ناول "انواسی” کا تحقیقی جائزہ


ناول ”انواسی ’محمد حفیظ خان“ کی تخلیق ہے۔ حفیظ خان موجودہ دور کے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے۔ اپنے منفرد اسلوب اور کہانی کی بنت کے حوالے سے اپنی پہچان آپ ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے بہت جلد اردو دنیا میں شہرت حاصل کی۔ آپ کی پیدائش 13 اکتوبر 1956 کو ضلع بہاولپور، احمد پور شرقیہ میں ہوئی۔ شروع میں انھوں نے سرائیکی زبان میں لکھنا شروع کیا اور ”کچ دیاں ماڑیاں“ ڈراموں کی پہلی کتاب لکھی، افسانوی مجموعوں میں ”ویندی رت دی شام“ کے نام سے لکھا۔ اور اردو افسانے میں ”یہ جو عورت ہے“ کے عنوان سے لکھا۔ اس کے علاوہ سرائیکی ڈرامے بھی لکھے۔ ”ادھ ادھورے لوگ“ ان کا سرائیکی ناول ہے جس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کالم اور تحقیق و تنقید کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا۔

اس ناول میں سماجی، ثقافتی اور سیاسی تناظرات کے علاوہ کئی موضوعات ایسے ہیں جو توجہ کے لائق ہیں مثلاً طاقتوں اور مناصب کا بے جا استعمال، مذہبی منافرت، مشرق اور مغرب یا ان کے نمائندوں میں یکسانیت کے پہلو، مقاصد کی تکمیل کی خواہشات کی حسرت میں تبدیلی، سیاست اور بغاوت، محبت اور نفرت، توہم پرستی، کینہ، بعض، عداوت، انتقام اور اس کے علاوہ اور بہت کچھ لیکن ان تمام موضوعات کے بیان میں جو امر سب سے نمایاں ہے وہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی تناظرات ہیں۔

اکیسویں صدی کے ناولوں اور ”انواسی“ کو دیکھا جائے تو انواسی موضوع کے اعتبار سے نمایاں انفرادیت رکھتا ہے۔ اکیسویں صدی کے ناولوں کے موضوعات میں زیادہ تر ”جنگ، دہشت گردی، موجودہ حالات، دور حاضر کا انسان اور اس کے مسائل کا بیان دیکھنے کو ملتا ہے لیکن انواسی کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ناول نگار نے ایک الگ موضوع کو اپنایا ہے جس میں ایک الگ زمانہ ہے۔ مصنف اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کے حالات واقعات کو زیر بحث لا رہا ہے۔ ناول کو پڑھ کر قاری اس وقت کے حالات سے باآسانی واقف ہو سکتا ہے۔

ناول انواسی کی سماجی انفرادیت یہ ہے کہ ناول نگار نے اس ناول میں بہاولپور کی ایک بستی آدم واہن کے سماج کی تصویر اس طرح پیش کی ہے کہ اسے پڑھ کر قاری پورے بہاولپور کی سماجی صورت حال سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ ناول میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح انگریزوں کی آمد نے یہاں کے مقامی باشندوں کو ذہنی اور سماجی حوالے سے متاثر کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی مذہبی اور مقتدر قوتوں نے کس طرح انگریزوں کا آلہ کار بن کر مقامی آبادی کی معاشی اور سماجی استحصال کی راہیں ہموار کیں۔

ناول انواسی میں پیش کردہ کردار زیادہ تر ایک ان پڑھ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے افعال اور ان افعال کے پیچھے کارفرما اپنے ذہنی رویوں کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ ان کرداروں کا کسی بھی تہذیب اور تمدنی فیصلے کا انحصار ایک نام نہاد مولوی یا جاگیر دار کے احکامات پر منحصر نظر آتا ہے۔ ان کرداروں کو صرف اپنی زندگی جینے سے سروکار ہے چاہے اس کے لیے اپنی عزت ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ اس کے علاوہ چند ایسے کردار بھی ہیں جو بہت زیادہ انگریزی استحصال کا شکار ہیں اور اپنی ہی زندگی سے متعلق فیصلوں سے عاری نظر آتے ہیں۔ اور کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو اپنے فیصلوں پر کاربند رہتے ہیں اور جان کی پرواہ نہیں کرتے۔

ناول ”انواسی“ مجموعی طور پر یہ ایک جاندار ناول ہے جو ایک خاص دو ارینے میں بہاول پور کے خطے کی پیشکش میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اس عہد میں استعماری قوتوں کے نظام استحصال کی واضح تصویر بھی پیش کرتا ہے۔ اور ناول انواسی کی یہی انفرادیت اسے اپنے عہد کے دوسرے ناولوں سے منفرد کرتی ہے۔

انواسی میں سماجی مسائل، معاشی و اقتصادی، استحصال اور بالخصوص عورت کے جنسی استحصال اور مرد کی ہوس پرستی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پدرسری معاشرے میں عورت کے مقام کا تعین اور اس کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے مذہبی اور تعیناتی سماجی بیانیوں کی پر درد تصویر کشی ناول کا خاصہ ہے۔

مذہبی اور ثقافتی وابستگی کو استعماری قوتوں کے خلاف بغاوت اور ان قوتوں کی بیخ کنی کا حقیقی ذریعہ بھی اس ناول کے اختتام میں دکھایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments