2022 ء: پاکستانی باؤلنگ اٹیک کا بلیک ائر۔


2022 ء کا سال پاکستان کرکٹ کے حوالے سے کئی یادگار اور کچھ تلخ یادیں لیے رخصت ہو چکا ہے۔ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی شاندار رہی جبکہ ٹیسٹ میچوں میں شاہنوں کی پرفارمنس کافی مایوس کن ثابت ہوئی۔ مجموعی طور پر گزشتہ سال پاکستان نے نو ٹیسٹ میچ کھیلے۔ جن میں تین میچ ڈرا ہوئے، ایک پاکستان نے جیتا جبکہ پانچ میچوں میں شاہینوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جس میں حالیہ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں وائٹ واش بھی شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان نو میچوں میں سے سات پاکستان نے اپنی سرزمین پر کھیلے جبکہ دو میچ گال، سری لنکا میں کھیلے گئے۔ واحد فتح بھی سری لنکا کے خلاف گال کے مقام پر حاصل ہوئی تھی۔ یعنی ہوم سیریز میں شائقین کرکٹ اپنی ٹیم کی فتح دیکھنے کو بے تاب رہے مگر کامیابی شاہینوں کے مقدر میں نہ آ سکی۔ واحد پانچ روزہ کھیل کی فتح بھی جزیرہ سری لنکا کے خوبصورت شہر گال کے روح پرور ماحول میں میسر آ سکی۔

پاکستان جو کبھی اپنے ہوم گراؤنڈز پر ناقابل شکست اور ایک مشکل حریف ہوا کرتا تھا۔ اب جب سے پاکستان میں کرکٹ واپس آئی ہے۔ تو کارکردگی ایک دم سے خراب ہو جانا تشویشناک ہے۔ مایوس کن اور خراب پرفارمنس کے پیچھے کئی وجوہات شامل ہیں۔ پہلی سب سے بڑی وجہ ڈیڈ وکٹ بنانا ہے۔ جسے سماجی ویب سائٹس پر کرکٹ شائقین ”موٹروے“ سے مماثلت بھی قرار دے چکے ہیں۔ پچز پر نہ تو کہیں کوئی گھاس نظر آتا ہے۔ اور نہ ہی گیند باؤنس اور سپین ہوتا ہے۔

بالکل فلیٹ پچ بنانے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مسلسل خراب کارکردگی کی دوسری بڑی وجہ پاکستانی ٹیم کی طاقت و قوت سمجھا جانے والا باؤلنگ اٹیک ہے۔ جو اپنی کمزور پوزیشن کے سبب مسلسل ہار کی وجہ بن رہا ہے۔ اس پاکستانی باؤلنگ اٹیک نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچوں میں بھی چار کی اوسط سے سکور کروایا۔ جبکہ وکٹ کے معاملے میں تو بعض دفعہ شبہ ہوتا ہے گویا یہ وکٹ لینا بھول گئے ہیں۔

موجودہ پاکستانی باؤلنگ پچھلے پندرہ سے بیس سال کی کمزور ترین باؤلنگ لائن ہے۔ بہت سی انجریز بھی اس کی وجہ ہیں۔ شاہین شاہ، حارث رؤف اور نسیم شاہ کا ان فٹ ہونے میں ٹیم انتظامیہ کا بھی پورا پورا حصہ ہے۔ جو اپنے اہم باؤلرز کو کمزور حریف جیسے آئرلینڈ کے خلاف بھی میدان میں اتار دیتے ہیں۔ حالانکہ کسی ٹیم کے لیے یہی موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو کمزور حریف کے خلاف میدان میں اتار کر ان کا کانفیڈنس بڑھائے۔

جبکہ پاکستانی ٹیم میں جہاں نوجوان باؤلرز کو چانس ملنا چاہیے وہاں انہیں موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ اور جب اہم سٹرائیکر باؤلر ان فٹ ہوتا ہے تو بیک اپ پر اس کا متبادل ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شاہین شاہ کو مسلسل کھلانے کے کارن وہ ان فٹ ہوئے یہی مسئلہ حارث رؤف اور نسیم شاہ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستانی باؤلنگ لائن اپ کی صورتحال یہ ہے کہ سوائے مسٹری لیگ سپنر ابرار احمد کے کوئی کوالٹی بالر نہیں ہے۔

ابرار احمد نے گزشتہ برس تین میچوں کی چھے اننگز میں مجموعی طور پر تئیس شکار کیے ہیں۔ جو کسی بھی پاکستانی باؤلر کی طرف سے سال بھر میں زیادہ وکٹیں ہیں۔ جس میں دو بار پانچ جبکہ ایک بار دس وکٹیں بھی شامل ہیں۔ دوسرے گیند باز نسیم شاہ ہیں۔ جنھوں نے پانچ میچوں کی نو اننگز میں باؤلنگ کراتے ہوئے اٹھارہ شکار کیے۔ جو کسی بھی پاکستانی فاسٹ باؤلر کی طرف سے زیادہ وکٹیں ہیں۔ سپنر نعمان علی، اٹھارہ وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ جنھوں نے چھے مقابلوں کی دس اننگز کھیلتے ہوئے اٹھارہ شکار کیے، جس میں ایک بار پانچ وکٹ بھی شامل ہیں۔ جبکہ چوتھے زیادہ وکٹ لینے والے شاہین شاہ ہیں۔ جنھوں نے چار میچوں کی سات اننگز میں تیرہ وکٹیں اپنے کھاتے میں شامل کیں۔ دیگر باؤلرز میں زاہد محمود نے چار اننگز میں بارہ، محمد نواز نے چھے اننگز میں گیارہ، یاسر شاہ نے چار اننگز میں نو، جبکہ حسن علی آٹھ اننگز میں محض پانچ وکٹ لے سکے۔ محمد علی اور ساجد خان نے چار اور پانچ اننگز میں بالترتیب چار چار وکٹ لئے۔ جبکہ آل راؤنڈر اور میڈیم پیسر فہیم اشرف چھے اننگز میں محض دو بلے بازوں کو آؤٹ کر سکے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی گیند باز کس حالت میں کھڑے ہیں۔

کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے، پاکستان جسے فاسٹ باؤلرز کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے۔ جس کی باؤلنگ لائن اپ کو گلیمرس کہا جاتا ہے۔ پاکستان جس نے فضل محمود، سرفراز نواز، عمران خان، عاقب جاوید، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، محمد آصف، عمر گل اور محمد عامر جیسے فاسٹ باؤلرز پیدا کیے۔ آج صورتحال یہ بنی ہوئی ہے، کرکٹ کی پہلی دس مضبوط ٹیموں میں پاکستان واحد ملک ہے، جس کا ایک فاسٹ باؤلر بھی 2022 ء میں ایک اننگز میں پانچ وکٹ نہ لے سکا۔ پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ باؤلرز میں شاہین شاہ، حارث رؤف، نسیم شاہ، محمد وسیم، محمد علی، حسن علی، میر حمزہ اور میڈیم پیسر فہیم اشرف کو گزشتہ برس کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا، جن میں سے کوئی بھی پانچ وکٹ فی اننگز لینے میں کامیاب نہ سکا۔

دو ہزار بائیس میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے پیس اٹیک نے چار چار بار ایک اننگز میں پانچ وکٹ اپنے نام کیے۔ آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ اور بھارت کے فاسٹ باؤلرز نے یہ کارنامہ تین تین بار سرانجام دیا۔ جبکہ بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کے فاسٹ باولرز نے دو دو بار پانچ وکٹ اپنے کھاتے میں شامل کیے۔ انفرادی طور پر جنوبی افریقہ کے فاسٹ باؤلر ربادا اور آسٹریلوی سپنر ناتھن لیون، سینتالیس سینتالیس وکٹوں کے ساتھ ٹاپ لسٹ پر ہیں۔

سب سے زیادہ وکٹ لینے والے فاسٹ باؤلرز میں انگلینڈ ٹاپ پر ہے۔ جس کے پیس اٹیک نے پندرہ میچوں میں ایک سو اٹھاسی وکٹ لئے۔ جبکہ پاکستانی فاسٹ باؤلرز محض پینتالیس وکٹ اپنے نام کر سکے۔ ایک سو سے زائد وکٹ لینے والوں میں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ جبکہ کسی بھی ایشیائی ٹیم کے فاسٹ باؤلرز مجموعی طور پر سو سے زیادہ وکٹ نہ لے سکے۔ پاکستان کے پیسرز بھارت اور بنگلہ دیش کے پیس اٹیک کی نسبت بھی لو پرفارمر رہے۔ دوسری طرف ابرار احمد کے علاوہ کوئی پاکستانی سپین باؤلر خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا۔

پاکستان میں پچز ہمیشہ سے سست اور بلے بازی کے لیے سازگار ہوتی ہیں۔ مگر باؤلرز کی اتنی مایوس کن کارکردگی کبھی نہیں رہی۔ کسی نے پاکستانی لیجنڈری باؤلر وسیم اکرم سے دریافت کیا۔ وسیم، تم ایسی سلو پچ پر کیسے وکٹیں لیتے تھے، جو ہمیشہ بیٹسمین کو فیور کرتی تھیں۔ تو وسیم نے جواب دیا وہ ڈسپلن کے ساتھ مڈل سٹمپ لائن پر فل لینتھ سے وکٹ کو ہدف بنا کر حملہ آور ہوتے تھے۔ جب بھی بلے باز معمولی غلطی کرتا تو وکٹ مل جاتا تھا۔

وسیم اکرم کے اس فارمولے کے تحت باؤلنگ کرنے میں فاسٹ باؤلرز اور سپنرز دونوں مستفید ہوتے تھے۔ جس سے کریز پر موجود بلے باز کو بوریت اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر کے وکٹ لینے کی کوشش کی جاتی تھی۔ کپتان مصباح الحق بھی اپنے گیند بازوں کو وکٹ ٹو وکٹ یا پھر وہی بلے بازوں کو بور کرنے کے لیے وسیم اکرم والا پلان پر لگاتے تھے۔ اور پاکستان کئی بار میچ نکال جاتا تھا۔ یوں لگتا ہے موجودہ کپتان ابھی لیڈرشپ سکلز سیکھ نہیں پائے یا پھر شاید انہیں عمل در آمد کروانے میں دقت محسوس ہو رہی ہے۔

اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ باؤلرز نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کو پہلی اننگز میں آؤٹ کرنا بھی بھول گئے جبکہ اس سے قبل انگلینڈ کے خلاف اکانومی ریٹ کو بھی تندرست رکھنے میں ناکام نظر آئے۔ کوئی بھی ٹیم اپنی بہترین حکمت عملی، ڈسپلن اور بہادری کے سبب کسی وقت بھی کھیل کا پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ اور یہ حالات تب رونما ہوتے ہیں، جب ٹیم کو ایک دلیر قیادت کا ساتھ میسر ہوتا ہے۔ بابر اعظم کو بھی اپنے اندر بطور کپتان کئی اہم معاملات میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

جبکہ ٹیم سلیکشن کمیٹی کو چاہیے فاسٹ باؤلنگ اٹیک میں لمبے سپل کرنے والے، بہترین رویے کے حامل اور وکٹ ٹیکر باؤلرز جیسے محمد عباس، شاہنواز دھانی، ارشد اقبال اور ثمن گل جیسے باؤلرز کو چانس دینا چاہیے اور انہیں بیک اپ کریں تاکہ نوجوان ٹیلنٹڈ باؤلرز اپنی ٹیم کے لیے معاون ثابت ہو سکیں۔ چیف سلیکٹر شاہد آفریدی کا ٹیم کے ساتھ ساتھ بینچ کو مضبوط کرنے کا پلان ماڈرن کرکٹ اور وقت کی ضرورت ہے، یہ لائحہ عمل قابل تعریف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments