”بالے کی مار“ یا بوائے فرینڈ کا ”شوگر کوٹڈ ٹارچر“ ؟


وہ میرے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی، ہم دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے، اچانک اس کے ہاتھ میں موجود ایپل واچ جگمگا اٹھی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں کی روشنی بھی بڑھ گئی اور وہ مجھ سے معذرت کرتے ہوئے فون سننے دو قدم دور ہٹ گئی۔ میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو محض یہ سوچ کر کپکپانے لگتے ہیں کہ سردی کا موسم ہے۔ اس لئے میں کئی دنوں بعد نکلی کو دھوپ کو آنکھیں بند کر کے جذب کر لینا چاہتی تھی۔ ابھی کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ وہ واپس میری طرف آئی۔

سانس بے ترتیب، آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو، ہونٹ خشک! میں سمجھی شاید خدانخواستہ اس کی والدہ جو بستر تک محدود ہیں انہیں کچھ ہو گیا ہے لیکن اس سے پہلے میں ایسے کسی شک کا اظہار کرتی، مجھے خیال آیا ایپل واچ پر نمبر تو اس کے جان عزیز ”بوائے فرینڈ“ کا تھا! میرے پوچھنے سے پہلے ہی کہنے لگی، ”اتنی چھوٹی سی بات پر اس نے مجھے بلاک کر دیا ہے“ ۔ میں نے کہا بھئی ایک منٹ میں ایسی کیا بات ہو گئی؟ تو جواب آیا کہ وہ کہہ رہا تھا تمہاری لوکیشن دفتر کے گیٹ سے دو انچ دور ظاہر ہو رہی ہے۔

اس کا مطلب ہے تم پچھلے پندرہ منٹ سے دفتر کے باہر نہ جانے کس کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہو۔ میں نے کہا بھئی اسے بتاؤ، حنا کے ساتھ ہوں ہم دھوپ میں کھڑے تھے! خیر وہ پورا دن جب جب میرا اس لڑکی سے ٹاکرا ہوا اس کی حالت نا قابل بیان تھی۔ وہ دفتر کے کسی کونے میں کھڑی فون ملا رہی ہوتی، یا روتے ہوئے بات کر رہی ہوتی۔ اگلے دن وہ بہت ہشاش بشاش تھی کیونکہ معافی تلافی ہو چکی تھی۔

اس واقعہ میں، خدا جانتا ہے میں نے ذرہ برابر بھی اضافہ نہیں کیا۔

اس لڑکی کے لئے آکسیجن کے سلنڈر کی حیثیت رکھنے والے یہ موصوف شادی کرنے سے بارہا ٹرخا چکے ہیں البتہ ہمیشہ تین ماہ کا نیا وقت لیتے ہیں اور گھر میں آنے والے ہر رشتے سے پورے دھڑلے سے یہ کہہ کر انکار کرواتے ہیں کہ۔ ”یو آر مائی وائف، ہاؤ ڈیر یوٹو ایون تھنک اباؤٹ این ادر مین“ ( تم میری بیوی ہو، تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم کسی اور مرد کے بارے سوچو) ۔ البتہ خود جب کسی اور لڑکی کے ساتھ پکڑا جاتا ہے تو یہ توجیح دیتا ہے بے بی وہ بے ہودہ تو بالکل ٹائم پاس تھی، تم مصروف تھی گھر میں تو ایسے بات کر رہا تھا، تمہاری قسم اب نہیں کروں گا۔ اور یہ مان بھی جاتی ہے۔ شادی کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ بہت چھوٹا ہے اس کے ہاں تیس سال کی عمر میں شادی ہوتی ہے۔

ایک اور محترمہ بتاتی ہیں کہ اس کے حضرت بوائے فرینڈ یونیورسٹی میں ان کے سامنے دیگر افیئر چلاتے، اس کے منع کرنے پر حضور والا نے اس کے بھائی کو کال کر دی تھی کہ یہ لڑکوں سے دوستیاں رکھتی ہے۔ ( اس لڑکے کی تخریب کاری کا اندازہ لگائیں کہ وہ اسے بھی اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور خود بھی جو دل میں آئے کرنا چاہتا ہے۔ )

ایک تو خیر سرعام چپیڑیں کھاتی رہی ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہے کہ وہ مجھے کئی کئی دن بلاک رکھتا ہے لیکن میں اسے مختلف نمبروں سے کال کرتی ہوں، اسے عادت ہے مجھ سے منتیں کروانے کی۔ لیکن مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔ اس طرح جذباتی طور پر دباؤ میں رکھنے والا کون سا پیار ہوتا ہے؟

یہ لوگ نہیں سمجھتی ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی رشتہ باہمی محبت اور احترام کے عناصر سے مل کر بنتا ہے۔ اور اس بوائے فرینڈ نامی مخلوق میں یہ دونوں عناصر ناپید ہوتے ہیں۔

میں ان لڑکیوں کو دیکھ کر حیران ہوتی ہوں کہ ایسا بھی کیا کسی پر جذباتی طور پر منحصر ہونا، ان لڑکیوں کے نا تو کوئی کیرئیر گولز ہیں، یہ اینکر، بنکر، ڈائریکٹر، رائٹر، ٹیچر، ڈاکٹر کچھ بھی نہیں بننا چاہتیں، یہ ماں باپ کے لاکھوں روپے ڈگری پر لگوانے کے بعد ایک بدکار قسم کے انسان کی بیوی بننے کی خواہش رکھتی ہیں۔ انہیں نہیں پتا معاشی خود انحصاری کیا ہوتی ہے، انہیں نہیں پتہ کردار کی پختگی کیا ہوتی ہے، انہیں اپنی (SANITY) روح کی پاکیزگی کا خیال نہیں ہے۔

میرے جیسے ماڈرن اور تھوڑے سے لبرل انسان کی طرف سے ایسی باتوں کو عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ محض لفاظی سمجھیں لیکن میرا یہ ماننا ہے لبرل ہونا اور باکردار ہونا، ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔ میرے ذہن میں کئی سوال اٹھتے ہیں، کیا معاشرے نے ان پر شادی کر لینے کا اتنا بوجھ لاد دیا ہے کہ یہ کسی کے سامنے اپنی عزت نفس کو روند لینے کو برا نہیں سمجھ رہی، کیا یہ گلوبل ویلج کے معیاروں پر پورا اترنے کے لئے پاؤلو کوہلو کی الیون منٹ کی ہیروئن بننے پر راضی ہو چکی ہیں؟

یہ لوگ اتنا کنفیوز کیوں ہیں؟ یہ نہ لڑکیاں دوست بناتی ہیں، نہ ہلا گلا کرتی ہیں، نہ اپنی آزادی کو سیلیبریٹ کرتی ہیں۔ ان کی پوری زندگی ہر چھ ماہ یا سال بدل جانے والے بوائے فرینڈ کے گرد گھومتی ہے۔ وہ طے کرتا ہے کہ یہ کس لڑکی سے دوستی رکھ سکتی ہیں، وہ طے کرتا ہے کہ یہ کیسے کپڑے پہنیں گی، وہ طے کرتا ہے کہ انہیں کب ہنسنا ہے اور کب اس کے غم میں رونا ہے۔ بوائے فرینڈ کے ہاتھ میں ان کی ڈور ہوتی ہے یہ کسی لڑکی کے ساتھ باہر کھانا کھانے چلی جائیں تو اسے لمحے لمحے کی رپورٹ دیتی ہیں، حتی کہ وہ طے کرتا ہے کہ انہیں کھانے میں آرڈر کیا کرنا ہے۔

مجھے اپنی وہ کام والی یاد آ رہی ہے جو امی کو آ کر اپنے جسم پر زخموں کے نشان دکھایا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ ”اماں تیرے تو الاوا کسے نوں نئی دسیا کہ بالے نے مینوں راتی پیسیاں تو ماریا اے، ساریاں باجیاں نو ایہہ آکھیاں کہ میں راتی ڈگ پئی ساں، تے نالے اوہنیں باجی رضیہ دے گھر کم کرن تو ہڑک دیتا اے“ (اماں آپ کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا کہ مجھے بالے نے رات کو پیسوں کی وجہ سے مارا ہے سب کو یہی کہا ہے کہ میں گر گئی تھی اور ہاں اس نے باجی رضیہ کے گھر کام کرنے سے منع کر دیا ہے ) ۔

میں امی کی اس کام والی کو دیکھ کر بہت افسوس کرتی تھی اور اس کے شوہر کے ظلم و ستم پر کلس کلس جاتی تھی۔ اگر میرے گاؤں میں یہ manipulationظلم تھا تو شہر میں ایسے اپنی مرضی سے سب جھیلنے کو میرے خیال میں فیٹشیزم کہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments