کیا ہم سیکھیں گے؛ 2022 سے سبق؟


کہتے ہیں کہ جب ممالک اور اقوام پر کڑے وقت آتے ہیں، ایسے ہی جیسے ہم پر 2022 کی سیلابی آفت آئی، تو وہ تباہی اور بربادی کے ڈھیر سے نئی امنگ اور قوت کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ ایسی عالیشان مثالیں دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تباہی کے بعد ملنے والے عزم و حوصلے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ جس میں ان کا قومی کردار نمایاں ہوتا ہے، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ وہ تباہی کو تباہی سمجھتے ہوئے اس کے بنیادی اسباب ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے وقت کے پڑھائے ہوئے اسباق سیکھتے ہیں اور آگے بڑھنے اور بہتر مستقبل کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔

لیکن ہم انوکھی قوم و ملک ہیں! پہلی بات یہ ہے کہ ہم نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کو اتنا اہم و تباہ کن نہیں سمجھا! باوجود اس کے کہ ہم معاشی اور سماجی نقصانات کے بارے میں اپنے آپ کو اور دنیا کو بتاتے رہے ہیں کہ ہمارا بالواسطہ اور بلا واسطہ 30 ارب امریکی ڈالر کے برابر نقصان ہوا ہے! لیکن اس کو دل ہی دل میں اتنی بڑی تباہی اور آفت نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھتے ہوتے تو ہماری ترجیحات میں یہ بات سب سے اوپر ہوتی اور ہمارے سارے اہم اقدام اس کے بارے میں ہوتے، لیکن ہم بہت کچھ کرنے کے باوجود بہت تھوڑا کر رہے ہیں۔

اگر ہم تھوڑا نہ کر رہے ہوتے تو کیوں آخری بارش کو بند ہونے کے چار ماہ بعد بھی متاثر ہونے والے تین کروڑ تیس لاکھ میں سے اسی لاکھ سے بھی زیادہ لوگ اپنی جگہ سے دور بے گھر پانی کے گھیرے میں یا دربدر ہیں! خود حکومت کے اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اس تباہی کو بڑی تباہی نہیں سمجھا گیا اور ترجیح اب بھی کئی اور چیزیں ہیں۔

دوسری اہم بات کہ ہماری پوری تاریخ ہمیں کھل کر بتاتی ہے کہ ہم نے (ہم سے میری مراد ملک کو چلانے والوں اور فیصلہ کرنے والوں کی ہے ) کبھی بھی کچھ نہیں سیکھا اور ہم کبھی بھی نہیں سدھرے! لیکن محنت کش اور پر امید پبلک ہر دفعہ اپنے آپ کو تباہی سے باہر نکالنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ ہم بغیر سبق سیکھے، اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر ہر آفت کے بعد آگے بڑھتے ہیں جو حقیقت میں آگے بڑھنا نہیں ہوتا۔ اک بات یاد آ گئی کہ اک تین چار سالہ بچہ بہت زیادہ رو رہا تھا؛ اپنی والدہ اور ساتھ بیٹھے رشتے داروں کے کانوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں۔

اچانک وہ بچہ خاموش ہو گیا اور کسی رشتہ دار نے کہا ”بال سدھر گیا ہے، ایندے واسطے چپ تھی گیا ہے“ ”بچہ سدھر گیا ہے، اس لیے چپ ہو گیا ہے“ بچے نے ہمہ تن جواب دیا ”میں کڈھن نہ سدھرساں! سنگھ اگھ ساں، ساہ چاساں، ولا شروع تھیساں“ ”میں کبھی بھی نہیں سدھروں گا؛ میں ناک صاف کروں گا، سانس لوں گا اور پھر سے شروع ہو جاؤں گا“ ۔

شاید ہمارے فیصلہ ساز لوگوں اور اداروں کا حال بھی اس بچے جیسا ہی ہے۔ اس تباہی اور نقصانات کی وجہ سے کچھ چیزیں کی جائیں گیں، سانسیں بحال کی جائیں گی اور پھر ویسے ہی کام جاری رکھے جائیں گے۔

لیکن نا امید نہیں ہوتے۔ مرکزی حکومت نے اور صوبائی حکومت سندھ نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ دن رات اک کر کے اہم پراجیکٹ منظور کیے ہیں۔ خاص کر کے سندھ کی سیلاب کے بعد کی تعمیر نو کے لیے عالمی بنک سے تقریباً پونے دو ارب ڈالر منظور کروائے ہیں، جن کی مالیت پاکستانی روپوں میں 400 ارب کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ جتنی بڑی تباہی ہوئی ہے اس کو لحاظ سے شاید اتنی بڑی رقم نہ ہو لیکن پھر بھی خطیر رقم ہے اور اگر اس کو اچھی طرح استعمال کیا گیا تو سندھ میں تعمیراتی کاموں سے عام لوگوں کے لیے کہیں بہتر حالات ہو سکتے ہیں۔

دنیا کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ کسی بڑی آفت کا آنا خود اک موقعہ ہوتا ہے کہ قومیں اور ملک اپنی ترقی کی راہیں درست اور مجموعی سمت سیدھی کر لیں۔ اس کو اہم موقعہ جان کر جو تعمیری کمزوریاں ہیں، جن کی وجہ سے لوگوں کی زندگی زیادہ پرخطر ہو گئی ہے، ان کو کم کریں۔ آفت کے نتیجے میں جو بھی عمارتی اور بنیادی ڈھانچہ/انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا ہے، وہ اس بات کی عملی گواہی ہے کہ ایسی کسی بھی آفت کو جھیلنے اور سہنے کی اس سسٹم میں سکت نہیں تھی۔

ان میں کمزوریاں تھیں جن کو دور کرنے کا اس سے بہتر موقعہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی سمجھ لیں کہ اگر روڈ، راستے، اسکول، ہسپتال اور عمارتیں پچھلی بار کی طرح بنائی گئیں تو پھر تباہی شاید اس سے بھی زیادہ آئے۔ اس بات سے اک سیکھنے والا سبق اور راستہ سامنے آتا ہے کہ اب تعمیر نو بہتر اصولوں، بہتر معیار اور بہتر منصوبہ بندی کے نتیجے میں بنانی ہیں اور وہ عناصر کم کرنے ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی سیلاب یا تیز بارش کی صورت میں یہ پورا نظام ٹوٹ جاتا ہے یا بیٹھ جاتا ہے!

یہ جو تعمیر نو ہونی ہے، اس کے ساتھ غربت کو کم کرنے، خاص کر کے عورتوں اور بچیوں کے لیے صحت اور تعلیم کے بہتر مواقع پیدا کرنے، پینے کا صاف پانی اور نکاسیٔ نظام کو بہتر کرنے کے کام ہونے چاہئیں۔ ان سب کو اچھی طرح سرانجام دینے کے لیے گڈ گورننس۔ بہتر طرز حکمرانی۔ انتہائی ضروری ہے۔ مرکزی و صوبائی حکومت سے لے کر مکانی اداروں تک، آپس میں بہتر ربط کی صورت میں کام کرنا ہے۔ سیاسی اور افسر شاہی میں بندر بانٹ ہوئے یہ مکانی ادارے جیسے ہر اک کو بھول سے گئے ہیں۔ ان کا فعال اور باصلاحیت ہونا کسی بھی آفت کی صورت میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

اس سیلابی آفت نے ہمیں کھل کر بتا دیا ہے کہ ہماری کمزوریاں اور کوتاہیاں کہاں کہاں پر ہیں۔ ہم پالیسی، قانون، منصوبہ بندی سے لے کر عمل درآمد تک سب مرحلوں کو ٹٹول سکتے ہیں کہ بہتری کس طرح لائی جا سکتی ہے! اس آفت نے ہماری طرز حکمرانی اور انتظامی خرابیوں کو اجلا کر کے سامنے رکھ دیا ہے اور وہ واضح نظر آتی ہیں ؛ لیکن لازم ہے کہ ہم ان کو دیکھنے کی کوشش کریں۔

پچھلی پون صدی میں ہم نے ہر دفعہ کسی آفت کے بعد یا مارشل لا لگانے جیسی آفت تک، دن بہ دن ملک کو پیچھے دھکیلا ہے۔ کبھی ہم اک معتدل اقتصادی، علمی اور انتظامی ملک ہوا کرتے تھے ؛ بلکہ کہ ہمارا شمار غریب ممالک میں بہتر ملک میں ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ ہر لحاظ سے ہم نیچے کو آتے گئے ہیں۔ اور اب ممالک کی لسٹ میں نیچے کے نمبروں میں پہلے تین سے پانچ نمبر پر ہیں۔ اس کی ایک معنی یہ بھی ہے اس سے زیادہ نیچے نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مرحوم طارق عزیز کی زبان میں جو وہ اپنے شہرہ آفاق پروگرام ”نیلام گھر“ میں کہا کرتے تھے ”دا غلطی گنجائش نشتہ!“ ہم اس بات کو مثبت لے کر سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس لئے میں دہراتا ہوں کہ ہمارے پاس سبق سیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی کوئی چارہ جو ملے گا!

تعمیر نو کے جتنے بھی پراجیکٹ ہیں ان کو بہت جلدی میں کر کے معیار اور مقصدیت کو تہس نہس نہیں کرنا چاہیے۔ کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ کے ساتھ، پروفیشنل حکمت عملی اپناتے ہوئے ترقی اور آفات کے بچاؤ کا آپس میں رچاؤ کرتے ہوئے کام کرنے ہیں۔ یہ بہتری لانے کا بہت بڑا اور شاید آخری موقعہ ہے ؛ اور اگر اس کو بھی ایسے ہی جانے دیا تو سیاسی اور سماجی بہتری کو ترستے رہیں گے۔

اپنے معاشرہ کو آفات کے خلاف مضبوط، باصلاحیت بنانے کے لیے، ان سے نمٹنے اور پھر ان سے باہر آنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس کی شروعات ان 400 ارب کے پراجیکٹس کو شفاف بنا کر، معیار کے اعلیٰ ہدف مقرر کر کے، اپنی ذاتی لالچ کو چھوڑ کر، عوام کی طرف جوابدہ ہو کر کر سکتے ہیں۔ یہ کسی سیاسی لیڈر، حاکم، طاقتور ادارے یا انسان کا پیسا نہیں ؛ غیر مہذب زبان میں کسی کے والد محترم کا پیسہ نہیں۔ یہ عوام کا پیسہ ہے، ان پر ہی قرض ہے یا ان کے ہی ٹیکسوں کا ہے۔ اس لیے ان کی شفافیت کے ساتھ استعمال کے علاوہ اور کوئی راستہ ہونا نہیں چاہیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments