دنیا کی تاریخ کا رخ موڑنے والے تین اہم قتل


انسانی تاریخ کا دھارہ موڑنے میں قتل بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں، حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر اور سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا، کیا یہ قتل کی سازش تھی یا عمران خان کو ڈرانے کی ایک کوشش کہلائے گی یہ ایک بحث ہے جو شاید کافی عرصے جاری رہے گی، پاکستان میں عموماً قاتلانہ حملے مقبول لیڈروں کے حصے میں آئے، بہر حال عمران خان کی مقبولیت سے صرف سیاسی دشمن ہی اختلاف کر سکتے ہیں یہ ان کا حق ہے وہ جو مرضی رائے بنائیں۔ انسانی تاریخ میں ہونے والے کچھ ایسے قتل جنہوں نے تاریخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، پر قاتلانہ حملے ہوئے، بعد میں تو بھٹو کو عدالتوں کے ذریعے ہی قتل کیا گیا، نتائج کچھ کے کچھ نکلے، بے نظیر بھٹو کا قتل پر اگر غور کریں تو ایک نا نظر آنے والا ہاتھ کارفرما نظر آیا، وہ بیدار دماغ تھیں، ان کے بے وقت جانے کا نقصان ضرور ہوا، عالمی سطح پر دیکھیں تو پہلی جنگ عظیم تو ایک قاتلانہ حملے سے ہی پھوٹ پڑی تھی، پھر مہاتما گاندھی، جان ایف کینیڈی، شیخ مجیب، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، پھر مشرق وسطیٰ میں سعودی شاہ فیصل، انور سعادات بعد میں یاسر عرافات کا قتل۔ ان تمام قتل کی وارداتوں پر پوری بات ممکن نہیں، لیکن کوشش ہوگی، رہے جانے والے مقتولین پر پھر کسی اور وقت بات ہو جائے گی۔

پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک قتل کی واردات 28 جون 1914

پہلی جنگ عظیم سے پہلے کا یورپ، صنعتی انقلابات کے بعد کا یورپ، سیاسی لحاظ سے تبدیلی اور معاشی ابتری کا شکار یورپ، کساد بازاری، جہاں ایک جانب طبقاتی تقسیم سر اٹھائے ہوئے تھی وہیں رنگ و نسل کے سوال بھی آگ لگانے میں ایک کردار نبھا رہے تھے۔ اسی صورتحال میں وہاں نئے نئے معاہدے اور فوجی اتحاد بھی طے پا رہے تھے، خفیہ تنظیمیں بھی اس نفرت بھرے ماحول میں پروان چڑھ رہی تھیں (جیسا پاکستان اور ہندوستان اور تیسری دنیا کے ملکوں میں آج ہو رہا ہے ) آسٹریا کے بادشاہ آرچ ڈیوک فرینز فرڈیننڈ اور ان کے بیگم صاحبہ صوفی کو دن دیہاڑے بوسنیا کے دارحکومت سراجائیو ( اب سرائیو) ان کے گاڑی میں قتل کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم پھوٹ پڑی۔ جنگ میں کیا ہوا یہ پھر کبھی کے لئے ادھار رکھ چھوڑتے ہیں لیکن ایک قتل کی واردات نے کیا کچھ بگاڑ دیا یورپ کا جس کا اثر باقی دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

جان ایف کینیڈی کا قتل 22 نومبر 1963

بہت ساری سازشی نظریے اس قتل کے حوالے سے موجود ہیں، قاتل لی ہاروے جو ایک سابق امریکی مرین تھا اس نے نے ایک سادہ سے طریقے سے بذریعہ پوسٹ اطالوی ساختہ پستول گھر منگوائی، اور یہ واردات کر گزرا، یہ تو ہو گیا کہ امریکہ میں 35 ویں صدر کا قتل، کھلی گاڑیوں میں سفر کرنے سے مستقبل کے صدور کو روک دیا گیا، لیکن گن کنٹرول پر کوئی کنٹرول تا حال نہ ہو سکا، باوجود اس کے میرا نہیں خیال کہ یہ ایک گن کنٹرول کا سادہ سے مقدمہ تھا، سیکیورٹی، انٹیلی جنس، عالمی حالات میں اتنا چوکنا امریکہ، اتنے آرام سے اپنے صدر کے مرنے پر سکون سے بیٹھا رہا، ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر قاتل لی ہاروے کے حوالے سے لکھا ہے کہ 25000 ہزار انٹرویوز کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ لی ہاروے کا یہ عمل صرف اس کی اپنی ذات تک محدود تھا، پھر امریکا، گن کنٹرول اور امریکہ بھی ایک الگ معاملہ ہے، جس پر تحقیق کے بعد لکھنا بنتا ہے، وعدہ رہا اگر اللہ کی رضا حاصل رہی تو ضرور اس حوالے سے لکھوں گا۔

انور سادات کا قتل 6 اکتوبر 1981

انور سادات کا نام مصری تاریخ میں کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ شاہ فاروق کو تخت سے اتارنے والے فوجی افسران میں شامل تھے، وہ برطانوی افواج کے مصر میں قیام کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں شامل تھے، بعد میں مصر صدر جمال عبدالناصر کے نائب صدر کی حیثیت سے بہت نمایاں رہے اور 1970 جمال عبدل عبدالناصر کے انتقال کے بعد صدر کی حیثیت سے اقتدار میں آئے۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ جس کو یوم کیپور جنگ، 6 روزہ جنگ بھی کہا جاتا ہے، جس میں مصر نے تین مختلف عرب ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل پر حملہ کیا، لیکن سحرائے سینا کے ایک بڑے علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھا، اسرائیل جنرل ایریل شیرون (جو بعد میں اسرائیل کے صدر بھی بنے ) کے تین ڈیویژن فوج نے نہر سوئز عبور کر کے مصری فوج کو ہی گھیر لیا۔

صحرائے سینا اور نہر یقینا مصر کے لئے فوجی اور معاشی لحاظ سے کافی اہمیت کے حامل ہیں، مصر کو جنگ بندی کرنا پڑی، 19 نومبر 1977 کو انور سادات عرب دنیا کے پہلے سربراہ مملکت تھے جنہوں نے اسرائیل کا باضابطہ سرکاری دورہ کیا۔ 17 ستمبر 1978 کو امریکہ کے کیمپ ڈیوڈ میں مصری اور اسرائیلی صدر کے درمیان امن کا معاہدہ ہو گیا، جس پر دونوں کو سربراہان کو مشترکہ طور پر 1978 امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ انور سادات جہاں عالمی سطح پر مقبول ہوئے وہیں مصر میں ان کی مقبولیت کو گرہن لگنا شروع ہو گیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر احتجاج شروع ہو گیا، جس کو کچلنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا گیا، جس سے لاوا اور پکا۔

انور سادات اور ان کے خاندان پر حکومت کے آخری دنوں پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگے۔ انور سعادت کے بھائی عصمت سعادت جو ایک بس ڈرائیور تھے، اپنے بھائی کے دور حکومت میں کروڑ پتی بنے۔ 6 ستمبر 1981 کو یوم فتح کے موقع پر مصری صدر انور سعادت کو تو فوجی پریڈ میں گولی مار دی گئی، تبدیلی یہ آئی کے انور سادات کے اس طرح انجام پر پہنچنے پر مزید عرب ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے تھے، خاموشی اختیار کر گئے۔ اس لحاظ سے یہ قتل بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ریفرنس
جان ایف کینیڈی
https://www.fbi.gov/history/famous-cases/jfk-assassination

انور سادات

https://www.washingtonpost.com/archive/politics/1982/10/30/sadats-brother-to-stand-trial-on-corruption/25495873-c3e8-4935-a6e0-94285230da68/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments