امارات سے حرمین تک


کچھ دن پہلے، اللہ تعالی نے ہمیں حرمین شریفین کی زیارت سے نوازا۔ یہ تیسرا موقع تھا جب میرے قدم مقدس مقامات کی سرزمین پر پڑے۔ الحمد للہ، امارات میں رہتے ہوئے اس سے پہلے بھی دو بار یہ سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اب کی بار مگر یہ سفر اس لحاظ سے بڑا خوشگوار تھا کہ یہ بڑے بھائی کی معیت میں تھا۔ اگرچہ وہ اپنی اہلیہ اور بیٹے ہدایت اللہ کے ساتھ اپنی گاڑی میں اور میں اپنی فیملی کے ساتھ اپنی گاڑی میں سوار تھے لیکن آنے جانے کا لگ بھگ پانچ ہزار کلومیٹر کا یہ سفر یوں طے ہوا کہ ہم پورے راستے میں زیادہ دیر ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے۔ پردیس سے پردیس تک کا یہ یادگار سفر اب تک کی میری زندگی کا ایک بہترین واقعہ تھا جس سے میں گزرا ہوں۔ آج کی تحریر میں فقط مکہ مکرمہ کے بارے میں کچھ عرض کرنے کا ارادہ ہے، موقع ملا تو اگلی تحریر میں مدینہ طیبہ کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ۔

مکہ مکرمہ تندرست دلوں کی منزل، بیماروں کے لیے دوا اور زخمیوں کے لیے شفاء ہے۔ ایسا کوئی دل نہیں جو روحانی طور پر تندرست ہو اور اس کا کمپاس اس کی طرف متوجہ نہ ہوتا ہو۔ کیونکہ یہ خالق کائنات کے اس پہلے گھر کا محل وقوع ہے جس کی خوبصورتی اور عظمت کا کوئی ثانی نہیں۔ جو ہر گناہگار اور خطاکار کے لیے پاکیزگی کا ذریعہ اور ہر ترساں کے لیے جائے پناہ ہے۔ جہاں مشام جاں معطر ہوتے ہیں، دل ہر قسم کی نفرتوں سے پاک ہو جاتے ہیں، سینوں کا ظرف وسیع ہوتا ہے، زبانیں اللہ تعالی کی یاد سے تر اور کان اس کی آیات سن کر خوش ہوتے ہیں۔ یہاں لباس کی دو چادریں زیب تن کر کے ہر ایک کی گویا یہ تمنا ہوتی ہے کہ اپنا پرانا پاپی من بھی ان چادروں کی طرح ہر قسم کے داغ دھبے سے پاک ہو کر یوں وطن واپس لوٹے جس طرح اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔

مکہ مکرمہ اپنے دل میں محبت کے سوا کچھ نہیں رکھتا۔

ایمان کے زیور سے آراستہ عربی ہو یا عجمی کالا ہو یا گورا، نیک ہو یا بد، رنگ و نسل اور ثقافتوں کے اختلاف کے باوجود سارے لوگ کالے غلاف میں ملبوس اللہ کے گھر کے گرد ایسے جمع ہو جاتے ہیں جیسے بچے اپنی ماں کے گرد جمع ہوتے ہیں۔

حرم مکی دلوں کا بھی قبلہ ہے کیونکہ دل خود بخود اس کی طرف پلٹتے ہیں، جسموں کا بھی قبلہ ہے کیونکہ جسم ہر نماز میں اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ان روحوں کا بھی قبلہ ہے جو ایمان کی لذت تلاش کرنے کے لیے پیاسی رہتی ہیں، ہر پریشان حال شخص کا بھی قبلہ ہے جو عافیت کے آثار تلاش کرنے کے لیے یہاں کا رخ کرتا ہے اور ہر گناہ گار اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والے مگر پشیمان شخص کا بھی قبلہ ہے جو اپنی توبہ کا اثر دیکھنے کے لیے دور دراز کا سفر طے کر کے یہاں پہنچتا ہے۔

مکہ مکرمہ میں آپ کو ہر چیز مختلف نظر آئے گی۔ یہاں دل پرسکون اور ہر قسم کی فکر اور مایوسی سے پاک ہوتے ہیں۔ یہاں کے دروازے ہر خوبصورت چیز کے لیے کھلے اور ہر بدصورت چیز کے لیے بند ہیں۔ یہاں ہر انسان اتنا نفیس بن جاتا ہے گویا اس نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ ہر دل دوسروں کے لیے رحم، درگزر اور خیر خواہی کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے۔ کوئی بھی جھوٹ یا منافقت کا مطلب نہیں جانتا۔ نہ کوئی مکر و فریب اور نہ ہی کوئی غرور و تکبر بلکہ یہاں عاجزی ہی ایک ایسا جھنڈا ہوتی ہے جسے ہر ایک بلندیوں پر لہرانا چاہتا ہے۔

(کاش ہم اپنی پوری زندگی میں ایسے رہ پاتے )

مکہ مکرمہ کے زمزم کا پانی اسی کے لیے ہے جس کے لیے اسے پیا جائے، وہ صرف پیاس ہی نہیں بجھاتا بلکہ جسم کے ہر راہداری میں شفا کے لیے چلتا ہے، اس کے پینے سے بندے کو وہ لذیذ ذائقہ ملتا ہے جس سے صرف بدن ہی نہیں روح بھی لطف اندوز ہوتی ہے۔ یقیناً یہ بندوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا رقیہ اور شفاء ہے، یہی وجہ ہے کہ شاید شراب کا رسیا بھی شراب پینے کے لیے اتنا نہیں تڑپتا ہو جتنا لوگ زمزم کے پینے کے لیے ترستے ہیں۔

یہ ایک ایسی دائمی اور لازوال نعمت ہے کہ جسے جتنا بھی استعمال کیا جائے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مکہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے بعض صفحات جہاں مسلمانوں کی تلخ یادوں اور واقعات سے پر ہیں وہاں کئی اوراق پر ان کے عروج اور فتوحات کی داستانیں بھی درج ہیں۔ مکہ اپنی سرزمین پر چلنے والے کو یہی کچھ بتاتا ہے۔ اس میں ایک انچ ٹکڑا بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کے صبر و تحمل، برداشت اور قربانیوں کی کوئی باوقار یاد نہ ہو، اور کوئی ایسی جگہ نہیں جس پر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے قدموں کا نشان نہ ہو، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔

مکہ مکرمہ ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کے صالحین کا مسکن رہا ہے، یہیں پر باپ اور بیٹے نے مل کر حکم خداوندی سے اللہ تعالی کا گھر تعمیر کیا اور یہیں پر ایمان کی بنیادیں بلند کیں تاکہ خدا کی یاد اور عبادت کے پیاسے بے قرار دلوں کو یہاں آ کر قرار مل سکے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی فیملی کو یہاں بسانے کے بعد دعاء فرمائی تھی کہ:

اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد کو آپ کے حرمت والے گھر کے پاس ایک بے کھیتی کی وادی میں لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں، لہذا لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دیجیے اور ان کو پھلوں کا رزق عطا فرما دے تاکہ وہ تیری شکر گزاری کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مکہ مکرمہ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، موسم حج میں تو یہ نظارہ سبھی دیکھتے ہیں

لیکن اس کے علاوہ بھی لوگ عمرے اور حرمین کی زیارت کے لیے غول در غول حاضر ہوتے ہیں۔ کشش ایسی کہ جو ایک مرتبہ چلا جاتا ہے، اسے زندگی بھر بار بار جانے کا شوق لگا رہتا ہے۔ دعاء کی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ اس بے آب و گیاہ سرزمین پر مگر دنیا بھر کے پھل فروٹ ہر وقت انتہائی فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں۔

مکہ معظمہ نبی کریم ﷺ کی جائے پیدائش ہے، آپ نے نبوت ملنے سے قبل یہاں چالیس جبکہ نبوت ملنے کے بعد تیرا یعنی کل 53 سال قیام فرمایا، اسی مکہ کے ایک پہاڑ جبل نور کے غار حراء میں آپ پر نور (قرآن) کے نزول کی ابتداء ہوئی اور یہیں سے اس نور نے پورے عالم کو منور کیا۔

نبی کریم ﷺ کی مکہ مکرمہ سے محبت کا عالم یہ تھا آپ نے وہاں ایک ٹیلہ پر کھڑے ہو کر اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! بلاشبہ تو اللہ کی سر زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمینوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سر زمین ہے، اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا ”اسی حرم مکی کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ اس میں پڑھی گئی ایک نماز کسی دوسری مسجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔

میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی آپ سب کو اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے۔ وما ذالک على اللہ بعزیز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments