آپ کہاں سے ہیں، آپ کی شناخت؟


گزشتہ سال ایک سہیلی سے اس کے خاوند اور دو سالہ بیٹی کے ہمراہ چائے اور کھانے پر اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ اپنی بیٹی (ہنزا) کی پیدائش کے بعد پہلی بار پاکستان آئی تھی۔ ہنزا سے مل کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اور ساتھ ہی ساتھ شرارت بھی سوجھ رہی تھی کہ کسی طرح اسے تنگ کیا جائے۔ بچپن میں ایک عجیب و غریب قسم کا سوال پوچھ کر ہمیں الجھاوے میں ڈالا جاتا تھا۔ بیٹا، امی پسند ہیں یا ابو؟ میں نے خود سے وعدہ کر رکھا تھا میں کبھی کسی بچے سے ایسا دقیانوسی سوال نہیں کروں گی۔ کیونکہ بچے انتخاب کی مجبوری میں تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ عہد شکنی، میں نے انجانے میں، ہنزا سے یہ پوچھ کر کر ڈالی، ہنزا، انڈیا پسند ہے یا پاکستان؟ ‌‌

مانسہرہ، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی میری سہیلی گزشتہ پانچ برس سے بھارت کے ریاست اتراکھنڈ کے ضلعے نینیتال میں شادی شدہ اور مقیم ہے۔ چند برس قبل دونوں کی شادی کے باب میں کىئی الجھاوے آئے۔ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ لڑکے کا تعلق بھارت سے ہے۔ چائے کے دوران ہم نے پرانی باتوں کی یاد گری میں قہقہے لگائے اور ایوارڈ ایک دوسرے کی نذر کیے کہ کس طرح ہم مخالفت کے آگے پہاڑ بن کر ڈٹے رہے۔ وہ سب نہ ہوتا تو آج ہنزا سے نہ ملاقات ہو رہی ہوتی۔

ہنزا نے میرے سوال پر فوراً جواب دیا ”انڈیا“ ۔ وہ غالباً سابقہ لفظ سے زیادہ واقف تھی۔ پھر کیا تھا، ہنزا کے جواب نے پاکستان اور ہندوستان کو لے کر سوالات کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیا۔ ”لیکن ابھی تو آپ پاکستان میں ہو۔ پھر انڈیا کیوں پسند ہے؟ لیکن ممی کا گھر تو پاکستان میں ہے؟ نانو پاکستانی ہیں۔ پاکستان خوبصورت ہے، یا انڈیا؟ پاکستانی ہو، یا انڈین؟“

سوالوں کا تسلسل اگلی نشستوں تک برقرار رہا تو ہنزا کے جوابات میں تضاد آنا شروع ہو گیا۔ ایک لمحے وہ انڈیا کہے اور اگلے لمحے پاکستان۔ اور کبھی والدین کا چہرہ تکے کہ وہ رہنمائی کریں۔ کچھ سوالوں کا تو اس نے الجھ کر جواب ہی نہیں دیا، اور کھیل کود میں مصروف رہی۔ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ماضی میں، میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن، عوامی روابط، اور خیر سگائی کے فروغ کے لئے کئی طلباء اور عوامی وفود کی سرحد پار دوروں میں سربراہی کی ہے۔

اپنے ملک سے محبت ہے، لیکن کسی اور ملک سے قطعی نفرت نہیں ہے۔ ابھی متحرک کارکن تو نہیں لیکن امن پر اب بھی یقین ہے۔ ہنزا کے والدین سے جب بھی بات ہوتی ہے، میں اس کا حال ’انڈو۔ پاک بیٹی‘ کہہ کر پوچھتی ہوں۔ ہنزا سے میرے سوال غلط تو تھے، مگر کوئی نفرت یا تنگ نظری ان کی وجہ نہیں تھی۔ سوال غلط تھے اس کا احساس مجھے کب ہوا اس کی وضاحت آگے ہوگی۔ ‌

ہنزا کی وطن واپسی کے چند ہفتے بعد بیرون ملک ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ شرکاء میں سے جب ایک بھارتی شریک نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان میں آپ کہاں سے ہیں؟ تو میں نے بنا سوچے جواب دیا اسلام آباد۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ میں نے یہ جواب دیا ہو۔ ماضی میں جتنی بھی بیرون ملک سرگرمیوں میں حصہ لیا، تقریباً یہی جواب دیا ہے۔ آج بھی نوکری کے سلسلے میں اسلام آباد سے باہر کسی اور شہر کے دورے پر کوئی پوچھ لے آپ کہاں سے آئی ہیں تو میرا یہی جواب ہوتا ہے۔ لیکن کانفرنس پر پہلی مرتبہ کسی نے میری ’تصحیح‘ کی۔ ساتھ بیٹھی پاکستانی وفد کی ساتھی کارکن نے فوراً کہا ”آپ چترال سے ہیں“ ۔

کانفرنس کے آغاز میں جب ہم ہوٹل کی لابی میں بیٹھے چیک۔ ان کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے تو ایک اور نوجوان خاتون بھی آ کر ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئیں اور گرم جوشی سے ہمیں ہیلو بولا۔ بات چل پڑی تو اس نے پوچھا آپ لوگ کہاں سے ہیں؟ اس نے تفصیل پوچھی کہ پاکستان کہاں ہے؟ نقشہ سمجھانے کے بعد اس نے اپنے بارے میں بھی بتایا کہ وہ لاس اینجلس سے ہے۔ جس پر میری تصحیح کرنے والی ساتھی نے اسے ٹوک کر پوچھا کہ آپ دراصل کہاں سے ہیں؟

آپ کا بیک گراؤنڈ؟ جس پر وہ پہلے تو ہچکچائی پھر کہا کہ میرے والدین شنگھائی میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن میں وہاں کبھی نہیں گئی۔ میں نے ساتھی کو اردو میں آہستہ سے سمجھایا کہ تم نے بہت غیر حساس بات کی ہے۔ مجھے لگا ساتھی ان خاتون سے ابھی معافی مانگ لے گی، لیکن اس نے میری بات کی تردید میں کہا کہ، دیکھو نا چینی خود کو امریکی بتا رہی ہے، اور اسے یہ تک نہیں پتا کہ پاکستان کہاں ہے؟ پاکستان اور چین تو ہمسایہ ملک ہیں۔ یہ بات تو ہر چینی اور پاکستانی کو معلوم ہوتی ہے۔ پھر یہی بات اس نے انگریزی میں اس خاتون کو بھی کہہ ڈالی۔

Pakistan and China are neighbours.

اس کے بعد خاتون نے ہم سے مزید بات کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور ہیڈ سیٹ لگا لیا۔ ظاہر ہے۔ میں نے شرمندگی سے سر ہی جھکا لیا۔ اور مجھے ہنزا سے کیے جانے والے سوالوں پر ندامت ہوئی۔

آپ کہاں سے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سب پوچھتے ہیں اور ہم سب سے پوچھا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں پہلے دن تعارف کرواتے ہوئے، نوکری کے انٹرویو کے دوران، سفر میں کسی مسافر سے بات چیت ہو جائے، کسی نئے انسان سے ملاقات ہو جائے۔ ہمیں یہ جاننے کا تجسس ہوتا ہے کہ ان کا ’تعلق‘ کہاں سے ہے؟ اگرچہ یہ سوال ہم کسی بدنیتی پر مبنی ارادے سے نہیں کرتے، لیکن اس سوال میں منفرد نوعیت کے منفی اور مثبت جذبات متحرک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

چند برس قبل ایک سماجی سرگرمی میں ایک سہیلی بنی، جس سے میں نے متعدد بار دریافت کرنے کی کوشش کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ اور اس نے یہی جواب دیا کہ میں سب جگہ سے ہوں۔

I am from everywhere.

مجھے کافی اضطراب رہا کیونکہ میں اس کو کسی مخصوص علاقے سے منسلک کر کے اپنے ذہن کے ایک خانے میں رکھنا چاہ رہی تھی۔ آج بھی رابطہ ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کے وہ ’کہاں‘ سے ہے۔ ایک اور محفل میں کراچی سے تعلق رکھنے والی ساتھی نے محو گفتگو کہا کہ ”جیسا کہ پاکستان بننے سے پہلے ہم سب انڈین تھے، تو۔ ۔ ۔“ ۔ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ساتھی نے ٹوکا اور کہا ”نہیں ہم تو افغان تھے“ ۔

اسلام آباد میں اگر آپ کسی کو یہ بتائیں کہ آپ اسلام آباد سے ہیں تو آپ کو فوراً سننے کو ملے گا کہ اسلام آباد کا تو کوئی نہیں ہوتا۔ مگر یہ بات سچ نہیں۔ اسلام آباد کی اپنی بھی ایک مقامی آبادی ہے۔ اور اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ اسلام آباد میں ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے بھی یہیں۔ ایک سہیلی میرے کافی اصرار کے باوجود مصر تھی کہ اس کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ اس کے والدین کا تعلق پنجاب کے مختلف گاؤں سے ہے، لیکن وہ وہاں کبھی بھی ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ نہیں رہی، اس لیے اس کا گھر اسلام آباد ہی ہے۔

خود کو کئی ملکوں اور شہروں میں اسلام آبادی کہہ کر جب اسلام آباد میں یہ پوچھا جاتا ہے تو میرا جواب قدرتی طور پر یہی ہوتا ہے کہ میں چترال سے ہوں۔ مجھے کبھی اپنے جواب میں بیگانگی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن کچھ روز قبل جب چترال سے واقفیت رکھنے والے ایک فرد نے پوچھا چترال میں کون سے ضلع سے آپ کا تعلق ہے؟ میرے بچپن والے چترال میں کہا ضرور جاتا تھا اپر چترال یا لوئر چترال لیکن کوئی انتظامی تقسیم نہیں تھی۔ اب اس تقسیم میں اپنی جگہ ازسرنو واضح کرنا مشکل لگتا ہے۔

آپ کہاں سے ہیں؟ اکثر اوقات اس سوال کے بعد شناخت کے دیگر پہلوؤں پر بھی بات چلی جاتی ہے۔ اچھا چترال میں کیلاش اور اسماعیلی بھی رہتے ہیں؟ آپ کیا ہیں؟ اسلام آباد میں کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کی بول چال صاف ہے، آپ زبان سے چترالی نہیں لگتی۔ اور پاکستان سے باہر یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کی رنگت سے آپ پاکستانی نہیں لگتیں، یا آپ فلاں ملک کی لگتی ہیں۔ یعنی کہ کسی کی جغرافیائی شناخت سے لوگ اپنے موجودہ عقائد کی تصدیق بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح جیسے تصحیح کرنے والی ساتھی نے لاس اینجلس سے آئی ہوئی خاتون کی صورت دیکھ کر اپنے عقائد کی کرنا چاہی تھی۔

میرے والدین کا تعلق چترال سے ہے لیکن میری جائے پیدائش کراچی کی ہے۔ دو سال کی تھی جب والدین نے واپس چترال کا رخ کیا۔ آٹھویں جماعت تک چترال میں پڑھائی کی۔ چترال میں پلتے بڑھتے کراچی کے لئے دل میں ایک خاص جگہ تھی کہ ایک دن اپنی جائے پیدائش ضرور جانا ہے۔ سہیلیوں کو بتاتی تھی کہ میں کراچی میں پیدا ہوئی تھی۔ نویں دسویں جماعت کے لئے کراچی میں دو سال پڑھنے کا موقع ملا، پہلے تو بالکل پسند نہیں آیا مگر دھیرے دھیرے انسیت بڑھی اور شہر اپنا اپنا لگا۔

گیارہویں جماعت سے آگے اسلام آباد میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور نوکری کا آغاز بھی یہیں کیا۔ تو لگتا ہے یہی اپنا گھر ہے۔ لیکن آج بھی عید وغیرہ اور خاص موقعوں کے لئے چترال جایا جاتا ہے۔ دس برس قبل، ایک تعلیمی پروگرام کے ذریعے امریکہ میں ایک سمیسٹر گزارنے کا موقع ملا تو بھارت، بنگلادیش اور نیپال کے طلباء سے اس مشترکہ شناخت کو لے کر دوستی ہو جاتی تھی کہ ہم سب دیسی ہیں۔ وہاں سب جنوبی ایشیاء والے اپنے جیسے لگے۔

یہی احساس بھارت اور نیپال جاکر بھی ہوا۔ میرے والد کام کے سلسلے میں کئی برس اسکردو اور مانسہرہ میں بھی رہے، اور ہمارا آنا جانا رہا جس کے باعث ان جگہوں کو بھی ایک وقت میں گھر جیسا مانا۔ چترال میں اپنے گاؤں میں اس بات پر خاصا زور دیا جاتا ہے کہ ہمارے اجداد دراصل بدخشان اور پامیر سے چترال وطن آئے تھے۔ آج بھی گورنو۔ بدخشان اور پامیر کے علاقوں کے رہن سہن اور رسومات انٹرنیٹ پر دیکھنے کو ملیں تو اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔

والد کو خوشی سے کوئی وڈیو دکھاتی ہوں کہ دیکھیں یہ تو بالکل ہمارے جیسی رسم ہے۔ تو وہ تصدیق کرتے ہیں کہ بیٹا یہی ہمارا کلچر ہے۔ اب خواہش ہے ان علاقوں میں جانے کی۔ برتھ سرٹیفکیٹ کراچی کا، ڈومیسائل چترال کا، شناختی کارڈ پر عارضی پتہ اسلام آباد کا، اور پاسپورٹ کے ذریعے اپنی شناخت کا ایک اور پہلو دریافت کرنے کی تمنا۔ یہ تمام سرکاری دستاویزات شہریت کی تصدیق میں بنیادی صحیح، شناخت کی تمام تر پیچیدگیوں کی جامع وضاحت نہیں کر سکتے۔

شناخت کے حوالے سے دنیا بھر میں اسکالرز نے ہزاروں کی تعداد میں تحقیقی مطالعے شائع کیے ہیں۔ کسی علاقے سے تعلق شناخت کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے لیکن پوری ‌شناخت کی اور بھی کئی باریکیاں ہوتی ہیں۔ (اس مضمون میں شناخت کے دیگر پہلو جیسے کہ زبان، جنس، صنف، مذہب، رنگ، عمر، نسل، قومیت وغیرہ کو زیر موضوع نہیں لایا گیا۔ ان پر اگلے مضمون میں بات کروں گی۔ لیکن وضاحت کردوں کہ شناخت کی تشکیل میں یہ تمام پہلو بیک وقت جامع اور متوازی کردار ادا کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

تعلیمی اصطلاح میں اسے انٹرسیکشنلٹی کہتے ہیں، جس پر پہلی بار 1989 میں امریکی اسکالر کمبرلی ولیمز کرینشا نے بات کی) ۔ ہمیں اس بات کا کم ہی ادراک ہوتا ہے کہ ہم پوری طرح ایک جگہ کے نہیں ہوتے۔ ہمیں بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں سے تعلق کا احساس ہوتا ہے۔ مختلف جگہوں سے مناسبت کی وجوہات ہوتی ہیں جو کہ ہماری شناخت کا اہم حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ 2

دستاویزات میں ہنزا کبھی بھی بیک وقت پاکستانی اور ہندوستانی نہیں ہو سکتی۔ لیکن دستاویزات سے بالاتر، ہنزا کی شناخت میں بیک وقت پاکستانی اور ہندوستانی اثرات شامل ہیں۔ ہم سب مکمل طور پر ایک جگہ کے نہیں ہوتے۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود، اس سوال کے ذریعے ہمیں چناؤ کے میدان میں ضرور لایا جاتا ہے۔ کچھ افراد یا گروہوں پر اس سوال کا شاید نقصان دہ اثر بھی ہو خصوصاً وہ جو کہ عالمی (جنگی، موسمیاتی، یا دیگر) حالات کے باعث اس وقت بے گھر یا بے وطن ہیں۔

تو پھر کیا ہم لوگوں سے یہ پوچھنا ہی چھوڑ دیں کہ آپ کہاں سے ہیں؟ کیا ان کو جاننا چھوڑ دیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سوال کو کرنے کے متبادل طریقے اپنائے جائیں، جو کہ کسی بھی قسم کے مفروضوں سے پاک ہوں۔ جس میں لوگوں کے پاس اپنے بارے میں کاغذی دستاویزات میں موجود معلومات سے زیادہ بتا سکنے کی گنجائش ہو۔ میرے پچھلے کام کی جگہ پر، پاکستان سے باہر کے ممالک سے آئے عملے میں سے ایک خاتون سے میری دوستی ہو گئی۔

دفتر میں ہمارا ورک۔ اسٹیشین ایک ساتھ تھا۔ اس کی آتے ساتھ ہی میں نے اسے خوش آمدید کہنے کے بعد پوچھا آپ کہاں سے ہیں؟ اور اس نے تفصیلاً  بتایا یا کہ اس کی والدہ، والد اور خاوند تینوں کا تعلق مختلف ملکوں سے ہے، جبکہ اس کی ایک چوتھے ملک میں پیدائش کی وجہ سے وہاں کی شہریت ہے۔ کھانے کے وقفے پر اس نے مجھ سے پوچھا۔ ’تمہاری کہانی کیا ہے؟‘

What ’s your story?

مجھ سے ایسا سوال کبھی کسی نے نہیں پوچھا تھا۔ اس سوال کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ میں اس بات کا جواب غیر محدود طریقوں سے دے سکتی تھی۔ چناؤ کا اختیار میرے پاس تھا کہ میں اپنی شناخت کے جن پہلوؤں کو مرضی اجاگر کروں اور جن پر چاہوں بات نہ کروں۔ شاید وہی بات ہے جو ایک ساتھی نے کہی تھی کہ ہمارا تعلق سب جگہ سے ہے۔

We are from everywhere.
اس سوال کو پوچھنے کے اور کیا متبادل طریقے ہوسکتے ہیں؟ روشنی ڈالئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments