پاکستان: صحافت کے لئے خطرناک ملک


ہم 2022 ع کو الوداع کر کے نئے سال 2023 میں داخل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال بھی 2021 ع کی طرح صحافیوں کے لئے مشکل ترین سال ثابت ہوا۔ پاکستان با الخصوص سندھ سمیت پوری دنیا میں صحافیوں کو قتل کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جیلوں میں قید کیا گیا، ہراساں کر کے دھمکایا گیا، مگر طاقتور سے طاقتور ترین طاقتوں کے آگے صحافی نہ جھکے نہ بکے اور نہ ہی قلم کیمرا کو بند رکھا۔ پاکستان ہو یا ایران، افغانستان ہو یا بھارت، یوکرین ہو یا امریکا، اسرائیل ہو یا فلسطین یا کشمیر، ہر جگہ صحافیوں کے لئے کسی مقتل گاہ سے کم نہیں ہے۔

نیا سال شروع ہوتے ہی سب مبارکباد دینے لگ جاتے ہیں، مگر صحافیوں کو کوئی نہی جو یہ کہے کہ یہ سال 2023 ع آزاد صحافت کے لئے امید کی کرن ثابت ہو گا۔ ہم خود صحافی ہیں اور دوسرے دوستوں کو بھی دیکھتے ہیں کہ کتنا بھی مشکل وقت ہو، حادثے ہوں یا کوئی اور دہشت گردی کا واقعہ ہو، کسی کے ساتھ ظلم ہو یا کسی کے ساتھ نا انصافی ہو، صحافی سب کی مدد کے لئے جاتا ہے اور جب صحافیوں کی آزادی کا مسئلہ ہو یا کسی صحافی کے قتل، قید، مقدمہ سمیت تشدد کا واقعہ ہو تو وہ صحافی اس معاشرے میں اکیلے اپنی حقوق جنگ لڑتے ہیں اور کوئی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے قریب آ کر پوچھنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ کیوں احتجاج کر رہے ہو!

بہرحال دنیا کے نقشے میں جتنے بھی ممالک ہیں ان میں پاکستان کا شمار بھی ان خطرناک ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر سب سے زیادہ صحافیوں کو قتل، تشدد، مقدمہ یا ہراساں کر کے جیلوں میں قید کرنے کے واقعات عام ہوتے ہیں۔ اور پھر پاکستان میں سندھ و بدنصیب صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ صحافیوں کو دوسرے صوبوں کے نسبتاً قتل کیا گیا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے یا مقدمات درج کر کے ہراساں کیا گیا ہے اور بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی سے سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ بل پاس کرنے کے باوجود بھی صحافیوں کے ساتھ مقدمات، جیلوں میں قید، ہراساں‍ کرنے کے واقعات میں کمی نہی آئی ہے۔

کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف سمیت 6 صحافیوں کو ملک میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جبکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں 65 صحافیوں قتل کیا گیا ہے۔ سی پی جے کے مطابق سال 2022 ع گزشتہ کئی سالوں میں سب سے مشکل سال تھا۔ 2023 کا سال بھی صحافیوں کے لئے مشکل اور چیلنجنگ سال ہو گا۔ سی پی جے کی جانب سے پاکستان کے سوا 49 ممالک کے 520 سے زائد صحافیوں کو مالی اور دیگر امداد فراہم کی گئی۔ جبکہ ترکی، ایتھوپیا، روانڈا سمیت مختلف ممالک میں جیلوں میں قید صحافیوں کی رہائی ممکن بنائی گئی ہے۔

2018 ع کے بعد یوکرین میں جاری جنگ کے ساتھ ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور موسمیاتی خبریں پہنچانا مشکل کام بن گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب 2022 ع میں پاکستان میں 6 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا، جن میں ایک جرنلسٹ ارشد شریف تھا جسے کینیا پولیس نے شک کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا۔ پی پی ایف کے موجب پاکستان میں مزید پانچ صحافیوں حسنین شاہ، ضیاء الرحمن فاروقی، افتخار احمد، محمد یونس کو قتل کر دیا گیا جبکہ ایک صحافی خاتون صدف نعیم کو عمران خان کے آزادی مارچ میں کنٹینر نے کچل دیا تھا شامل ہیں۔

فریڈم نیٹ ورک کے مطابق پاکستان میں 2012 سے 2022 کے درمیان ہونے والے صحافیوں کے قتل کے 96 فیصد واقعات میں ملزمان کو کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ سال 2021 میں دنیا بھر میں 55 صحافی قتل ہوئے، اور سال 2022 ع میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 65 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ گزشتہ سال کے نسبت 10 مزید صحافیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ 2012 سے 2022 کے درمیان گزشتہ 10 سالوں میں 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ لیکن ان 53 کیسز میں سے صرف 2 کے مجرموں کو سزا سنائی گئی۔

پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کر دیے گئے۔ سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی طور پر قانون سازی کے باوجود بھی صحافی غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 10 سالوں میں 53 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور سے سب سے زیادہ صحافی سندھ میں قتل ہوئے۔ جس میں 16 یا مجموعی تعداد میں سے 30 فیصد صحافیوں کو نشانہ بنایا گی۔ پنجاب میں 14 یا مجموعی تعداد کے 26 فیصد میڈیا پرسنز کو ہدف بنایا گیا۔ 53 میں سے 15 صحافیوں کو نامعلوم ملزمان کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان میں 5 برس کے دوران 33 صحافی قتل کر دیے گئے۔ نشانہ بنائے گئے تمام صحافیوں میں سے 10 فیصد سے بھی کم نے اپنے قتل کرنے سے قبل جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہونے سے متعلق اپنے میڈیا اداروں، پریس کلبز، یونین یا مقامی حکام کو آگاہ کیا۔ پاکستان میں صحافیوں کے قتل میں ملوث 96 فیصد ملزمان کو سزا نہیں دی گئی۔

کچھ ماہ قبل سینیئر صحافی اینکرپرسن حامد میر صاحب بارشوں کی کوریج کے لئے سکھر آئے ہوئے تھے تو ایک رات جیو نیوز کے رپورٹر یاسر فاروقی کی جانب سے دیے گئے ڈنر پر ان سے سکھر کے کچھ صحافیوں کی ملاقات ہوئی۔ مختصر ڈنر پروگرام تقریباً ایک گھنٹہ سے طویل ہو کر کچہری میں تبدیل ہو گیا۔ حامد میر صاحب نے نوشہرو فیروز کاوش کے ٹی این نیوز کے رپورٹر عزیر میمن اور صالح پٹ کے مقتول صحافی اجئے کمار لالوانی کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے بارے میں پوچھا۔

بات اسلام آباد، لاہور کے صحافیوں سے ہوتی ہوئی سندھ کے صحافیوں تک پہنچ گئی۔ حامد میر صاحب میں نے پوچھا کہ آپ سمیت ملک گیر صحافتی جماعتیں عمران خان کی حکومت میں لانگ مارچ کرنے جا رہی تھی۔ بڑے بڑے پروگرام سیمینار ہو رہے تھے۔ جیسے ہی عمران خان کی حکومت تبدیل ہو کر پی ڈی ایم کی جماعتیں اقتدار میں آ گئی ایک دم ساری تحریک، لانگ مارچ اور دیگر پروگرام بھی ملتوی ہو گئے، کیا سارے معطل صحافی بحال ہو گئے، جن ورکنگ جرنلسٹس کو تنخواہیں نہی مل رہی تھی وہ ملنا شروع ہو گئی، جو پابندیاں عائد تھی وہ ختم ہو گئی؟

میں نے حجت میں کہا کہ میر صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ نواز شریف یا آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری یا پیپلز پارٹی صحافی دوست خیال کے ہیں؟ سب سے زیادہ مقدمات تو سندھ میں صحافیوں کے خلاف درج ہوئے ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری سے میری دو تین مرتبہ سندھ کے صحافیوں پر مقدمات اور قتل پر بات ہوئی ہے کہ سندھ میں صحافیوں کو بہت تنگ کیا جا رہا ہے۔ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور اے ٹی سی بغاوت جیسے مقدمات بنائے جا رہے ہیں ایسا کیوں ہے؟

تو زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ سندھ میں جن صحافیوں کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے وہ صحافی نہی بلیک میلر، چیٹر ہیں اور بلاوجہ مخالفت کرتے ہیں۔ میں نے کہا وہ صحیح کہ رہے ہیں کیونکہ جو ان کے ہیں وہ تو مزے میں ہیں اور جو لکھتے ہیں بولتے ہیں وہ ان کے لئے چیٹر ہیں تب ہی تو عزیز میمن اور اجئے لالوانی قتل کے نشانات حکمران جماعت /پیپلز پارٹی تک جاتے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ مجھے کسی سندھ کے صحافی نے کہا کہ اجئے لالوانی صحافی نہی تھا بلکہ اس کا قتل بھی صحافی کی وجہ سے نہی ہوا تھا اس کا کوئی ذاتی معاملہ تھا۔

میں نے کہا میر صاحب وہ صحافی تھا اور قتل کے پیچھے بھی وجہ صحافت تھی۔ تو حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں صحافیوں کے لئے دھرتی تب سے تنگ ہوئی ہے جب سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے مطلب گزشتہ 15 سالوں سے۔ اور گزشتہ 10 سالوں سے سندھ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں صحافیوں کے لئے خطرناک صوبہ بن گیا ہے جہاں ملک میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں 30 فیصد صحافیوں کو گزشتہ 10 سالوں میں قتل کیا گیا ہے اور مقدمات بنا کر جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔

دعا ہے کہ پاکستان بالخصوص سندھ میں صحافیوں کے لئے نیا سال بہتر ثابت ہو۔ صحافیوں کے لئے بنایا گیا پروٹیکشن بل پر عملدرآمد ہو اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ جو صحافی قتل ہوئے ہیں ان کے مقدمات جلد از جلد چلائے جائیں اور انصاف ممکن ہو سکے۔ امید ہے کہ جب تک دنیا کے نقشے میں ظلم، جبر، بربریت، نا انصافی ہوگی صحافی شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جان کی پرواہ کے بغیر قلم اور کیمرے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں اور دنیا میں مظلوموں کا آواز پہنچائیں گے۔ ایک دن شہید صحافیوں کے خون سے دنیا میں امن قائم ہو گا اور ظلم جبر بربریت نا انصافی کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments