کلایڈواسکوپ: نیٹ فلکس کا شاہ کار یا محض چربہ؟


اگر نیٹ فلکس کی تازہ سیریز ”کلایڈو اسکوپ“ پر یک لفظی تبصرہ کیا جائے، تو میں اسے ”متاثر کن“ ہی ٹھہراؤں گا۔ البتہ اس کے متاثر کن ہونے کا سبب اس کا منفرد آئیڈیا نہیں۔ نہیں، یہ پلاٹ کا طلسم بھی نہیں، نہ ہی کردار نگاری کا انوکھا تجربہ ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم ایسے غم زدہ، مگر چالاک کرداروں کو، اس آئیڈیے کو اور ایسے پلاٹ کو ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ یہی سچ ہے صاحب۔ اور اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر سنجیدہ تجزیہ کیا جائے، تو یہ ایک اچھی سیریز ضرور ہے، مگر منفرد نہیں۔

اچھا، میں اس مرحلے پر آپ کی توجہ اس کی تکنیک کی سمت مبذول کرانا چاہوں گا، پیش کش کا ڈھب۔ یہ سیریز کرونیولوجیکل آرڈر میں نہیں۔ کہانی سال بہ سال، ماہ بہ ماہ آگے نہیں بڑھتی۔ گویا یہ پلاٹ لینئر نریٹیو پر مشتمل نہیں۔ مگر یہ چیز تو اسے انوکھا نہیں بناتی صاحب۔ لینئر نریٹیو یوں بھی دقیانوسی ہو گیا ہے، اور اس کا سسپنس تھرلر میں اب خال خال ہی استعمال ہوتا ہے۔

تو پھر وہ کیا شے ہے، جس نے نئے سال کے آغاز میں مشرق سے مغرب تک، ہر کسی کو ”کلایڈو اسکوپ“ کا گرویدہ بنا دیا اور اس کے پیش کش کار، جناب ایرک گارسیا پر تعریف کے ڈونگرے برسنے لگے؟

دراصل یہ سیریز کے ڈسکورس کے پاور کا کمال ہے۔ مگر یہ پاور ڈسکورس کے اندر نہیں، بلکہ باہر موجود ہے۔ یہ سارا شور سیریز کے آئیڈیا، کردار، اور پلاٹ کے سبب نہیں، بلکہ اس سے جڑے مباحثے کا ہے، جسے خود۔ ہمیشہ کی طرح۔ پیش کش کاروں نے جنم دیا ہے۔ وہ آپ کو پیغام دیتے ہیں کہ صاحب، اس سیریز کو آپ جہاں سے چاہیں، جس قسط سے پسند فرمائیں، دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے تو ہماری ترتیب کی تقلید کریں، چاہے تو آخری قسط پہلے دیکھ لیں، یا پھر درمیان والی سے آغاز کر ڈالیں۔

آپ جانتے ہی ہوں گے، ”کلایڈواسکوپ“ ایک آپٹیکل کھلونا ہے، جس میں ہم ایک آنکھ میچ کر جھانکتے ہیں، تو ہمیں رنگوں کے مختلف پیٹرن نظر آتے ہیں۔ کھلونے کو خفیف سی حرکت دینے سے یہ پیٹرن بدل جاتا ہے۔ آپ چند ہی رنگوں کے بدلاؤ سے ہزاروں پیٹرن بنا سکتے ہیں۔ یہی پیغام سیریز کے خالق آپ کو دیتے ہیں کہ جناب کھلونے کو ذرا سی حرکت دیں، رنگوں کا پیٹرن بدلیں، اور ایک نئی کہانی سے محظوظ ہوں۔

گو وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اکثریت ایسا نہیں کرے گی، انٹرنیٹ پر موجود تبصرے، تجزیے پڑھ کر اس کی کرونیولوجیکل ترتیب تلاش کر لے گی، اور اسے ہی برتے گی۔ اور یہی ترتیب تخلیق اور تخلیق کاروں ؛ دونوں کے لیے موزوں تھی۔ ہاں، بغاوت کی بھی گنجائش ہے، آپ پیٹرن توڑ دیں۔ الجھیں گے، مگر غم کیا ہے۔ اس فریم ورک میں اس سے بڑا الجھاؤ ہم عشروں پہلے ٹورنٹینو کے شاہ کار ”پلپ فکشن“ میں دیکھ چکے ہیں، جس کا شمار دنیا کی عظیم ترین فلمز میں ہوتا ہے۔ ٹورنٹینو نے تو آپ کی اجازت لیے بغیر ہی آپ کی ذہنی ترتیب کو تلپٹ کر دیا تھا۔ ایسا ہی نولان بھی کیا کرتا ہے۔ یہی ان کی عظمت ہے۔

خیر، تو صاحب، اس سیریز سے جڑی بحث ہی اس کی اصل قوت ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ نیٹ فلکس اور اس سیریز کے تخلیق کار ناظرین کے لیے ایک دل چسپ ڈسکورس تشکیل دینے میں کام یاب رہے، جو اس کی پذیرائی کا اصل راز ہے۔

مگر ٹھہریے، کہیں چاروں کھونٹ سے توجہ بٹورنے والی یہ سیریز ایک بالی وڈ فلم کا چربہ تو نہیں؟

مجھے خبر ہے کہ ہمارے عظیم افکار کے حامل فلم بین (پاکستان میں 90 فی صد فلم بین دانش ورانہ جہت کے حامل ہیں ) بالی وڈ سے متعلق تنقیدی موقوف رکھتے ہیں، جو کبھی کبھی تضحیک آمیز ہوجاتا ہے۔ ویسے یہ غلط بھی نہیں۔ بالی وڈ ایک عرصے سے ہالی وڈ کی کہانیوں، کرداروں اور اسلوب کا چربہ کر رہا ہے، اور یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

مگر جب بات ”کلایڈواسکوپ“ کی ہو، تو کہانی میں مماثلت لائن لگ جاتی ہے۔

کیا آپ کو آٹھ برس قبل 2014 میں ریلیز ہونے والی فرح خان کی ”دی ہیپی نیو ائر“ یاد ہے۔ گو فلم کو ناقدین کی جانب سے زیادہ نہیں سراہا گیا، مگر یہ فرح خان کو دو سو کروڑ کلب میں شامل پہلی خاتون (اور تاحال اکلوتی) ڈائریکٹر بنانے میں کام یاب رہی۔ فلم مناسب ہی تھی، مگر ”کلایڈواسکوپ“ اور ”ہیپی نیو ائر“ میں چند چونکا دینے والے مماثلتیں ملتی ہیں۔ گنتے جائیں :

پہلی مماثلت:

فرح خان کی فلم میں ولن کا کردار جیکی شروف نے ادا کیا ہے، ایک ایسا شخص، جو سیکیورٹی لاکرز کے کاروبار سے جڑا ہے، اور دعوے دار ہے کہ اس جیسی سیکیورٹی کوئی اور کمپنی فراہم نہیں کرسکتی۔ اس سیریز میں یہی کچھ روفس سیوئل کا کردار راجر کر رہا ہے۔ اور تو اور، جیکی شروف ہی کی طرح راجر نے بھی ماضی میں ایک شخص کو دھوکا دے کر بڑی رقم اکٹھی کی ہے۔ دونوں ہی فلمز میں ولن کے دھوکے کا شکار بننے والے شخص کو جیل ہوجاتی ہے، اور ہمارا ولن ترقی کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔

دوسری مماثلت:

اب ہم پروٹیگنسٹ (ہیرو) کی سمت متوجہ ہوتے ہیں، سیریز ہو یا فلم، دونوں ہی میں ہمارا ہیرو تجوری لوٹنے کا منصوبہ بنتا ہے۔ اور دونوں ہی میں اصل مقصد دولت کا حصول نہیں، بلکہ انتقام لینا ہوتا ہے۔

”ہیپی نیو ائر“ میں مرکزی کردار کا ایک رشتے دار (باپ) ولن، یعنی جیکی شروف کے ظلم کا شکار بنتا ہے۔ اور کلایڈواسکوپ میں یہ بجلی مرکزی کردار لیو پاپ کی بیٹی پر گرتی ہے۔ اور اسی وجہ سے دونوں جگہ اصل مدعو دولت نہیں، بلکہ انتقام ہے۔

تیسری مماثلت:

”ہیپی نیو ائر“ اور ”کلایڈواسکوپ“ دونوں ہی میں ڈکیتی کے لیے وہ وقت مقرر کیا جاتا ہے، جب سیکیورٹی کمپنی کی لاکر میں کمپنی کی تاریخ کا سب سے بڑا سرمایہ منتقل ہو رہا ہوتا ہے۔ فلم میں ہیرے، سیریز میں بانڈز۔

چوتھی مماثلت:

فلم اور سیریز، دونوں ہی میں ہیرو چوروں کی ایک ٹیم بناتا ہے۔ اور اتفاق دیکھیں، فرح خان کی فلم کی طرح ”کلایڈو اسکوپ“ کا ہیرو جیان کارلو ایسپوزیٹو بھی جو ٹیم تشکیل دیتا ہے، وہ ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے، باصلاحیت ضرور ہیں، مگر دوسرے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور دونوں ہی بار یہ ٹیم کچھ نئے، کچھ پرانے ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ کچھ دوست، کچھ اجنبی۔

پانچویں مماثلت:

اب ہم چلتے ہیں ڈکیتی کی جانب۔ شاید آپ کو پہلی نظر میں ڈکیتیاں (تجوری کی موجودگی کے باوجود) کچھ مختلف دکھائی دیں، مگر ایک بہت بڑی مماثلت موجود ہے۔ دونوں ہی بار تجوری پوری طرح پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ ”ہیپی نیو ائر“ میں بھی مذکورہ سیریز کی طرح تجوری میں بھرنے والا پانی ڈکیتی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور دونوں ہی بار سیکیورٹی کیمروں میں ایک لوپ پیدا کر دیا جاتا ہے۔

کیا یہ سب محض اتفاقات ہیں؟ ہو سکتا ہے۔ زندگی یوں بھی اتفاقات کا نام ہے۔

اچھا، مماثلتوں کے اس سلسلے کی ایک دل چسپ کڑی اور ہے۔ اگر آپ نے یہ سیریز دیکھی ہے، تو آپ کو علم ہو گا کہ اس میں بانڈز کی چوری ہوتی ہے، مگر یہ بانڈز اس عمارت سے، جہاں چوری ہوئی ہے، آخر باہر کیسے جاتے ہیں؟

یہ چوروں کے ساتھ باہر نہیں جاتے، بلکہ انھیں اگلے روز کوریئر سروس یا ڈاک کے ذریعے عمارت سے منتقل کیا جاتا ہے، یعنی منتقل کرنے والے افراد یک سر لاعلم ہوتے ہیں کہ وہ کیا شے منتقل کر رہے ہیں۔ اس مرحلے پر مجھے فرحان اختر کی فلم ”ڈان ٹو“ یاد آ گئی، جہاں بینک سے چوری کی جانے والی پلیٹیں بینک ہی کے کوریئر سسٹم کے ذریعے عمارت سے باہر منتقل کی جاتی ہیں۔

مجھے علم ہے کہ ہندوستانی سنیما، بالخصوص بالی وڈ کی مسالا فلمز سے متعلق دوستوں کا موقف کیا ہے، اس لیے میں اصرار نہیں کروں گا کہ آپ ان مماثلوں پر غور کریں۔ ممکن ہے، بالی وڈ نے، جو ازل کے چور ہیں، خود انھیں کسی بالی وڈ فلم ہی سے اچکا ہو۔

اب فرح خان پر کون اعتبار کرے، جو ”تیس مار خان“ جیسی بے ہودہ فلم بنا چکی ہے۔

تو آخر میں یہ حقیر فقیر، اپنی تمام تر عاجزی اور انکساری کے ساتھ ”کلایڈو اسکوپ“ کو ایک متاثر کن سیریز قرار دیتے ہوئے اسے دیکھنے کی تجویز دے گا۔ بالخصوص اس سے جڑے ڈسکورس کے لیے۔
یہ چربہ نہیں صاحب، محض اتفاقات ہیں۔ حسین اتفاقات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments