بیتال پچیسی کا فن


داستان ”بیتال پچیسی“ مظہر علی خاں ولا کی تالیف ہے۔ مظہر علی خاں ولا فورٹ ولیم کالج کے لکھنے والوں میں ایک نمایاں حیثیت کے حامل ہیں جن کا مرتبہ فورٹ ولیم کالج کے دوسرے لکھنے والے ”میر امن دہلوی، حیدر بخش حیدری، مرزا علی لطف، مرزا کاظم علی جوان، میر شیر علی افسوس“ سے کسی طرح کم نہیں۔ بہترین نثر نگار اور اعلی پائے کے شاعر ہونے کے باوجود ان کی کتابیں شائع نہیں ہو پائیں اسی وجہ سے مظہر علی خاں کو اردو ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حق دار ہیں۔

مظہر علی خاں کے حالات کہیں بھی تفصیل سے نہیں ملتے، شیفتہ اور بینی نرائن جہاں کے تذکروں میں ولا کے کچھ حالات کے متعلق پتہ چلتا ہے

”ان کا نام مرزا لطف علی تھا لیکن مظہر علی خاں کے نام سے مشہور ہیں“

ان کے والد سلیمان علی خاں و داد عرف مرزا محمد زمان فارسی کے شاعر تھے۔ دادا کا نام محمد حسین اور خطاب علی قلی خان تھا۔ دہلی کے شریف خاندان میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ولا نے عربی، فارسی، سنسکرت اور ہندی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ ولا نے ایک عرصہ فورٹ ولیم کالج کے ساتھ گزارا اس میں بہترین تالیف و تصنیف کا کام کیا ان کی مشہور تصانیف میں ”بیتال پچیسی، دیوان ولا، مادھونل اور کام کندلا، ہفت گلشن، تاریخ شیر شاہی، تاریخ جہانگیر شاہی، پند نامہ، لطائف و ظرائف، اتالیق ہندی ہیں۔

بیتال پچیسی ولا کی تالیفات میں سب سے مشہور کتاب ہے اس کا پہلا ایڈیشن فورٹ ولیم کالج سے ہندی رسم الخط میں چھپا۔ اس کی شہرت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ ہندوستان کی قدیم کہانیوں میں سے ہے اور قدیم سنسکرت اور قدیم ہند کے تمدن، اخلاق، معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ ڈاکٹر گلکرسٹ کے کہنے پر 1803 میں مظہر علی خاں ولا نے اسے برج بھاشا سے اردو میں ترجمہ کیا۔

داستان بیتال پچیسی کا زمانہ مہاراجہ بکرما جیت کا عہد جس سے یہ کہانیاں متعلق ہیں 375 عیسوی سے 413 عیسوی تک بیان کیا جاتا ہے۔ اس زمانے سے محمد شاہ کے عہد حکومت اور پھر فورٹ ولیم کالج تک کا زمانہ ان کہانیوں کو اپنے اصل سے کم و بیش پونے چودہ سو سال کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچانا ہے۔

بیتال پچیسی کی کہانیوں کا مکاں ہندوستان اور اس کے مختلف علاقے ہیں کیوں کہ ان پچیس کہانیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بھرپور عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔

طوالت کے اعتبار سے بیتال پچیسی کی کہانیاں داستانوں کی نسبت افسانچوں کے زیادہ قریب ہیں۔ لیکن مافوق الفطرت عناصر اور دیگر لوازمات کی بنیاد پر اسے داستان کہا جا سکتا ہے۔ بیتال پچیسی کی کہانیوں میں مافوق الفطرت عناصر بھی پائے جاتے ہیں مثلاً:

”بکرم ایک چور کے تعاقب میں ایک کنویں کی راہ سے پاتال پہنچ جاتا ہے“

”کئی جگہوں پر مندر کی دیوی کا مجسمہ کسی بات پر خوش ہو کر بول اٹھتا ہے۔ مرے ہوؤں کو امرت چھڑک کر دوبارہ زندہ کر لیا جاتا ہے“

اس داستان کی ہر کہانی میں کہی نہ کہی کوئی فوق الفطرتی عنصر ضرور پایا جاتا ہے کسی جگہ منتر پڑھ کر مردے کو زندہ کر لیا جاتا ہے تو کئی راجا ایک جگہ سے دوسری جگہ جادوئی طاقت سے چلا جاتا ہے۔

بیتال پچیسی کا مرکزی کردار بیتال (بھوت) ہے۔ اس ایک ہی کردار کی زبان سے ادا ہونے والی یہ کہانیاں بیان کی وحدت سے ہم آہنگ ہیں۔ وقت کا احساس کہ ایک ہی رات میں راجا کا بیتال کو کاندھے پر اٹھا کر یہ سفر طے کرنا اور بیتال کا راجا کی آواز سن کر بار بار واپس درخت پر جانا اور راجا کو پھر اسے جا کر اتارنا ہے۔ بیتال کا کردار ان کہانیوں کے اسلوب کو اور بھی گمبھیر اور پرپیچ بنا دیتا ہے۔ مرکزی کردار بیتال کے علاوہ ”راجے، مہاراجے، جادوگر، جوتشی، وزیر زادے، اور بھوت پریت ضمنی کردار ہیں۔

سراپا نگاری اور منظر نگاری میں ولا کو کمال حاصل ہے ایسی فنکاری سے سمندر کے کنارے درخت کا نقشہ کھنچتا ہے کہ قاری کو منظر آنکھوں کے سامنے معلوم ہوتا ہے۔

داستانوں میں کوئی نہ کوئی اخلاقی مقصد ضرور ہوتا ہے اور بیتال پچیسی کی تمام کہانیوں میں اخلاقی درس یا نصیحت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس داستان کی مرکزی کہانی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ راز کی باتوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ اگر گھر کے حالات خواہ وہ اچھے ہوں یا برے دوسروں پر ظاہر کر دیے جائیں تو یہ دوسروں کو اپنے گھر کے متعلق رائے دینے کے لیے موقع دینے والی بات ہوتی ہے مطلب یہ کہ راز کی بات کو راز ہی رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments