محمود الحسن کی بنائی ہوئی دنیا


جب محمود الحسن صاحب نے محمد کاظم صاحب کو انٹرویو کے لیے فون کیا تو انھوں نے کورا جواب دیا۔ ظاہر ہے وہ محمود صاحب کو تب تک نہیں جانتے تھے کہ وہ کس ہستی کو انکار کر بیٹھے ہیں۔ خیر کچھ عرصے بعد جب اس انکار کا تذکرہ انھوں نے مسعود اشعر صاحب سے کیا تو انھوں نے کہا کہ کیوں نہیں دیں گے انٹرویو۔ یہاں محمود الحسن صاحب کا خیال تھا کہ ”اس وقت تو ہم نے سمجھا کہ شاید مسعود اشعر صاحب اپنی دوستی پہ کچھ زیادہ ہی بھروسا کر کے یہ بات کر رہے ہیں مگر انھوں نے کاظم صاحب سے بات کی اور نہ جانے ان سے کیا کہا کہ وہ انٹرویو پر آمادہ ہو گئے“ ۔ کافی دیر میں اس جملے سے محظوظ ہوتا رہا کہ آخر اشعر صاحب نے کاظم صاحب کو محمود صاحب کے بارے میں کیا کہا ہو گا۔ انھوں نے محمود صاحب کے بارے میں کہا ہو گا ارے بھائی آپ نے کس شخص کو انکار کر دیا محمود دیکھنے میں نوجوان اور بچہ سا لگتا ہے لیکن اردو دنیا کے تمام بڑے نام اس کا دم بھرتے ہیں۔ کیا شمس الرحمان فاروقی، شمیم حنفی، انتظار حسین، محمد سلیم الرحمن، مستنصر حسین تارڑ، احمد مشتاق یہاں تک ہی پہنچے ہوں گے کہ کاظم صاحب نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بات کاٹ کر کہا ہو گا ارے بھئی کیوں شرمندہ کرتے ہو، ایسے نوجوان بھی ہمارے ہاں موجود ہیں، بھیجو اسے، سب سے پہلے تو میں اس سے اپنے انکار پر معذرت کروں گا اور پھر وہ جو کہے گا کروں گا۔ یوں ان کے اس شاندار مضمون ”محمد کاظم :علم کی بات کل کی بات ہوئی“ کی بنیاد پڑی۔

محمود کا تعلق علم و ادب کے ان قارئین سے ہے جو محض کتاب تک خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ آگے بڑھ کر مصنف سے ربط استوار کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں کے ایسے گوشوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جن سے خود مصنف بھی اس سے پہلے باخبر نہیں ہوتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو اتنا نہیں ہوتا۔ اچھا سوال بڑے لکھنے والی کی شخصیت کے بالکل نئے رخ کو ہمارے سامنے لے آتا ہے۔ محمود صاحب کی یہ کرید اسے اپنے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ان انٹرویوز کے ذریعے ہوا جو وہ اپنی صحافتی مجبوری کے تحت کرتے تھے۔ تجسس یہیں سے پروان چڑھا جس نے ان کی علمی شخصیت کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پہلی بار میں نے انہیں محمد سلیم الرحمان کے ساتھ غالباً 2008 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں سہیل احمد خان صاحب کے آفس میں دیکھا اور ان دونوں احباب کے ساتھ اس کی بے تکلفی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مجھے لگا یہ ہم سے عمر میں کافی بڑے ہیں بس لگ چھوٹے رہے ہیں وہ تو بہت بعد میں جب ہمارا ذاتی تعلق قائم ہوا تو پتا چلا کہ جناب ہم سے بھی کوئی سال بھر چھوٹے ہیں۔ یہ حسد کی ایک نئی صورت تھی۔ محمود الحسن اپنے عہد کے ہر ادیب کی محبوب شخصیت ہیں سو ہم تو ان سے اس وجہ سے بھی محبت کرتے ہیں کہ انھوں نے بقول فراق:

آنے والی نسلیں تم پہ فخر کریں گی ہم عصرو
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے

سو جب بھی ہم محمود صاحب کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ سارے بزرگ یاد آ جاتے ہیں جن سے ان کا تعلق ہے یا رہا ہے۔

”گزری ہوئی دنیا سے“ محمود الحسن کی تیسری کتاب ہے۔ ”شرف ہم کلامی :انتظار حسین سے ملاقاتیں اور باتیں“ اور ”لاہور شہر پرکمال“ شائع ہو چکی ہیں۔ دونوں کتابیں اپنے موضوع اور اس کی پیشکش کے لحاظ سے منفرد ہیں کہ بندہ ایک ہی نشست میں پڑھ جاتا ہے۔ پہلی کتاب انتظار صاحب سے ان کی ملاقاتوں، ان سے کی گئی گفتگوؤں، ان کی پسند نا پسند کی کہانی ہے جو محمود نے اپنی شخصیت کو مکمل منہا کر کے بیان کی ہے۔ دوسری میں تین بڑے لاہوریوں کا لاہور سے تعلق اور پھر لاہور چھوڑنے کے بعد وہ ان کا ناسٹیلجیا کیسے بنتا ہے اس کا نوحہ ہے۔ محمود نے نہ صرف لاہور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ انھوں نے اس شہر کو ان بزرگوں کی آنکھ سے بھی دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں جا بجا وہ خفیف اداسی نظر آتی ہے جو خود قاری کی شخصیت میں بھی آ جاتی ہے۔ کرشن چندر، بیدی اور کنھیا لال کپور کی یادداشتوں پر مشتمل اس دستاویز میں لاہور ایک فرد کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے جو دکھی بھی ہوتا ہے اور مسرت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ محمود الحسن صاحب کے قلم کا اعجاز ہے کہ وہ تحقیق کے جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہیں اور پھر کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ قاری کے لیے اس طلسم سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔

”گزری ہوئی دنیا سے“ اپنے مزاج کے لحاظ سے پہلی دونوں کتابوں سے مختلف ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے میرے دھیان میں فوری طور پر ڈاکٹر آفتاب احمد کی بیاد صحبت نازک خیالاں، شمیم حنفی صاحب کی ہم نفسوں کی بزم میں اور ہم سفروں کے درمیاں اور مظفر علی سید کی یادوں کی سرگم آ گئیں۔ ہم عصر ادیبوں کی زندگیوں پر لکھی گئی یہ ایسی دستاویز ہیں کہ کسی ایک پر لکھتے ہوئے دوسرے کا منفرد حوالہ لازمی آ جاتا ہے اور کسی اگلے مضمون میں پہلے کی زندگی کا وہ رخ بیان ہوجاتا ہے جو خود اس پر لکھے گئے خاکے میں ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرح کی محفلوں میں جب شب و روز گزرتے ہیں تو جس طرح گفتگو میں یار دوستوں کا اچھا برا ذکر آتا جاتا ہے ایسے ہی ان مضامین میں بھی آیا ہے۔ محمود کی کتاب ایک حوالے سے ان سے منفرد ہے کہ صرف مشاہدے کی بنا پر بات نہیں کرتے بلکہ ایک متجسس قاری کی طرح پہلے خود کھوج لگاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں ترتیب سازی کا عمل مستقل جاری رہتا ہے۔ کسی ایک عالم کا خط، انٹرویو، مضمون یا زبانی رائے اور پھر مصنف سے براہ راست ملاقاتیں، روا روی میں کی گئی باتوں میں سے اپنے کام کی باتیں نکالنا۔ ان سب راستوں میں سے گزر کر وہ اپنے مضمون کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ عمارت کی بناوٹ اور زیبائش میں تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ماخذ تک غیر محسوس طریقے سے رسائی حاصل کرنا ان کا خاصہ ہے ایک بار وہ اسی مقصد کے لیے کاظم صاحب کے ہاں گئے جو ابھی ابھی ایک مقالہ نگار کے سوالوں کا جواب دے کر فارغ ہوئے تھے۔ موصوف نے ان کا ادبی نقطہ نظر ان کے دو جوابات سے نکال لیا۔ اب وہ مقالہ نگار پتہ نہیں کاظم صاحب کو سمجھنے میں کتنا کامیاب ہوا ہاں محمود صاحب نے ہمارے کام کی باتیں اچک لیں۔

ایک ماہر فلم ہدایتکار کی طرح وہ کیمرے کا زاویہ بدلتے ہیں، منظر کو نئے طریقے سے یوں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر صوفی محمد ضیا الحق اور ڈاکٹر خورشید رضوی اس کی عمدہ مثال ہے۔ خورشید رضوی صاحب کے علمی و ادبی اختصاص سے کون واقف نہیں ہے۔ لیکن محمود صاحب نے ان کی ادبی تربیت اور ارتقا کو جانچنے کا بالکل نیا انداز اپنایا ہے۔ انھوں نے استاد کے ذریعے سے شاگرد کی شخصیت سازی کا جو مرقع کھینچا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ محمود صاحب نے اپنے روایتی مزاج کے مطابق اپنی شخصیت کو بالکل منہا کر دیا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے وہ ایک قدم آگے بڑھ کر خود اس دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ ساہیوال خود اس گھر میں جا پہنچتے ہیں جہاں کبھی صوفی صاحب رہائش پذیر تھے۔ وہ وٹس ایپ کے ذریعے خورشید رضوی صاحب کو نہ صرف اپنی یادوں کا حصہ بناتے ہیں بلکہ ان تصاویر کے ذریعے رضوی صاحب نئے آنے والے مضمون کا مواد بھی اکٹھا کر رہے ہیں۔ اس مضمون میں رضوی صاحب کا بچپن، علمی سفر، یادیں اور مستقبل کے علمی منصوبے کیا کچھ نہیں ہے۔

محمود الحسن کو اپنے عہد کے بڑے لکھنے والوں کے ماضی، ان کی یادوں اور ان کی شخصیات کے ناسٹلجیائی عناصر سے خاص رغبت ہے۔ یہ ایک ایسا کٹھن سفر ہے جس میں خود لکھنے والا بھی زیریں سطح پر اداسی محسوس کرتا ہے۔ نوجوانی میں ہی ان کی دوستی ان چراغوں سے ہو گئی جو آنے والی صبح کے سامنے ٹمٹما رہے تھے۔ ان کا رشتہ ان بزرگوں سے بطور مصنف تو ہے لیکن اس سے زیادہ ان میں اس بچے کی کرید زیادہ ہے جو بوڑھوں سے اس نے ماضی کی کہانیاں سنتا ہے۔ انتظار حسین اور ریوتی سرن کا قصہ ایسا مضمون ہے جو پڑھنے والے مسلسل اداسی کی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ یہ درحقیقت دو دوستوں کی کہانی ہے جدائی جن کا مقدر بن جاتی ہے اور تمام عمر وہ ہجر کی ہلکی آنچ پر سلگتے رہتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دو معروف شخصیات کی دوری کا نوحہ ہے لیکن میرے ذہن میں وہ لاکھوں ہندوستانی آتے رہے تقسیم نے جن کے وجودوں کو تقسیم کر دیا۔

تقسیم کا ذکر مہاجرت سے جڑا ہوا ہے۔ محمودالحسن کے کئی بزرگ دوست آگ کے اس دریا کو پار کر کے آئے ہیں۔ بیشتر کی آپسی دوستی کی ایک بڑی وجہ اس تجربے کا اشتراک بھی ہے۔ کوئی بھی غیر مہاجر اس کرب کو محسوس نہیں کر سکتا۔ ناصر کاظمی بھی جب ہجرت کے لاہور آئے تو انہیں بھی ہزاروں مہاجرین کی طرح انہیں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا جو ہر مہاجر کا مقدر ہوتے ہیں۔ ”پرانی انارکلی میں ناصر کاظمی کا گھر“ ناصر کاظمی کا ڈائری، انتظار حسین اور اے حمید کا اس گھر کا آنکھوں دیکھا حال اور پھر صاحب مضمون کا ان کے بیٹے ممتاز شاعر باصر سلطان کاظمی کے ساتھ اس گھر کا دورہ اور سب سے بڑھ کے باصر کاظمی کی اس گھر سے وابستہ یادیں۔ یادوں کا اک دائرہ ہے جو ناصر کاظمی سے شروع ہو کر محمود الحسن پر ختم ہوتا ہے۔ جیسے وہ مولوی ضیا الحق کے گھر کو اپنی یادوں میں محفوظ کرتے ہیں ایسے ہی ناصر کاظمی کا گھر خود محمود الحسن کی یادوں کے ذخیرے کا حصہ بن جاتا ہے۔

محمود اپنے محبوب دوستوں کے شہر، مکان اور جن گلی کوچوں میں وہ پروان چڑھے، وہیں کہیں جیتا ہے۔ وہ ان کی باتوں سے، ان کی یادوں سے، ان کے لکھے سے، ان کے مکانوں سے اور یہاں تک کہ ان کی سوچوں کے خفیہ کونوں کھدروں سے یادیں ڈھونڈ لاتا ہے۔ امرتسر ان کے محبوب شاعر دوست احمد مشتاق کی جنم بھومی ہے۔ اے حمید کی پہلی محبت بھی امرتسر ہی ہے۔ ”اے حمید کی امرتسر کی یادیں“ خود اے حمید کی آپ بیتی امرتسر کی یادیں سے ماخوذ چند ایک واقعات پر مبنی باتیں ہیں کہ کیسے وہ وہاں کے موسموں اور باغوں کو ساری عمر لاہور کے موسموں پر ترجیح دیتے رہے۔

اس مجموعے میں سے جس مضمون نے مجھے خاص طور پر حیران کیا وہ ”الحمرا کے افسانے“ ہے۔ اس کی اک ذاتی وجہ بھی ہے کہ کئی بار یہ کتاب میری نظر سے گزری لیکن پتہ نہیں کیوں میں نے اسے پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس مضمون میں جس طرح الحمرا کے افسانوں کا مختلف ادیبوں نے ذکر کیا ہے اور جتنی تحقیق سے صاحب مضمون نے انہیں اکٹھا کیا ہے۔ آرا کا لطف اپنی جگہ خود میرا تجسس اتنا پروان چڑھا کہ فوری طور پر اس کتاب کی تلاش میں لگ گیا ہوں۔ ویسے تو میرا تعارف کئی کتابوں سے محمود صاحب کے ذریعے سے ہوا ہے لیکن اس کا تذکرہ سرفہرست رہے گا۔

ان مضامین کے علاوہ منٹو کا صفیہ سے رشتہ، منیر نیازی کے کالموں میں ان کے دوستوں کے دلچسپ اور انکشافی قسم کے خیالات اور محمد سلیم الرحمان صاحب کے لاہور میں ادبی سفر اور عروج کی داستان کا قصہ پھر ”کنج گلی کی مکین“ میں الطاف فاطمہ جیسے ادیبوں کی ناقدری کا نوحہ اور اردو شاہکار تراجم میں سے ایک وار اینڈ پیس کے ترجمے کی مشقت اور اس کی اشاعت کی راہ میں آنے والے رکاوٹ کے قصے کیا کچھ نہیں ہے اس مختصر سی کتاب میں۔

ایک اچھے قاری کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ مصنف سے زیادہ متن سے سروکار رکھتا ہے۔ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ آپ کو مصنف کی شخصیت سے کچھ مسائل ہوں لیکن متن مصنف سے جدا اک زندہ نامیہ ہوتا ہے۔ ہر پڑھنے والے کی ذاتی پسند نا پسند اپنی جگہ لیکن جس متن میں نیا پن ہوتا ہے وہ آپ کو اپنی طرف متوجہ ضرور کرتا ہے۔ محمود الحسن صاحب کا لکھا ہوا مجھے اس وجہ سے اچھا لگتا ہے کہ وہ ان موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ کوئی گہرا نظریہ یا تنقیدی تجزیے نہیں ہیں بلکہ ان کے پاس سنانے کے لیے کہانیاں ہیں جو ادب کے ہر قاری کو مرغوب ہوتی ہیں۔ انھوں نے مضامین کی صورت دوستوں کی محفلیں آباد کی ہیں۔ نئے، پرانے دوستوں کو کئی محفلوں میں اکٹھا کرتے ہیں۔ کسی کا ذکر اس مضمون میں ہو رہا ہے تو مختلف حوالے کسی دوسرے مضمون کہیں اور تذکرہ چل رہا ہے۔ محمود اک کونے میں بیٹھے روداد قلم کر رہے ہیں، نوٹس بنا رہے ہیں اور ہمارے جیسے قارئین کے لیے سنگریزے اکٹھے کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).