دہشت گردی کی تازہ لہر کے محرکات


بنوں میں سی ٹی ڈی پولیس کے حراستی مرکز پہ دہشتگردوں کے حملہ کی بازگشت ابھی فضا میں تحلیل نہیں ہوئی تھی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام باد میں پولیس اہلکاروں پہ خود کش اٹیک نے ملک کی نفسیاتی فضا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے، بعض مسلح عسکری تنظیموں نے ریاستی اداروں کے خلاف ایسی غیر علانیہ جنگ چھیڑ دی جس کی مہیب لہریں ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی مفادات کو زک پہنچانے کے علاوہ جنوبی ایشیا کی ابھرتی معیشتوں کی نشو و نما میں خلل ڈالنے کا ٹول بننے والی ہیں۔

پانچ دن قبل 18 دسمبر کو عسکریت پسندوں کے فدائی گروہ نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں سی ٹی ڈی پولیس کے تفتیشی مرکز پر حملہ کر کے افسران کو دو دن تک یرغمال بنا کر عین اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی جب آئی ایم ایف کی ٹیم ہماری سیاسی اشرافیہ کو سیاسی استحکام کے فوائد و مضمرات بارے سبق پڑھا رہی تھی تاہم ایس ایس جی کی ضرار بٹالین نے انتہائی مہارت سے کارروائی کر کے یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرانے کے علاوہ 25 عسکریت پسندوں کو مار ڈالہ، آپریشن میں ایس ایس جی کے دو کمانڈو بھی کام آئے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ہلاک دہشتگردوں کا تعلق لکی مروت، بنوں اور شمالی وزیرستان سے تھا۔ امسال پاکستان میں پہلا حملہ 20 جنوری کو لاہور کے انارکلی بازار میں ہوا جس میں تین افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے، اس حملہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی تاہم پولیس اور سیکیورٹی فورسز پہ زیادہ تر اٹیک افغانستان سے ملحقہ بارڈر ایریا میں ہوئے جہاں تاحال ہماری مملکت مغربی اشرافیہ کی طرف سے اس خطہ میں بیس سالوں تک لڑی جانے والی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کے مضمرات سے نبردآزما ہے

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ امریکی اپنی غیر معمولی شکست کی خفت مٹانے کی خاطر پاکستان کو قربانی کا بکرے بنانے کے علاوہ افغانوں کی سیاسی ثقافت کو مغربی تہذیب کے پیوند لگانے کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ اپنی متعین پالیسی کے ذریعے افغانوں اور ہمسایہ ممالک کے لئے کھیل کے قواعد بدلنا چاہتی ہے، پہلے امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اسلام آباد کو شامل نہ کر کے پاکستانیوں اور افغانوں میں تفریق کے بیج بونے کی ظالمانہ کوشش کر ڈالی، اب وہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو افغانستان میں دہشتگرد گروہوں کی مبینہ فعالیت سے خوفزدہ کر کے افغانستان کے خلاف صف آراء کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں

تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ امریکیوں نے خود تو دوحہ میں طالبان کی امارات اسلامی کو تسلیم کر کے ان سے عالمی سطح کا معاہدہ کرنے میں عار محسوس نہیں کی لیکن اب وہ دنیا پہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ طالبان کو امارات اسلامی کے قیام سے روکا جائے، اسی مقصد کے حصول کے لئے وہ افغانوں کو ایک بار پھر باہمی جنگ و جدل کی آگ میں جھونکنے کے لئے مبینہ طور پر پاک افغان بارڈر کے اطراف میں داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری سے بھی باز نہیں آتے، روسی میڈیا نے خبر دی تھی کہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں داعش کے کئی پر اسرار گروپ سر اٹھا رہے ہیں۔

حیران کن طور پہ تشدد کی تازہ ترین لہر میں معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی پولیس فورس کو ہدف بنانا اس امر کا غماز ہے کہ دشمن قوتیں ہمارے اس معاشرتی نظم و ضبط کو منہدم کرنا چاہتی ہیں، جس نے گورننس کی ناکامیوں کے باوجود مملکت کا سنبھال رکھا ہے۔

20 دسمبر کو درجنوں عسکریت پسندوں پہ مشتمل مسلح جھتے نے جنوبی وزیرستان کے سٹی پولیس اسٹیشن پہ راکٹ لانچرز اور ہیوی مشین گنز سے دھاوا بول کر تھانہ میں موجودہ عملہ کو سرنڈر کرا لینے کے بعد گاڑیاں اور ایمونیشن لوٹ لیا۔ 17 دسمبر کی شب لکی مروت کے درگئی پولیس اسٹیشن پہ دہشتگردوں کے حملہ میں اے ایس آئی سمیت چار پولیس اہلکاروں کو موت کا مزہ چکھایا گیا، قبل ازیں 16 نومبر کو بھی لکی مروت پولیس موبائل پہ موٹر سائیکل سوار دہشتگردوں کے اچانک حملہ میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت چھ پولیس اہلکار شہید ہوئے، دہشتگردی کی ان تمام کارروائیوں کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کرتے ہوئے ملک کے طول و ارض میں مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔

اسی سال صرف ڈیرہ اسماعیل خان میں چیک پوسٹوں، پولیس کی گشتی پارٹیوں اور پولیو ویکسینیٹروں کی حفاظت پہ مامور 22 پولیس والوں کو گھات لگا کر شہید کر دیا گیا، جن میں انسپکٹر کی سطح کے افسران بھی شامل تھے۔ 14 دسمبر کو شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میران شاہ میں خودکش بمبار نے دھماکہ کر کے تین افراد کو ہلاک اور پانچ کو زخمی کر دیا۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پپس) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 15 اگست 2021 سے 14 اگست 2022 تک پولیس اور سیکیورٹی فورسز پہ 250 حملوں ہوئے جن میں مجموعی طور 433 افراد ہلاک اور 719 زخمی ہوئے۔

پپس پیپر سیریز کے پانچویں شمارے میں شائع ہونے والے تجزیاتی مقالوں کا فوکس بھی شاید ہماری افغان پالیسی اور مفاہمتی شعور کے افق کو زیادہ وسیع کرنے کی نصیحتوں پہ محمول تھا، جنہیں سمجھنے کے لئے خود متذکرہ ادارے کے پس منظر میں جھانکنا پڑے گا۔ تھنک ٹینک نے طالبان کی فتح پر خوشی منانے والوں کی ”پشیمانی“ کی توضیح کی خاطر طالبان کی غیر روایتی حکمرانی کے نتیجہ میں ابھرنے والے سیکیورٹی خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، پاکستان کے لئے ایک اور آزمائش یعنی دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا کرنے کی پیشگوئی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی تراشیدہ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعوی بھی کیا کہ ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ طالبان مقتدرہ افغان سرزمین پر غیر ملکی دہشت گردوں کی افزائش اور نقل و حمل کو محدود کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں مقیم غیر ملکی دہشت گرد گروپ طالبان کی فتح کو وسطی اور جنوبی ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کو اجاگر کرنے کی مہم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہی پراگندہ مہمات استعماری قوتوں کے خلاف خود مختیاری کی جنگ لڑنے والی مظلوم قوموں کا مورال بلند اور غاصب قوتوں کا ڈیٹرنٹ کند ہونے جانے کا تاثر قائم کرتی ہیں۔ رپوٹ میں افغانستان میں دہشتگردوں کی فعال موجودگی کے ساتھ اہم دہشت گرد تنظیموں میں القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ خراسان جیسی خطرناک تنظمیوں کی نشاندہی ملتی ہے، جن میں سے دو عسکری تنظیمیں چین کے صوبہ سنکیانگ کی ایغور مسلمانوں کی مرکز گریز تحریکوں کی نقیب ہونے کی وجہ سے مغربی قوتوں کی سرپرستی انجوائے کرنے کے علاوہ پاکستان میں داعش اور ٹی ٹی پی کی دہشتگردانہ کارروائیوں کا ابلاغی اور نظریاتی کور لینا چاہتی ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ متذکرہ بالا عسکری تنظیموں کی پراسرار افزائش کی شروعات 2012 میں اس وقت ہوئی جب ابامہ انتظامیہ نے پیش پاءافتادہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امارت اسلامی کی متوازی اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں باقاعدہ سرکاری دفتر کھولنے کی منظوری دے کر اشراف غنی کی منتخب حکومت کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔

دنیا کا رویہ اگر ان سے ہمدردانہ ہوتا تو اہل یورپ، بھارت، کی مانند انگلی پکڑ کے انہیں جمہوری تمدن اور عہد جدید کے رموز حکمرانی کی سطح تک لا سکتے تھے مگر افسوس کہ اس کرہ ارض کی دو بڑی طاقتوں نے گریٹ گیم کے تحت پچھلی ڈیڑھ صدی سے افغانیوں کو میدان کارزار کا ایندھن بنانے کے سوا کچھ نہیں دیا، اس لئے وہاں معاشرتی نظام کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ جاتی ڈھانچہ اور پولیس فورس استوار ہو سکی نہ دفاعی نظام کو متشکل کرنے والی منظم فوج کھڑی نظر آتی ہے۔

امریکیوں نے بیس سالوں کی سر توڑ کوشش کے بعد تین لاکھ جوانوں پہ مشتمل نیشنل آرمی بنائی، ( کاغذات میں تو تین لاکھ تھی مگر برسر زمین فوج کی تعداد سوا لاکھ سے زیادہ نہیں ہو گی) اعلی پایہ کے امریکی ماہرین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی وہ ”ملی اردو“ کو پروفیشنل آرمی نہ بنا سکے چنانچہ جونہی نیٹو فورسز نے کابل سے قدم باہر نکالے افغان آرمی ہوا میں تحلیل ہو گئی، جس کے بعد افغانستان کے طول و ارض میں پھیلی فوجی چھاؤنیوں میں بھاری مقدار میں پڑا جدید اسلحہ اور لاتعداد ایمونیشن پہ ان عسکری گروپوں نے قبضہ کر کے ایک بار پھر باہمی جنگ و جدل کی پوزیشن اختیار کر لی، امریکی ایجنسیوں نے جن کی آبیاری 2012 میں شروع کر دی تھی، امریکیوں نے دانستہ اسی نیت سے یہاں بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود چھوڑا تاکہ عسکریت پسندوں کے متحارب دھڑے کئی سالوں تک محو جنگ رہ سکیں۔

اس وقت داعش نے دارالحکومت کابل پہ ٹارگٹ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اسی جمعہ کے دن بھی داعش نے کابل کی جامع مسجد میں خود کش اٹیک کیا لیکن اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود افغان طالبان داعش سمیت کئی عسکری گروپوں کے خلاف موثر کارروائیوں میں کامیاب رہے ہیں البتہ امریکہ کے خلاف بیس سالہ جنگ میں ان کی مدد کرنے والے ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈوں بارے ان کا رویہ نرم ضرور ہے۔ دوسرا خود افغان طالبان کی صف اول کی قیادت کے مابین پالیسی امور میں پائے جانے والے اختلافات ریاستی ڈھانچہ کے ارتقاء کو پابا زنجیر رکھتے ہیں، وزیرخارجہ امیر خان متقی عہد جدید کے تقاضوں کے پیش نظر عالمی برادری کے ساتھ ہم قدم رہنے اور خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں جبکہ طالبان کے مرکزی امیر ہیبت اللہ عورتوں کے لئے جدید تعلیم کو اسلامی اقدار سے متصادم سمجھ کر مخالفت کرتے ہیں۔

بلاشبہ سرحد پار سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی تازہ لہر، جس میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنایا جا رہا، علاقائی امن کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، شاید اسی لئے وفاقی وزیر داخلہ نے پڑوسی ملک کے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ افغان سر زمین سے نکلنے والی دہشت گردی کے خلاف اپنے عہد و پیماں کا احترام کریں۔ چونکہ اس تنظیم کے کئی کمانڈر ماضی میں افغان طالبان کے اتحادی ہونے کی وجہ سے افغانستان میں پناہ لئے بیٹھے ہیں، اس لئے ٹی ٹی پی کی طرف سے تشدد کی تازہ وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے پاک افغان تعلقات کو متاثر ہوں گے۔

اسی لئے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا افغان گورنمنٹ کے لئے بھی باعث تشویش ہونا چاہیے کیونکہ طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، انہیں اپنے وعدے نبھانا ہوں گے۔ تاہم افغان طالبان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی یا کسی دوسرے گروپ کو سرحد پار دہشتگردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے جرائم کے مرتکب پائے جانے والے ہر شخص کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت کارروائی کریں گے۔

البتہ بارڈر ایریاز میں برسرپیکار ہمارے سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز کے مابین کوارڈینیشن کے فقدان کی وجہ سے بھی کئی مسائل جنم لینے لگے جبکہ ان کے برعکس دہشتگرد گروپوں کی کارروائیوں میں حیرت انگیز باہمی ربط اور اسٹریٹجک کوارڈینیشن موجود ہے، جسے اغواء برائے تاوان، منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ سے منسلک ایک مضبوط جنگی معیشت لاجسٹک فراہم کر رہی ہے اور جرائم کی یہی جدلیات پولیس فورس پہ حملوں کا محرک بنتی ہیں۔

اگر ہمارے ارباب بست و کشاد دہشتگردی کے تدارک اور سرحدی امور کی نگرانی کرنے والی گیارہ، بارہ ایجنسیوں کی مساعی کو نیکٹا کے تحت مربوط انداز میں بروئے کار لا سکیں تو انہیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں تاہم بعض لوگ کاؤنٹر ٹیررازم کے امور میں سویلین ایجنسیوں پہ بھروسا کرنے سے ہچکچاتے ہیں حالانکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس وہم باطل کو غلط ثابت کرچکے ہیں، انہوں نے تمام سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز کی مساعی میں ربط پیدا کر کے کراچی جیسے متنوع شہر میں نسلی، لسانی اور مذہبی دہشتگردی پہ نہایت کامیابی سے قابو پا لیا تھا۔ یہاں بھی اگر درجن بھر انٹیلی جنس ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان کوارڈینیشین پیدا کر لی گئی تو دو سو، دو سو بیس کے لگ بھگ دہشتگردوں پہ قابو پانا ریاست کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments