۔

دادا رحمٰن بوتیک کی بے شمار رنگوں والی شرٹ زیب تن کیے ، ورسٹڈ کی تنگ موری والی پینٹ پہنے اور سر پر فیلٹ ہیٹ رکھے ہوئے سامنے بیٹھے تھے، جدھر جدھر ڈائننگ ہال کی سروس لیڈیز کے قدم بڑھتے اس کی نظریں بھی اسی طرف ان کا تعاقب کرتیں، تلاوت شاید اس کا اندرونی معاملہ ہو لیکن بیرونی معاملات کے اشارے کسی اور امر کی نشاندہی کر رہے تھے۔ میں نے چٹرراج سے کہا آپ ان کو ہزار مقدس پردوں میں چھپا لیں یہ کسی اور فیلڈ کا آدمی ہے۔ رحمن دادا سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور یہ بھی ہمارے کورس کے چوتھے فرد تھے اور ہیوی ویٹ ممبر، اس طرح کا ایک آدمی ہمارے پاس پہلے تھا مسٹر خالصی اور اب خدا نے ایک اور عطا کر دیا تھا۔

یہ ہمارے آزادی کے دن تھے ہم پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی کہ ہم نے کب سونا ہے کب جاگنا ہے کب ڈاؤن ٹاؤن جانا ہے کب ڈائننگ ہال جانا ہے؟ جو ہر وقت کھلا رہتا تھا اور ٹیلیویژن کے بے شمار چینل چل رہے ہوتے۔ ہر لاؤنج میں ایک ٹی وی سیٹ رکھا ہوا تھا ساتھ ٹیپ ریکارڈر اور ساتھ ہی ماضی کے عظیم فنکاروں چارلٹن ہیسٹن، گریگیری پیک، عمر شریف، انتھونی کوئن، الزبتھ ٹیلر، پیٹر اوٹول کی ان گنت بہترین کلاسک انگلش فلموں کے ڈھیر موجود ہیں اور خوبی یہ تھی کہ ان میں ایک ایسا سسٹم کہ آپ نے فلم لگا لی ہے اس کے انگلش جرمن فرنچ اور جاپانی ورژن موجود ہیں جس زبان میں آپ دیکھنا چاہیں سسٹم آن کر لیں اور اسی ورژن میں فلم دیکھیں۔

لاؤنج سے اٹھتے ہم لیکچر تھیٹر میں داخل ہوتے جہاں پر پروفیسر سوزوکی جاپانی زبان و ثقافت پر لیکچر دے رہے ہوتے، ویسے تو ہمیں مکمل آزادی تھی کہ لیکچر سنیں یا شہر چلے جائیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ وہاں بھی یہی تعلیم غیر محسوس طریقے سے ہماری روح میں داخل ہو جائے گی۔ لیکچر تھیٹر کافی کشادہ ہے۔ جاپانی پروفیسر نے جاپانی کلچر، مذہب اور زبان کا تعارف شروع کر دیا ہے۔ اس میں سنجیدگی بھی تھی معلومات کا خزانہ بھی تھا اور مزاح کا عنصر بھی تھا۔

مثلاً انہوں نے کہا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ”S“ کا حرف ادا نہیں کر سکتے، یہ جہاں جہاں بھی استعمال ہو گا ہم نے اس کی جگہ ”Sh“ کا استعمال کرنا ہے۔ اگر آپ اپنے آفس میں بیٹھے ہیں اور کوئی جاپانی آ کر آپ سے بیٹھنے کی اجازت لیتا ہے تو وہ یہ نہیں کہ سکے گا ”May i sit“ ، وہ کہے گا ”May i shit“ ۔ آپ سن کر گھبرا نہ جانا کیونکہ اس طرح کے کئی الفاظ آپ کو پریشان کر سکتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مذہب کا معاملہ ہے، یہ بھی عجیب و غریب ہے۔

عام طور پر ہمیں بہت مذہبی قوم خیال کیا جاتا ہے، لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہمارا کوئی مذہب نہیں۔ جب ہمارا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے پیدائش کے فوراً بعد شنٹو شرائن لے جایا جاتا ہے اور اسے اس بھگوان کی اشیر باد دی جاتی ہے جس کی حدود میں رہ کے اسے زندہ رہنا ہے۔ یہاں پراس طرح کی تمام رسومات ادا کی جاتی ہیں جس سے یہ بچہ آئندہ زندگی میں بھٹک نہ جائے اور اگر بھٹکنے بھی لگے، میری مراد جب وہ شادی کرنے کا ارادہ کرے تو ہمارے پاس شنٹوازم موجود ہے، شادی کی رسومات شنٹوازم کی رسومات کے مطابق ادا کی جاتی ہیں۔ اور ہم جب مرتے ہیں تو ہمارا مذہب بدھ ازم بن جاتا ہے۔ موت کی اور مرنے والوں کی تمام رسومات بدھ مت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

یہ نہیں کہ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ اس میں پوری سنجیدگی اور غم و اندوہ کا اظہار ہوتا ہے یعنی ہماری خوشیوں اور خوشیوں سے وابستہ تمام رسومات کے لئے ایک مذہب ہے اور جب زندگی پر غم کے سائے پڑنے لگیں تو ہم دوسرے مذہب کا سہارا لیتے ہیں اس سلسلے میں ایک کہانی ہے کہ بدھ مت کے لئے جو بھکشو تیار ہوتے ہیں اس طرح کے ایک زیر تربیت بھکشو سے کسی نے پرچھا کہ آپ لوگ لوگوں کی زندگی سے کتنے جڑے ہوئے ہیں تو اس نے بتایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسانوں کی زندگی کے ایک محدود دائرے تک ہماری رسائی ہے ہماری ضرورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی گھر میں ایک آدمی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا کا ایک آدمی اس دنیا سے غائب ہو گیا ہے، اس وقت وہ لوگ جو اس کے گرد موجود ہوتے ہیں اس وقت انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کو ہماری بہت ضرورت ہے۔

ان کے دل میں خیال آتا کہ اس دنیا میں ایسے ”اجنبی لوگ“ یعنی ہم لوگ بھی موجود ہیں جن کا تعلق دوسری دنیا سے ہے جو ہم سے ماورا ہے ان کو پھر ہماری ضرورت پڑتی ہے وہ ہمارے پاس آتے ہیں اور پھر ہم آنجہانی کی میت کے ساتھ بیٹھ کر ماہر اور ایکسپرٹ کی طرح پوزیشن سنبھال لیتے ہیں۔ زندگی مابعد زندگی کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا اس کا تصور ہماری سوچوں پر ہماری عام زندگی پر چھایا رہتا ہے آپ جاپانی لوک گیت سنیں ہمارے Festivalsدیکھیں، ان گیتوں کا اور ان خوشیوں کا مرکزی خیال ہی یہی رہتا ہے۔

اس کے ساتھ ایک بڑی مذہبی قوت کنفیوشس ازم کی ہے جو ان دونوں مذاہب کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ہم ان تینوں مذاہب کو بیک وقت ساتھ ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور پورے تحمل اور حوصلہ کے ساتھ۔ اب تو عیسائیت بھی میدان میں آ گئی ہے لیکن بدھ مت، شنٹومت اور کنفیوشس مت ہمارے رگ و پے میں اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ ہم نہ سوچتے ہوئے بھی ان پر عمل کر رہے ہوتے ہیں ان کی تمام اقدار ہماری تہذیبی زندگی میں ہمارے رسوم و رواج میں خون کی طرح دوڑ رہی ہیں اور ایک بات آپ دیکھیں گے کہ ہمیں کسی مذہب سے پریشانی نہیں اور نہ ہمارے مذہب سے کسی کو پریشانی ہو سکتی ہے۔

جب لیکچر ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ میں دونوں طرف سے خواتین میں گھرا ہوا تھا ایک طرف ترکی کی خاتون تھیں دوسری طرف مکمل ایک بلیک خاتون رنگ آبنوس کی لکڑی کی طرح سیاہ جسم بھی لکڑی کی طرح سپاٹ اور لکڑی کی طرح جلی بجھی بیٹھی تھی نہ چہرے پر مسکراہٹ نہ کسی سے ہیلو ہائے۔ میں نے ان سے ٹریننگ کا پوچھا تو پتہ چلا ٹورازم کے لئے آئی ہیں ماشاءاللہ جب ایسے لوگ تربیت حاصل کر کے اپنے وطن واپس جائیں گے اور اپنی اپنی جاب سنبھالیں گے تو اس ملک کی سیاحت کو کتنا ریونیو حاصل ہو گا، آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔

میں نے ان سے پوچھا آپ ٹورازم کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟ اس نے بتایا کہ ”مجھے نئے نئے لوگوں سے ملنے کا شوق ہے“ میں نے دل میں کہا ”اسی وجہ سے لیے دیے بیٹھی تھیں کہ جیسے ساری کلاس سے ان کا جھگڑا ہو گیا ہو“ میں نے کہا ”آپ کے لوگ گوہر شناس ہیں جنہوں نے آپ کو چن کر بھیجا ہے میں اندازہ کر سکتا ہوں“ وہ مسکرائی، اس کے دانت چمک اٹھے جیسے بادلوں میں بجلی چمکتی ہے۔ میں ڈر گیا کہیں مجھ پر نہ گر جائے، اتنے میں چٹر راج نے مجھے آواز دی اور میں اٹھ کر اس کی طرف بھاگا۔

ہمارے سارے دن کی تھکاوٹ ڈائننگ ہال میں آ کر اترتی تھی۔ یہ ڈائننگ ہال ایک بہت بڑا تھیٹر لگتا تھا کہ جس کے ہر لاؤنج میں ایک ڈرامہ ہو رہا ہوتا کسی کی ابتداء ہو رہی ہوتی کوئی ختم ہونے والا ہوتا۔ آدمی خود کو اس کے اندر بیٹھے ہوئے ایسے محسوس کرتا کہ جیسے وہ سینے راما دیکھ رہا ہے جس کے چاروں طرف سکرین لگے ہیں کھیل جاری ہیں اور وہ خود اس کا حصہ ہے۔ یہاں کئی روز سے وہی چہرے دکھائی دے رہے تھے اب ان کی شکلیں مانوس سی لگنے لگی تھیں۔

انہی میں ایک ہر دل عزیز شخصیت مس چن کی بھی تھی۔ وہ ہانگ کانگ کی شہزادی تھی نہایت ملنسار ہنستی مسکراتی شخصیت، ہم سے دوسرے دن اس کا تعارف ہو گیا باقیوں کا تو ابھی علم نہیں، ہمارے کورس کی تیسری شریک کار تھی جس سے تعارف ہوا تھا۔ وہ خوبصورت تھیں جچی تلی بات کرتی، لہجہ انگلش تھا۔ تمام تو انداز بھی مغربی اور ہر طرح دلکش شخصیت تھیں۔ ایک سری لنکا کے مسٹر رسسدھی تھے، بے ضرر سے آدمی تھے۔ ایک طرح سے ہمارا گروپ بھی عادات و اطوار کے لحاظ سے بھکشوں کا گروپ دکھائی دیتا تھا اس میں کبھی کبھار آ نکلتے تھے اور اکثر وقت وہ اپنی ذات میں گم رہتے۔

اس طرح کے مختلف کردار اس تھیٹر میں کام کر رہے تھے۔ سامنے سکرین پر تصویریں ابھرتیں کچھ گم ہو جاتیں۔ کچھ نئی تصویریں ان کی جگہ لے لیتیں۔ کچھ چند لمحوں کے لئے نمودار ہوتیں اور پھر دکھائی نہ دیتیں کچھ تصویریں ایسی بھی دکھائی دیتیں جو شعلے کی طرح بھڑک اٹھتیں اور سکرین پر آگ لگا دیتیں۔ کہیں رقص ہو رہا ہے کہیں عہد و پیماں باندھے جا رہے ہیں کہیں دوست خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور ایک لاؤنج ایسا تھا جہاں ہر وقت شیشے ٹکراتے تھے یہ عرب بھائیوں کا لاؤنج تھا جہاں اکثر اٹھتے بیٹھتے وہ ایک دوسرے سے بھی ٹکرا جاتے تھے اور ان پر ہر وقت بے خودی کا عالم طاری رہتا۔ ہم ناشتہ کر کے شہر چلے جاتے وہاں کئی گھنٹوں کی سیاحت اور تفریح کے بعد واپس آتے تو عرب بھائیوں کا اپنے لاؤنج پر بدستور قبضہ قائم ہوتا۔ اور وہ ابھی پرانے کام میں مصروف ہوتے۔ یہ روزانہ کا معمول تھا۔

ایک روز روز مرہ کی طرح ڈائننگ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ والی ٹیبل پر برازیل کا ایک نوجوان اپنی ساتھی خواتین کی فرمائش پر ہلکے ہلکے سروں میں اپنے ملک کا گیت گا رہا تھا، اس کی ایک ساتھی رقص میں مصروف تھی۔ بھلا عربی لاؤنج کیسے پیچھے رہ جاتا وہ نعرہ بازی کہ الامان ایک سماں بندھا ہوا تھا سانسیں تیز چل رہی تھیں گلاس بھی اسی رفتار سے چل رہے تھے کہ اچانک ایک عرب بھائی دھڑام سے فرش پر گرا اور بیہوش ہو گیا پورے ہال میں خاموشی چھا گئی انتظامیہ نے فون کیا پانچ منٹ کے اندر ایمبولینس آئی اور موصوف کو سٹریچر پر لٹا کر ہسپتال لے گئی، ادھر سے مس چن آ رہی تھیں میں نے انہیں بلایا اور پوچھا مس چن کیا ہوا ہے؟ وہ مسکرائی۔ میں نے حیران ہو کر کہا ادھر صدمہ واقع ہوا ہے اور آپ مسکرا رہی ہیں۔ وہ پھر مسکرائی۔ میں نے کہا خیریت؟ لعلوانی سن وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں آج اس نے دودھ پی لیا تھا اور بیہوش ہو گیا۔

یہ بارہ دن اتنی تیزی سے گزرے کہ ان کے گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا۔ اس دوران اتنے دوست بن گئے بے شمار لوگوں سے تعلق پیدا ہوا۔ موسم بہار شروع ہو گیا تھا نئی پتیاں اور نئے پھول نمودار ہو رہے تھے نیلا آسمان کبھی امڈتے بادل چاروں طرف پھول ہی پھول دکھائی دینے لگے تھے۔ باغات میں روشوں پر اور راستوں پر پھول کھلے تھے پھول سے بچے دوڑتے پھرتے تھے ہمارے چاروں طرف بچوں کی سی معصومیت والے لوگ موجود تھے۔ شہر میں چلے جائیں تو اتنا خوبصورت کہ اس کی ایک ایک چیز اپنی طرف کھینچتی تھی بے فکری تھی خوشی کے دن تھے خوشی کی راتیں تھیں زندگی کا نیا تجربہ تھا نیا ملک تھا اور اس ایک ملک میں دنیا کی اس قدر ورائٹی تھی جو شاید اتنی قریب سے کہیں اور میسر نہ آتی۔ ذہن مطمئن اور دل بہت خوش تھا۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ خوشی کے یہ لمحات اسی طرح قائم رہیں کہ یک دم ایک خیال نے مجھے گرفت میں لے لیا کیونکہ ایک مرتبہ پہلے بھی میں نے ایسی دعا مانگی تھی لیکن اس کا فال آؤٹ اندوہ ناک تھا۔

انسان کی کیا کیا خواہشات اور امیدیں ہوتی ہیں انسان کتنی آرزوؤں امیدوں اور امنگوں کا چھتنار لئے پھرتا ہے جو اسے زندگی کی سہ پہر میں نہ صرف سایہ مہیا کر تا ہے بلکہ اپنی اگلی منزل کی طرف بھی گامزن رکھتا ہے ایک زمانہ تھا جب میری بحیثیت ڈی آئی جی ترقی ہو چکی تھی ہر طرف خوشیاں تھیں میرے والدین میرے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر مجھے مسرت و انبساط کا احساس ہو تا اور دل میں ایک سکون چھایا رہتا۔ میں شام کو کوٹھی سے باہر لان میں آن بیٹھتا تھا تو تھوڑی دیر بعد میرے والد سیاہ چشمہ لگائے چھوٹے بیٹے عمران کو لے کر کر باہر آتے یہ کوٹھی سو کنال پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کے چاروں طرف سڑکیں تھیں وہ بڑھاپے کے وجہ سے آہستہ آہستہ اس کا چکر مکمل کر کے آتے میں ان کی واپسی تک وہیں بیٹھا رہتا میں انہیں دیکھتا رہتا جیسے ایک محب اپنے محبوب کو دیکھتا ہے میرا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا اتنی خوشی کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور میری روح پاتال تک انجانی مسرت سے سرشار ہو جاتی میرا خاندان مکمل تھا ایک میری بہن تھی جو ماں کی طرح مجھ سے محبت کرتی تھی ایک خوبصورت بندھن تھا جس میں میں میرا باپ ماں بہن بیوی بندھے ہوئے تھے۔

اور میں نے خدا سے دعا کی کہ یہ بندھن اسی طرح سلامت رہے یہ فیملی اسی طرح ہنستی بستی رہے اور مسرت کے یہ دن امر ہو جائیں اگرچہ میں جانتا تھا کہ انسان امر نہیں ہے لیکن دل نہیں مانتا تھا یہ سب کچھ اتنی جلدی ختم بھی ہو سکتا ہے میں خدا سے دعا کرتا۔ کہ وہ اس منظر کو ابدی بنا دے۔ مجھے باپ سے بے حد محبت تھی اس قدر کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کو کچھ ہو سکتا ہے۔

ایک دن ساری دعائیں ناکام ہو گئیں کچھ ہی عرصے بعد تمام منظر بدل گئے سارے بندھن ٹوٹ گئے دیکھتے دیکھتے والدہ فوت ہو گئیں میری پینتالیس سالہ زندگی میں فیملی کا یہ پہلا سانحہ تھا اس لیے نہایت جانگسل تھا میں گھنٹوں پاگلوں کی طرح کر سی پر بیٹھا آنسو بہاتا رہتا بچپن سے اب تک والدہ کی ایک ایک شفقت یاد آتی رہتی ایسے محسوس ہو تا تھا جیسے میرے جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا ہو کچھ عرصہ بعد قضا و قدر کے حکم پر میرے جسم کا دوسرا حصہ کاٹ دیا گیا یہ مرے والد تھے جن سے مجھے والہانہ پیار تھا اور وہ مجھے ترقی کی منازل طے کرتے دیکھنا چاہتے تھے

ابھی یہ دل کا درد ختم نہیں ہوا تھا کہ بہن کا انتقال ہو گیا ہماری فیملی کی یہ کل کانئات تھی بہن نے مجھے ماں جتنا پیار دیا تھا میرے جسم کا ایک ایک حصہ کٹ رہا تھا درد کی شدت تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔ اور روح کی بے سکونی بڑھ رہی تھی دنیا اچھی نہیں لگتی تھی جیسے سب کچھ کھو گیا ہو۔ اس وقت طلعت نے معجزاتی پیکر کی صورت میں میرا ساتھ دیا جب میں ہر طرح بریک ہو چکا تھا میری روح چھلنی ہو چکی تھی۔ اس نے میرے زخموں پہ مرہم رکھی میری ڈھارس بندھائی اور مجھے سہارا دیا لیکن وائے حسرت دیکھتے دیکھتے وقت سے بہت پہلے یہ آخری سہارا بھی مجھ سے چھین لیا گیا۔ اور اس وقت میرے جذبات شعر میں ڈھل گئے۔

جاہ و حشم یہ تمکنت عہدہ یہ افسری
سب کچھ ہے ناتمام میری جاناں تیرے بغیر

میرے سامنے زندگی اب ایک سراب کی طرح آ کھڑی ہوئی تھی ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیتا لیکن پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی زندگی ایک لق و دق صحرا کی مانند میرے چاروں طرف احاطہ کیے ہوئے ہے صحرا کی ریت اڑ اڑ کر میرے جسم و جاں پر میرے چہرے پر میری آنکھوں میں پڑ رہی ہے۔ میں آسمان کی طرف دیکھتا ہوں کہ شاید کوئی بادل امڈ کے آئے اور میری جھلستی روح کو سیراب کر دے میری زندگی کے صحرا کو میرے اندر کے صحرا کو اور اس صحرا کو جس میں میں گھر گیا ہوں جل تھل کر دے۔ لیکن دور دور تک کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ گرد و باد ہیں طوفانی ہوائیں ہیں ریت آری کی طرح میرے جسم کو کاٹ رہی ہے ریت کے اس طوفان میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments