شیر کی خالہ اور حضرت انسان


دنیا کے چالاک چالاک ترین جانوروں میں سے ایک شیر کی خالہ سے بھی چوک ہو گئی۔ امریکا میں ایک پالتو بلی اڑتیس ہیئر بینڈ نگل گئی جس کی حالت بگڑنے پر آپریشن کر کے نکالنے پڑے۔

اب عام طور پر بلی کتنی محتاط رہتی ہے۔ کبھی آپ نے بلی کو کسی پرندے کا شکار کرتے دیکھا ہو کہ وہ کیسے گھات لگا کر دبے پاؤں آتی ہے کہ شکار کو اس کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔ لیکن بلی جیسا محتاط جانور ہیئر بینڈ نگل گیا۔ جب اسے ہیئر بینڈ کھانے کی چیز لگے تو وہ انہیں کھا گئی۔ اس سے ہمیں ٹام اینڈ جیری کے ایک کارٹون کا منظر یا آ گیا جس میں ٹام کی آمد کو پیشگی سننے کے لیے اس کو بطور تحفہ گلے میں باندھنے کے لیے ایک گھنٹی دی جاتی ہے اور وہ اس گھنٹی کو تحفہ سمجھ کر خوشی خوشی پہن لیتا ہے۔

لیکن حضرت انسان بھی کچھ کم نہیں۔ مثلاً ایکسپریس نیوز کی ایک خبر کے مطابق ایک صاحب نے بچوں کے ہسپتال کے لیے خیرات اکٹھی کرنے کے مقصد سے کباب کھائے اور اب اس سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے، معدہ کی صحت تو متاثر ہوئی ہی ہے۔ اب اگلے کچھ عرصے تک وہ کوئی بد پرہیزی نہیں کر سکیں گے اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی طبیعت کب جا کر ٹھیک ہو گی۔

یہ تو خیر پھر بھی خیراتی مقصد سے کیا گیا نیک کام تھا جو الٹا گلے پڑ گیا لیکن حضرت انسان تو بغیر کسی واضح مقصد سے خود کو اور دوسروں کو تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ کبھی فرصت ہو تو اس حوالے سے بھی سوچ لیا کیجیے۔ بقول فیض لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے

مثلاً اب یہی دیکھ لیجیے کہ گاڑیوں اور کارخانوں وغیرہ سے نکلنے والا دھواں کیا کم مضر صحت ہے یا ماحول میں کم آلودگی پھیلا رہا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر ایسی گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں کہ جو ادھ جلا ایندھن دھویں کے ساتھ خارج کرتے ہوئے ماحول کو مزید آلودہ کرتی ہیں۔ اسی طرح بظاہر خوشی منانے کی آڑ میں جو لوگ شادیوں، نئے سال کی آمد پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں تو ان دنوں میں پہلے ہی کیا کم دھوم دھڑکا چل رہا ہوتا ہے کہ وہ مزید شور گولیوں سے پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہیں اتنی بھی پروا نہیں ہوتی کہ یہ گولی کسی بے گناہ انسان کو لگ جائے گی۔ وہ اپنی نام نہاد خوشی میں، اتنے مست ہوتے ہیں کہ کسی دوسرے یا اپنے کی خوشیاں یا زندگی چھن جانے کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ خوشی کے موقع پر گولی چلانے سے باز رہنا تو کجا، ان میں اتنی بھی انسانیت نہیں ہوتی کہ چلو ”خالی“ یعنی بلینک گولیاں ہی چلا لیں جس کی آواز عام گولی کی طرح سنائی دے گی مگر اس عمل سے کسی بے گناہ کی جان تو نہیں جائے گی۔ لیکن کوئی نہیں سوچتا۔

اسی طرح بعض لوگ کسی خاص تہوار پر جان بوجھ کر زیادہ آواز نکالنے والا سائیلنسر لگوا کر یا سرے سے سائیلنسر ہی ہٹا کر گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ اب یہاں بھی یہی سوال اٹھتا ہے کہ دنیا بھر میں پہلے ہی کیا کم صوتی آلودگی پھیل رہی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس میں مزید اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ ہر دہائی میں انسانی رہین سہن میں کتنی ہزاروں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مثلاً شوارما کو ہی دیکھ لیجیے۔ شوارما تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ترکی میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن ایک ڈیڑھ دہائی پہلے پاکستان میں شاید ہی کوئی شوارما کے نام سے واقف ہو۔ اب ہر جگہ، ہر قصبے میں شوارما دستیاب ہے۔ آج سے ایک ڈیڑھ دہائی قبل تک چند امیر لوگ ہی یو پی ایس اور شمسی پینل استعمال کیا کرتے تھے لیکن آج ملک کے پسماندہ ترین خطوں میں بھی چھتوں حتٰی کہ خانہ بدوشوں کے خیموں کے باہر شمسی پینل لگے نظر آتے ہیں۔

ایک دہائی پہلے بیٹری سے چلنے والے بلب نہیں ملتے تھے، لوگ کاروں کے بلب بیٹری سے لگا کر روشنی کرتے تھے، بیٹری سے چلنے والے دیگر آلات ملنے کی تو بات ہی چھوڑیں لیکن آج براہ راست بیٹری سے چلنے والے پنکھے، پانی کی موٹریں، جوسر بلینڈر حتٰی کہ سرکٹ کو ٹانکے لگانے والے کاویہ کے لیے بھی ایسے ایلیمنٹ مل جاتے ہیں جو براہ راست بیٹری سے کاویے کو گرم کرتے ہیں۔ اسی طرح آج سے ایک ڈیڑھ دہائی پہلے تک زیادہ تر لوگ کیسٹ اور کچھ سی ڈی پر موسیقی سنا کرتے تھے لیکن آج موسیقی سننے کے یہ دونوں ذرائع ناپید ہو چکے ہیں اور کہیں نظر نہیں آتے۔ ایم پی تھری پلیئر تک متروک ہو چکے ہیں اور ہر کوئی موبائل پر موسیقی سنتا نظر آتا ہے۔ بلکہ آج کے دور کے بیشتر بچے کیسٹ کے تو نام تک سے ناواقف نظر آتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ہم ایک انیس بیس سالہ نوجوان سے سی ڈی برننگ کی بات کرنے لگے تو اس نے کہا کہ میں نے تو کبھی سی ڈی نہیں بھری، مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا، میرے ہوش سنبھالنے تک تو ہر طرف اینڈرائیڈ کا راج تھا۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی ہی چیزیں آئیں، مقبول عام ہوئیں اور پھر متروکہ قرار دی گئیں لیکن اگر آج سے کئی سو سال پہلے کسی نے شادی یا خوشی کے موقع پر گولیاں چلانے کی مہلک روایت شروع کی تو کسی کو یہ احساس نہیں کہ اس سے ہر سال کتنی ہی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، کتنی ہی خاندان ہمیشہ کے لیے بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن کسی میں اتنی سی انسانیت نہیں ہے کہ وہ سوچے کہ بس بہت جانیں ضائع ہو چکیں، ہم یہ غلط اور مہلک روایت ترک کرتے ہیں۔

پھر جب شادیوں پر گولی چلنے سے کسی کی موت ہو جاتی ہے تو سب افسوس کرنے پہنچ جاتے ہیں لیکن دوسرے دن، قریب ہی کسی دوسری شادی کی تقریب میں پھر ہوا میں گولیاں چلائی جا رہی ہوتی ہیں۔

بقول شاعر یوں کہیے کہ
کرتے رہے خطائیں ندامت کے بعد ہم
ہوتی رہی ہمیشہ ندامت خطا کے بعد

اسی طرح خدا جانے کس نے دہائیوں پہلے عید یا یوم آزادی جیسے تہوار پر گاڑیوں اور موٹر سائیکل کے سائلنسر اتار کر چلانے کا بے ہودہ رواج شروع کیا تھا۔ اس وقت تو عوام کو صوتی اور فضائی آلودگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن اب تو یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اگر انسان نے ان آلودگیوں کو ختم نہ کیا تو چند دہائیوں کے اندر دنیا کے بہت سے خطوں کا موسم ناقابل رہائش ہو جائے گا۔ لیکن کوئی عملی طور پر اس آلودگی کو ختم کرنے کے لیے خود پر پابندی عائد نہیں کرتا۔ صوتی آلودگی زندگی کے لیے کتنی نقصان دہ ہے، یہ جاننے کے لیے یہ خبر جان لینا کافی ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق صوتی آلودگی سے چڑیاں سخت چڑچڑی اور لڑاکو ہو رہی ہیں۔ جب چڑیوں کی ذہنی صحت کا یہ حال ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی صحت پر اس کے کتنے مضر اثرات پڑتے ہوں گے۔

اسی طرح ڈان ڈاٹ کام کی خبر کے مطابق سمندروں کی تہہ میں پلاسٹک کے ننھے ذرات میں سنہ 1965 ء کے بعد بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ جو انسانی اور آبی حیات کے لیے بہت مضر ہے۔ اب بہت سے انسان مچھلی، کیکڑے کھاتے ہیں تو یہ مضر صحت چیز سب تک پہنچ رہی ہے لیکن اس حوالے سے زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیوں پلاسٹک کا استعمال ترک کریں، پہلے دوسرے کریں۔

کہتے ہیں کہ انسان کو روایت شکن ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں جدت آ سکے۔ لیکن اچھی یا بے ضرر تو بہت سی چیزیں آئیں اور متروکہ بھی ہو گئیں۔ کبھی غور کریں کہ جب ہم نے کیسٹ، وسی سی آر، جیسی کتنی ہی چیزیں ترک کر دی ہیں تو خوشی کے موقع پر گولی چلانے یا سائیلنسر نکالنے کو واقعتاً کیوں ترک نہیں کر دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments