بیوقوف بھیڑیا اور چالا ک لومڑی


کسی زمانے کی بات ہے کہ ایک لومڑی اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک آبشار کے کنارے جھونپڑی میں رہا کرتی تھی۔ وہیں قریب اس کا دوست بھیڑیا بھی رہتا تھا۔ ایک دن اس لومڑی کا گزر بھیڑیے کے گھر کی طرف سے ہوا تو دیکھا کہ راج مزدور اور بڑھئی کام پر لگے ہوئے ہیں اور بھیڑیے کا گھر خوبصورت ہو گیا ہے ۔ لومڑی گھر کے سامنے رک کر اس کی تعریف کرنے لگی۔ بھیڑیے نے لومڑی کو اندر بلا لیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ اس گھر میں ایک ڈرائنگ روم، ایک بیڈ روم اور ایک کچن تھا۔ کچن میں اچھے اچھے کھانے اور پھلوں سے بھرا ہوا ایک نعمت خانہ بھی تھا۔

لومڑی نے بھیڑیے سے کہا ”سنو میرے دوست، تمہاری نعمت خانے میں یوں تو اللہ کے فضل و کرم سے سب کچھ موجود ہے لیکن شہد سے بھرے مرتبان کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے“۔

گرمیوں کا موسم تھا اور شہد بیچنے والے سڑکوں اور گلیوں میں آواز لگاتے پھر رہے تھے۔

چکھ کر دیکھو، کہتی مگس ہے

میٹھا شہد ہے، پھوس کا رس ہے

بھیڑے نے اسی وقت شہد خرید کر ایک مرتبان میں بھر لیا۔ پھر اس نے لومڑی سے وعدہ کیا کہ جب مکان میں کام پورا ہو جائے گا تو وہ اس کی دعوت کرے گا اور وہ دونوں مل کر شہد کھائیں گے۔ ادھر کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ لومڑی کے منہ میں شہد کا خیال آتے ہی پانی آجاتا تھا اور اپنے پنجے چسر چسر چوسنے لگتی تھی۔ وہ دن رات ترکیبیں سوچتی کہ کس طرح شہد پر ہاتھ صاف کیا جائے۔

ایک دن لومڑی نے بھیڑیے سے کہا۔ ”بھائی بھیڑیے، مجھے اپنے ایک دوست کے بچے کے مونڈن کی تقریب میں شرکت کے لیے جانا ہے۔ میں اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی، کیا تم چند گھنٹوں کے لیے میرے گھر آکر ان کے ساتھ رہ سکتے ہو!“۔

بھیڑیا راضی ہو گیا اور بتائے ہوئے وقت پر لومڑی کے گھر پہنچ گیا۔ لومڑی نے گھر سے نکل کر سیدھے بھیڑیے کے گھر کی راہ لی اور نعمت خانے سے مرتبان نکال کر بہت سا شہد چٹ کر گئی۔ پھر اس نے نعمت خانہ سے سیب، بادام، انجیر وغیرہ اچھی اچھی چیزیں نکالیں اور باہر میدان میں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر سب ہڑپ کر گئی۔

جب شام کو لومڑی گھر پہنچی تو بھیڑیے نے پوچھا ۔ ”بی لومڑی، بھلا بتاﺅ تو مونڈن کی تقریب کیسی رہی؟۔ لومڑی بولی ”واہ صاحب واہ! مزہ ہی تو آگیا۔“

بھیڑیے نے پھر سوال کیا ”اور بچے کا کیا نام رکھا گیا؟“

لومڑی بی بولی ”پہلوی“۔ بھیڑیے نے نام سن کر حیرت سے کہا ’پہلوی؟‘ یہ کیسا عجیب سا نام ہے؟۔

لومڑی نے بات بناتے ہوئے کہا ”جنتری میں تو یہ نام نہیں ملا مگر یہ ایک ولی کا نام ہے جس کے ماننے والے ذرا کم ہی ہیں“۔

بھیڑیے نے پھر پوچھا۔ اور یہ تو بتاﺅ کہ وہاں مٹھائیوں میں کیا کیا تھا؟

لومڑی بولی۔ ’مٹھائی نام کی تو وہاں کوئی چیز بھی نہیں تھی۔“

بھیڑیا چڑ گیا۔ ”واہ صاحب واہ! یہ کیا تقریب ہوئی جہاں مٹھائی ہی نہیں تھی۔ ایسا تو میں نے پہلی مرتبہ ہی سنا ہے۔ میں تو دن بھر کرائے کی نرس کی طرح تمہارے بچوں کو طرف اس لالچ میں جھیلتا رہا کہ تم کچھ مٹھائی لے کر آﺅ گی۔ مگر تم تو بالکل خالی ہاتھ آئیں۔ واہ بھائی واہ۔ او روہ بڑبڑاتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔

مرتبان ابھی پوری طرح خالی نہیں ہوا تھا اور لومڑی کی رال بچے ہوئے شہد پر ٹپکے جا رہی تھی۔ اس نے پھر ایک تقریب کا بہانا بنایا اور بھیڑیے کو مٹھائی کا لالچ دے کر اپنے بچوں کے پاس چھوڑ دیا۔ شام کو جب لومڑی شہد چاٹ کر گھر واپس آئی تو بھیڑے نے پھر وہی سوال کیا کہ ’بچے کا نام کیا ہے‘۔

لومڑی بولی ۔ ’وسطی‘۔بھیڑیے نے تعجب سے کہا۔ ارے ایسا نام تو میں نے آج تک نہیں سنا۔

لومڑی نے جواب دیا۔ یہ عربوں کے ایک بزرگ کا نام ہے۔ ادھر ایسے ہی نام ہوتے ہیں۔

بھیڑیا جواب سن کر خاموش ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر مٹھائی کا سوال کیا۔

لومڑی نے کہا۔ بھئی وہاں طرح طرح کی مٹھائیاں تھیں۔ میں تمہارے لیے ڈھیر ساری مٹھائی لائی تھی۔ راستے میں ذرا سی دیر کے لیے زیتون کے ایک درخت کے سائے میں اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئی تھی۔ میری آنکھ لگ گئی اور کم بخت چڑیوں نے ساری مٹھائی کھا لی۔

بھیڑیا اس شام بھی پیر پٹختا اور چڑیوں کو کوستا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔

کچھ دنوں کے بعد لومڑی پھر بھیڑے کے پاس پہنچی اور وہی پرانا بہانہ بنا کر بھیڑے کو اپنے بچوں کے پاس رکنے کو کہا۔

بھیڑیے نے جھنجھلا کر کہا۔ نہیں صاحب۔ میں ہرگز نہیں آﺅں گا۔ جب تب میں نانی ماں کی طرح بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ یوں بھی اب میری عمر ایسی نہیں ہے کہ بچوں سے الجھوں اور تم کون سی ٹوکری بھر بھر کر مٹھائیاں لے کر آتی ہو جو میں اس مصیبت میں پڑوں۔

لومڑی نے بڑی خوشامد کی اور اس مرتبہ مٹھائی لانے کا پکا وعدہ کیا۔ اس نے کسی طرح بھیڑے کو راضی کر ہی لیا۔

وہ ایک مرتبہ پھر لومڑی کے گھر گیا تاکہ اس کی غیرحاضری میں اس کے بچوں کے ساتھ رہے۔

جب مرتبان کا سارا شہد چٹ کر کے لومڑی شام کو گھر واپس آئی تو بھیڑے نے بچے کا نام پوچھا۔

لومڑی نے بتایا کہ بچے کا نام خاتمی رکھا گیا ہے۔ بھیڑیا بولا۔ واہ بھائی واہ۔ کیا عجیب نام ہے۔ میں تو ایسا نام کبھی نہیں سنا۔

لومڑی بولی۔ جس ولی کے نام پر بچے کا نام رکھا گیا ہے اسے خود بھی اپنا نام پسند نہیں تھا۔

اور میرے حصے کی مٹھائی کہاں ہے۔ بھیڑیے نے لومڑی سے پوچھا۔

لومڑی نے سر ہلا کر جواب دیا ، کیا بتاﺅں اس بار جانے کیسے حلوائی کی انگیٹھی الٹ گئی اور ساری کی ساری مٹھائی جل گئی۔

بھیڑیا غصے سے جھلا کر بولا۔ خدا کرے کہ مونڈن والے تینوں بچے جب جب مٹھائی کھائیں وہ مٹھائی ان کے حلق میں پھنس جائے۔ اور وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔

لومڑی نے کچھ دن صبر سے کام لیا۔ پھر ایک روز بھیڑیے سے بولی۔ بھائی تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے۔ تمہارا گھر تو اب پورا ہو گیا ہے۔ اپنا وعدہ پورا کرو اور میری دعوت کر ڈالو۔

بھیڑیا اب تک غصے میں بھرا بیٹھا تھا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔ دعوت بڑی پرتکلف تھی۔ آخر میں جب منہ میٹھا کرنے کا وقت آیا تو بھیڑیا نعمت خانے سے شہد کا مرتبان نکال لایا۔ مرتبان کو ہاتھ میں لے کر وہ بولا ”ارے یہ مرتبان تو بہت ہلکا ہے“۔

پھراس نے مرتبان کا ڈھکنا کھول کر اس میں جھانکا تو اسے خالی پایا۔ وہ حیرت سے کہنے لگا۔ یہ شہد آخر گیا کہاں۔

لومڑی جھٹ سے بول پڑی۔ جاتا کہاں۔ ارے تم خود سارا شہد چٹ کر گئے اور اب پوچھتے ہو کہ کہاں گیا۔ تم تو چاہتے ہی نہیں تھے کہ مجھے شہد کھانے کو ملے۔

بھیڑے نے جواب دیا لیکن میں نے تو نام کو بھی شہد نہیں چکھا۔

لومڑی نے سر ہلا کر کہا۔ دوست تمہاری یادداشت اچھی نہیں معلوم ہوتی۔ تم شہد کھا کر بھول گئے ہو۔

بھیڑیا اس کی طرف غور سے دیکھ کر بولا۔ اچھا تو میری سمجھ میں اب آیا تم نے مجھے دھوکا دے کر چوری کی ہے وہ تینوں بچے پہلوی، وسطی اور خاتمی دراصل میرے شہد کی ابتدا، درمیان اور خاتمہ تھا۔

لومڑی نے بڑی بے شرمی سے کہا۔ دیکھو دوست۔ ایک تو تم نے خود ہی تمام شہد کھا لیا تاکہ مجھے نہ مل سکے اور پھر میرے اوپر جھوٹا الزام لگارہے ہو۔ لالچی کہیں کے۔ کیا تم کو اپنی اس حرکت پر شرم نہیں آتی۔

بھیڑے نے غصے سے جواب دیا۔ میں نے ہرگز شہد نہیں کھایا جھوٹے الزام لگانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ چور تم خود ہو۔ میں ابھی جا کر شیر خاں صاحب سے تمہاری شکایت کرتا ہوں۔

لومڑی نے بات بگڑتی دیکھی تو چالاکی سے بولی۔ ایک منٹ صبر کرو بھائی۔ اتنی جلدی مت کرو۔ شاید تم نے نہیں سنا کہ عدالت میں جانا تو بہت آسان ہے لیکن اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ میرے خیال میں تم کو اس بات کا علم نہیں کہ اگر کوئی شہدکھا کر دھوپ میں لیٹ کر سو جائے تو اس کو شہد کا ہی پسینہ آتا ہے۔

بیوقوف بھیڑیا اچنبھے سے بولا ۔نہیں یہ تو مجھے واقعی نہیں معلوم تھا۔

لومڑی نے کہا۔ تعجب ہے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں۔ چلو ہم دونوں یہیں دھوپ میں سو جاتے ہیں۔ جاگنے پر جس کا پیٹ شہد سے لتھڑا ہوا ہو گا سمجھ لو کہ اسی نے شہد کھایا ہے۔

بھیڑیا اس بات پر راضی ہو گیا اور دونوں سونے کے لیے دھوپ میں لیٹ گئے لیکن لومڑی جاگتی رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ بھیڑیے کی نیند پکی ہو گئی ہے اور اس کے خراٹے گونجنے لگے ہیںتو وہ چپکے سے اٹھی، مرتبان کے تلے سے پنجہ ڈال کر بچا کھچا شہید نکالا اور سوئے ہوئے بھیڑے کے پیٹ پر مل دیا۔ پھر وہ اپنا پنجہ چاٹ کر وہیں پر سو گئی۔

جب بھیڑے کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اس کا پیٹ چپک رہا ہے۔ وہ اچھل پڑا اور حیرت سے بولا۔ ارے باپ رے باپ۔مجھے تو شہد کا پسینہ آرہا ہے۔ ہو نہ ہو میں نے ہی شہد کا مرتبان خالی کیا ہو گا۔ لیکن بھئی، میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ مجھے معاف کر دو بی بی۔ آﺅ ہم دونوں پچھلی باتوں کو بھول جائیں اور پھر سے اچھے دوست بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments