مریم نواز آئندہ انتخابات میں ”وزارت عظمیٰ“ کی امیدوار


پارٹ نمبر 1۔
مسلم لیگ (ن) کے ”تاحیات“ نواز شریف کی ہدایت پر پارٹی کے صدر شہباز شریف نے مریم نواز شریف کو نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مقرر کر دیا ہے بلکہ ان کو پارٹی کا ”چیف آرگنائزر“ بھی بنا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا انتہائی اہم فیصلہ ہے۔ اگلا اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت مریم نواز کے حوالے کر دیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پارٹی کی تنظیم نو کی ذمہ داری مریم نواز شریف کو سونپ دی گئی ہے جو تمام سطحوں پر پارٹی کو ”ری آرگنائز“ کریں گی۔ اس تقرری کے بعد مریم نواز کو پارٹی کے اندر غیر معمولی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

اس تقرری پر مسلم لیگ ( ن) کے صدر شہباز شریف نے بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مریم نواز پارٹی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ قائد نواز شریف کے وژن کے مطابق پارٹی امور بہترین انداز میں چلائیں گی۔ قبل ازیں مریم نواز کے پاس مسلم لیگ ( ن) کی نائب صدارت تھی۔ مسلم لیگ (ن) میں درجن سے زائد نائب صدور ہیں لیکن سینئر نائب صدر مقرر ہونے کے بعد ان کو پارٹی کے صدر شہباز شریف کے بعد دوسری پوزیشن حاصل ہو گئی ہے۔

قبل ازیں شاہد خاقان عباسی اکیلے اس منصب کو انجوائے کر رہے تھے۔ پارٹی کے آئین کے مطابق صرف ایک ہی سینئر نائب صدر ہو سکتا ہے لیکن اب مریم نواز کی بطور سینئر نائب صدر تقرری کے بعد شاہد خاقان عباسی کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ پہلے مرحلے میں نواز شریف نے مریم نواز کو مسلم لیگ نون کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا ممبر بنایا تھا جب کہ دوسرے مرحلے میں 37 رکنی مرکزی پارلیمانی بورڈ کا رکن بنا دیا گیا۔

اس لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ جاری کرتے وقت مریم نواز کا بڑا عمل دخل بڑھ جائے گا۔ ویسے بھی سینئر نائب صدر بننے سے قبل ہی مریم نواز نائب صدر کی حیثیت سے نواز شریف کی ملک میں عدم موجودگی میں پارٹی چلا رہی تھیں اب ان کو پارٹی کے صدر شہباز شریف کے سوا تمام عہدیداروں پر برتری حاصل ہو گئی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ اگر نواز شریف کی نا اہلیت بوجوہ ختم نہ ہوئی تو مریم نواز کو پارٹی کا صدر بنا دیا جائے گا۔

آنے والے دنوں میں پارٹی پر گرفت مزید مضبوط کرنے کے لئے نواز شریف نے مریم نواز کو سینئر نائب صدر بنایا ہے۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ اگر ”لیول پلیئنگ فیلڈ“ کے اصول کے تحت نواز شریف کے بعد عمران خان کو بھی مستقبل قریب میں ”نا اہل“ قرار دے دیا گیا مریم نواز پی ٹی آئی کا مقابلہ کریں گی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ میاں نواز شریف رضاکارانہ طور سیاست میں اپنی بیٹی کے حق میں ”سٹیپ ڈاؤن“ کر جائیں گے۔ شاید اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی منشا ہو مجھے تو یہی نظر آتا ہے۔

مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات میں مریم نواز پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہوں گی۔ مریم نواز جو چار ماہ سے زائد عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ نے پارٹی کی سینئر نائب صدر بننے کے بعد جلد پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے۔ مریم نواز اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے جنوری کے تیسرے ہفتے میں پاکستان واپس آئیں گی۔ مریم نواز اپنی سرجری کے لئے لندن سے جنیوا چلی گئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ جنیوا میں ایک ہفتہ قیام اور معالج سے ملاقات کے بعد لندن واپس آ جائیں گے۔ نواز شریف اپنے دورہ جنیوا میں ذاتی ملاقاتیں بھی کریں گے۔ وزیراعظم پاکستان اور ان کے بھائی شہباز شریف بھی اتوار کو جنیوا پہنچ رہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی جنیوا میں ملاقات ہو گی۔ مریم نواز کو پارٹی میں سینئر نائب صدر کے ساتھ چیف آرگنائزر کا عہدہ دینے کا مقصد ان کا با اختیار بنانا ہے۔

پارٹی میں یہ ان کی نئی انٹری نہیں ہے بلکہ وہ پچھلے چند سالوں سے ملکی سیاست میں ”خاموش“ کردار ادا کر رہی ہیں جس کی پاداش میں وہ ”جیل یاترا“ بھی کر چکی ہیں۔ ان کے والد میاں نواز شریف میں اس حد تک مشرقیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی ہونہار صاحبزادی مریم نواز کو مسلم لیگی رہنماؤں کے اجلاس میں بٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ مشرقی ماحول میں پلی بڑھی لڑکی کو اچانک ملکی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت کیسے دے دی؟

کچھ عرصہ قبل مسلم لیگی رہنما چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ سب سے پہلے انہوں نے میاں نواز شریف کو اس بات کا قائل کیا کہ وہ مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کے اعلی ٰسطح کے اجلاسوں میں اپنی نشست کی پشت پر بٹھایا کریں تاکہ وہ قدرے حجاب میں رہ کر اجلاس کی کارروائی کے نوٹس لے کر جائزہ لیں۔ ایک زمانہ تھا۔ مریم نواز چوہدری نثار علی خان کو اپنا ”آئیڈیل“ سمجھتی تھیں لیکن جب چچا نے بھتیجی کی قیادت میں کام کرنے انکار کیا تو چوہدری نثار علی خان کو مسلم لیگ (ن) سے الگ کر دیا گیا۔ مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں شرکت شروع کی پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ (ن) کا تمام انتظام و انصرام مریم نواز کے ہاتھ میں آ گیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بنائی جس نے دنوں میں عمران خان کے ”میڈیا سیل“ کا بھر پور مقابلہ کیا لیکن وسائل کی کمی، عدم توجہ یا تجربہ کار کی نایابی کے باعث مسلم لیگ کا میڈیا سیل غیر موثر ہو کر رہ گیا۔ مریم نواز گو تجربہ کے لحاظ سے تو جونیئر سیاست دان ہیں لیکن انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ذات کی حد تک نواز شریف کے سیاسی مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا۔ جب وہ ٹویٹ پر اپنا پیغام دیتی ہیں تو وہ نہ صرف زور دار ہوتا ہے بلکہ سیاسی حلقوں میں موضوع گفتگو بھی رہتا ہے۔

بعض اوقات ان کے بیانات میں ”تلخ نوائی“ ہوتی ہے۔ یہ ”تلخ نوائی“ وقت کے جبر کی پیدا کردہ ہے۔ وہ اپنے والد میاں نواز شریف کے ہمراہ احتساب عدالت میں چھے سات ماہ میں 70 سے زائد پیشیاں بھگت چکی ہیں۔ انہوں نے کئی سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصاف کے حصول کے لئے بھی پیشیاں بھگتی ہیں۔ ماضی قریب میں بے نظیر بھٹو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی ہیں اور عدالتوں کے چکر لگاتی رہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کسی خاتون رہنما کو عدالتوں کے اس قدر چکر لگانا پڑے ہوں جس قدر مریم نواز کو چکر لگانے پر مجبور کر دیا گیا۔ وہ حوصلے اور جرات سے صورت حال کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔

یہ ان کے مضبوط اعصاب ہی ہیں کہ وہ ”جبر کے ماحول“ میں جرات و استقامت سے ہر قسم کے نتائج کی پروا کیے بغیر ہر روز عدالت کے دروازے پر کھڑی ہوتی تھیں انہوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا تو ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے لیکن وہ احتساب عدالت میں چٹان کی طرح اپنے عظیم والد کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ انہیں ”قید و بند“ کی صعوبتوں کا خوف دلا کر سیاسی طور پر سرنڈر کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن وہ پارٹی کارکنوں کے لئے جرات و استقامت کی علامت بن گئیں (جاری ہے ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments