اجنبی شہر کا مسافر
یہ 3 جنوری 2019 ء کا تذکرہ ہے۔ بدھ کا دن اور دس بجے کا وقت تھا۔ سورج پہاڑوں کی اوٹ سے نکل چکا تھا مگر بادلوں نے کچھ کچھ اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور سورج کی مدہم کرنیں چار سو پھیل رہی تھی۔ ہر سو سردی کی شدید لہر دوڑ رہی تھی۔ موسم خزاں کے ستم سے برگ و بار ٹوٹ کر سڑک کے یہاں وہاں ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ بہار کے خوش گوار ماحول میں نکھرے پھول پتوں پر زوال کا سماں طاری تھا۔ یہ زرد پتے ایسے لگ رہے تھے جیسے انہیں دق کا روگ لگا ہو۔
یہ اداس منظر اور میں قراقرم ہائی وے پر کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔ ایکا دکا گاڑیاں تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب بھاگ رہی تھیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہوا کے سرد اور پرکیف جھونکے شریر کو ٹھنڈ پہنچا رہے تھے۔ مجھے گاڑی کا انتظار کرتے کرتے بوریت کا احساس ہونے لگا۔ جسم کو گرمانے کے لیے ٹہلنا شروع کر دیا۔ دریں اثنا بس کی ٹن ٹن آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میرے انتظار کی گھڑی ختم ہو چکی تھی۔ میں بس میں سوار ہوا اور یہ میرا روشنیوں کا شہر، شہر قائد کی جانب پہلا سفر تھا۔
گاڑی منزل کی جانب بڑھتی گئی۔ فجر کے وقت ہم راول پنڈی پیر ودھائی اڈے میں پہنچ گئے۔ ہم چار بندوں نے ایک قریبی ہوٹل میں قیام کیا۔ مجھے نیند ہرگز نہ آئی کیونکہ اگلے سفر کا خیال میرے دل و دماغ پر حاوی تھا۔ بہرحال صبح ہوئی، ناشتہ کیا۔ ان تینوں لوگوں نے پنڈی میں ٹھہرنا تھا اور میں نے دن کے ایک بجے دوسری بس میں کراچی کا رخ کیا۔ تقریباً چوبیس گھنٹے کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد ہم کراچی بس اڈے میں پہنچ گئے۔
کراچی بس اڈے پر اترتے ہی میرا پہلا قدم کچرے کے ڈھیر پر پڑا۔ میں بیگ اٹھا کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ گرمی کا احساس ہونے لگا تو جیکٹ اتار کر بیگ میں رکھ دیا۔ سڑک پر گاڑیوں کا سیلاب رواں دواں تھا۔ فٹ پاتھ پر لوگوں کا جم غفیر تھا۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی، ادھر ادھر چاروں طرف دیکھا۔ میں اجنبی شہر کا مسافر بن گیا تھا۔ میں یہ سارے مناظر غور سے دیکھ رہا تھا اور میرے تصورات کا شیش محل ٹوٹ گیا کیونکہ یہ وہ کراچی نہیں تھی جسے میں نے خیالات میں سوچا تھا۔ اتنے میں میری نظر زمان عباس پر پڑی۔ یہ مجھے لینے اڈے پر آ گئے تھے۔ بہرحال وہ مجھے عجیب و غریب گلیوں سے گزارتے ہوئے گھر لے گئے۔ جہاں دیکھتا ہوں بلند و بالا عمارتیں پہاڑ بن کر سر پر کھڑی ہیں۔
میں نے تقریباً ایک ماہ کراچی میں گزارا۔ میرا قیام مغل ہزارہ گوٹھ پر حیدر عباس برکی کے گھر پر تھا۔ حیدر بھائی بینک میں ملازم ہیں۔ یہ سویرے نکلتے تھے رات کے آٹھ بجے کے قریب گھر آتے تھے۔ یہ بڑے خوش مزاج اور ہنس مکھ انسان ہیں۔ بلند آواز میں قہقہے لگا کر محفل میں رونق لگانا ان کی انفرادی خصوصیت ہے۔ وسیم عباس اور زمان عباس ’حیدر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ سچ پوچھو تو یہ بڑے کشادہ دل لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ امجد بھائی کا ذکر نہ کروں تو نا انصافی ہو گی۔ یہ حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ کراچی یونی ورسٹی میں میڈیا کے طالب علم تھے۔ یہ انتہائی چست اور ایکٹیو انسان ہیں۔ کھانا بڑے مزے کا بناتا ہے۔ ان کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا اب بھی مجھے یاد ہے۔ انہوں نے میری بہت خدمت کی ہے۔
ان دنوں میں دوستوں کے ساتھ کراچی ساحل سمندر بھی گیا۔ سمندر میں سورج کے ڈوبنے کا طلسماتی نظارہ کمال کا تھا۔ ٹھاٹھیں مارتا سمندر میں کشتیوں کے ہچکولے کھانے کا عینی شاہد ہوں۔ ساحل سمندر پر سیلانیوں کا تانتا بندھا تھا۔ میرے محترم دوست راجہ قمر عباس کیانی بھی کراچی میں زیر تعلیم تھے۔ یہ انتہائی مخلص، ملنسار، ہشاش بشاش، خوش اخلاق، خوش اطوار اور متعدد اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں۔ ان کے ساتھ مزار قائد پر حاضری دی۔
بابائے قوم اور مادر ملت کی لحد پر ہاتھ رکھ کر دعا پڑھی۔ وفاقی اردو یونی ورسٹی بھی گیا اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی قبر پر فاتحہ پڑھی تو دل کو سکون ملا۔ یہ جامعہ ہمارے ہرسپو کالج سے بھی چھوٹی ہے۔ کراچی یونی ورسٹی کا اپنا رنگ و سماں ہے۔ جب میں یہاں گیا تو تعطیلات ہو چکی تھیں مگر کچھ طلبہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
داؤد یونی ورسٹی اور ہاسپیٹل دیکھا۔ آغا خان یونی ورسٹی گھوما پھرا۔ یہاں کی اپنی رونقیں بحال تھیں اور ماحول کچھ بہتر پایا۔ چمڑا ہسپتال بھی گیا۔ کلفٹن، صدر، ملیر اور جعفر طیار بھی گیا۔ یہ کراچی کے اہم مقامات ہیں۔ اس مختصر دورانیے میں وہاں کا رہن سہن، لوگوں کے سونے جاگنے کے اوقات اور ان کے رویوں کا مطالعہ بھی کیا۔ اکثر لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں یہاں بیٹھ کر کوئی کام دھندا شروع کروں۔ لیکن سچ پوچھو تو میں بلند و بالا برف پوش پربتوں کا رہنے والا ہوں۔ مجھے شہر کا شور شرابا، ٹریفک کا ہجوم، لوگوں کا جم غفیر بالکل پسند نہیں۔ مجھے احسان دانش کا یہ شعر بار بار یاد آ رہا تھا۔
واہ رے دیہات کے سادہ تمدن کی بہار
سادگی میں بھی ہے تیرا دامن زرنگار
دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں
شہر کی رنگینیاں چھوڑوں کر یہیں رہنے لگوں
بہرحال 6 فروری کو میں نے پہاڑوں کی سرزمین گلگت بلتستان کی طرف رخ کیا۔ آج اس سفر کو چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ میں جب جب یادوں کے جھروکوں سے ماضی کو دیکھتا ہوں تو وہ حسین اور خوش گوار لمحات مشام جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔
- کتوں کے حملے سے کیسے بچیں - 10/12/2023
- موسم خزاں، اداس بلبل اور میں - 25/11/2023
- فرقہ واریت کی آگ - 13/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).