پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور پروپیگنڈا!


دیکھا جائے تو وطن عزیز پاکستان میں اقلیتوں کو عبادت سمیت ہر قسم کی کھلی آزادی ہے۔ وہ مسلمانوں کی طرح بے خوف ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ بھارت سمیت امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں وہاں اقلیتوں کو وہ حقوق آزادی نہی ہے جو پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کسی ایک واقعہ کو جواز بنا کر عالمی سطح پر پروپیگنڈا اس طرح کیا جاتا ہے جیسے یہ ملک اقلیتوں کے لئے جہنم بنا دیا گیا ہو۔

دوسرے ممالک میں مسلمان اقلیتوں سمیت دیگر مذاہب کے ساتھ کیسے رویا اپنایا جاتا ہے ان کو کس حد تک مذہبی آزادی دی جاتی ہے پوری دنیا کا نقشہ آپ کے سامنے ہے۔ بھارت، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روس، فلسطین، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، فرانس، یورپ کے تمام ممالک کو بھلایا نہی جا سکتا۔ جہاں عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے، اسکارف پہننے تک کی اجازت نہی ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر میں دیکھا جائے تو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مسلمان لڑکیاں گھر چھوڑ کر عدالتوں میں پسند کی شادیاں کرتی ہیں۔

اور اگر اکا دکا کوئی غیر مسلم ہندو یا کرسچن لڑکی مسلمان ہو کر پسند کی شادی کرتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ ظلم ہو گیا، ظلم ہو گیا۔ لیکن اسی علاقے میں سینکڑوں مسلمان لڑکیاں گھروں سے باہر نکل آتی ہیں اور عدالت میں والدین کے خلاف جھوٹ بول کر شادی کر لیتی ہیں مگر اس پر کسی اعتراض نہیں کیوں کہ وہ اظہار آزادی ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں اقلیتوں کو زیادہ حقوق دیے گئے ہیں کیونکہ ہمارا اسلام بھی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔

قائد اعظم نے مملکت خداداد کو پہلی سانس لینے سے قبل ہی اس راہ پر ڈال دیا جو کہ ہردم مذہبی رواداری کی جانب بڑھتی رہتی ہے۔ ان کے فرامین اسی مذہب کا عکس لئے ہیں جس مذہب کی بنیاد برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ پاکستان میں ایک مسیحی جج اے آر کارکارئیلنس 1960 کرسی عدل کے سپہ سالار رہ چکے ہیں۔ ایک اور ہندو جج رانا بھگوان داس چیف جسٹس آف پاکستان بنے اور اپنے منصفانہ اقدامات سے پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن بن گئے۔

جبکہ 2009 میں ایک اور مسیحی جمشید رحمت اللہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ سندھ میں اس وقت بھی سینکڑوں جج ٹرائل کورٹ میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو عبادت کرنے کے لئے مکمل آزادی حاصل ہے۔ ملک بھر میں 2652 گرجا گھر ہیں جن میں فی چرچ 664 عیسائیوں کے لئے ہے۔ ملک بھر میں ہندوؤں کے 732 مندر ہیں۔ فی مندر 2734 افراد کے لئے ہے۔ اور 167 گردوارہ ہیں، فی گردوارہ 55 سکھوں کے لئے ہے، آپ برطانیہ کا مثال لے لیں وہاں مسلمان اقلیت کے لئے 2229 مسلمانوں کے لئے صرف ایک مسجد ہے۔

اقلیتوں کو سینیٹ آف پاکستان میں چار مخصوص نشستیں، قومی اسمبلی میں 10، اور صوبائی اسمبلیوں میں الگ نشستیں دی گئی ہیں۔ اقلیتوں کی کل 23 نشستیں ہیں، جن میں بلوچستان میں 3، کے پی کے میں 3، پنجاب میں 8 اور صوبہ سندھ میں 9 نشستیں مخصوص ہیں۔ اقلیتوں کو قومی دھارے میں لاتے ہوئے تعلیم، ملازمتوں اور کاروبار کے مواقع مساوی حقوق فراہم کرنے کے لئے ہیں۔ توہین رسالت کا قانون محض پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہی نہیں بلکہ کم وبیش دنیا کے 55 سے زائد ممالک میں مختلف اشکال میں موجود رہا ہے اور بیشتر میں اب بھی موجود ہے۔

مقدس ہستیوں کا یہ قانون 1927 میں اس وقت برٹش ہند میں نافذ کیا گیا جب غازی علم الدین کی شہادت کے بعد 1880 کے انڈیا ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور اس میں 295 اے کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت کسی بھی مذہب کے بانی کی توہین قابل گرفت قرار دی گئی بعد میں اس میں ترامیم کی جاتی رہیں۔ ملک میں توہین رسالت کے قوانین پر بلا امتیاز عمل ہوتا ہے، 2005 ع سے لے کر اب تک توہین مذہب کے جرم میں 56 افراد کو سزا سنائی گئی ہے۔ جن میں 45 مسلمان، 7 عیسائی، 2 ہندو اور دو قادیانی شامل ہیں۔

مسلمان 80 فیصد، اقلیتیں 20 فیصد شامل ہیں۔ سپریم کورٹ سمیت دیگر اپیلٹ کورٹس میں آسیہ بی بی کا کیس سب کے سامنے ؛ پاپولیشن، اس کے علاوہ شفقت ایمانیول اور شگفتہ کوثر سمیت 5 مسیحی افراد کی بریت اہم مقدمات کا حصہ ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947 والی وہ تقریر ہے جس کی بنیاد پر آج بھی پاکستان کی اقلیتیں گیارہ اگست کو ’اقلیتوں کا دن‘ مناتی ہیں۔ محمد علی جناح نے فرمایا ”آپ سب آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لئے یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لئے۔

پاکستان کی ریاست میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو۔ اقلیتوں کے لئے ہولی، دیوالی، اور ایسٹر تہواروں پر عام تعطیل کی جاتی ہے۔ تاہم کرسمس پر عام عوامی تعطیل ہوتی ہے۔ پولیس رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مکمل طور پر سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ اقلیتوں کے لئے فلاحی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ 8 ستمبر 2022 ع کو کے پی اسمبلی میں بل کی منظوری کے بعد انڈوومنٹ فنڈ بنائے گئے ہیں۔ اقلیتی طلباء کو وظائف کی شرح 25 مارچ 2014 ع سے دگنی کی گئی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اقلیتوں کے لئے سرکاری نوکریوں کی کوٹا میں اوپن میرٹ کے علاوہ 5 فیصد مختص کی گئی ہے۔ اور باقاعدہ عمل بھی ہو رہا ہے۔ پرائمری سطح پر ہی اقلیتوں کے لئے اقلیتی مذاہب تعلیم واحد قومی نصاب این سی متعارف کرایا گیا ہے۔ جبری شادیوں کے شکایات پر وفاقی سطح پر قومی اسمبلی سے ہندو میرج ایکٹ 2017 ع نافذ کیا گیا ہے۔ جو کہ سندھ کے علاوہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ سندھ سرکار نے سندھ ہندو میرج ایکٹ 2016 اور 2018 ع میں ترمیم شدہ منظور کیا گیا ہے۔

ہندو برادری میرج قواعد 2019 ع کے مطابق اپنی شادیاں کرنے میں سہولت فراہم کی جا سکے۔ بھارت گئے ہوئے ہندو بڑی تعداد میں اب وطن واپس لوٹ رہے ہیں، گزشتہ ایک سال کے دوران 133 ہندو واپس آ گئے ہیں۔ جن کو دوبارہ آباد کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے خلاف 5 ہزار سے زائد پاکستانی ہندوں نے احتجاج بھی شروع کیا تھا جو کہ پاکستان کے ساتھ محبت کی اور عقیدت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کرک میں مندر کے تنازع پر سیکیورٹی پر مامور 12 پولیس اہلکاروں کو برطرف اور 92 اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا۔

آگ لگانے کے شبہ میں 117 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اور مندر کی تعمیر سرکار کی جانب سے کرائی گئی تھی۔ حکومت کی جانب سے تاریخی گردوارہ کرتارپور صاحب کوریڈور کا افتتاح، اور سکھ برادری کے لئے کھولنا، بابا گرو نانک کے 550 ویں جنم کی تقریب کا انعقاد بھی شامل ہے، ہندو اور سکھ برادری کے باصلاحیت طلبہ کے لئے بابا گرو نانک اسکالرشپ کا آغاز کیا تھا۔ دنیا بھر کے 60 ہزار سے زائد یاتریوں کی میزبانی کی جاتی ہے۔ پہلی مردم شماری 1951 ء میں ہوئی، جس کے مغربی پاکستان کے نتائج کے مطابق، ملک میں 4 لاکھ، 34 ہزار عیسائی، 3 لاکھ، 69 ہزار شیڈول کاسٹ سے وابستہ افراد اور ایک لاکھ، 62 ہزار اونچی ذات کے ہندو تھے۔

شیڈول کاسٹ کی آبادی کے تعین کے لیے کوئی الگ سے فارم یا خانہ نہیں تھا، بلکہ ماہرین نے اس کا اندازہ مختلف اعداد و شمار کی بنیاد پر لگایا۔ 1961 ء کی مردم شماری میں پاکستان میں 5 لاکھ، 884 عیسائی، 4 لاکھ، 18 ہزار، 11 افراد کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تھا، جب کہ اونچی ذات کے ہندو 2 لاکھ، 3 ہزار، 794 تھے 1972 ء میں ہونے والی مردم شماری میں عیسائیوں کی تعداد 9 لاکھ، 7 ہزار، 861 تھی، شیڈول کاسٹ 6 لاکھ، 3 ہزار، 369 اور اونچی ذات کے ہندو 2 لاکھ، 96 ہزار، 837 تھے۔

1981 ء کی مردم شماری کے فارم میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ختم کر کے انہیں بھی ہندو ڈکلیئر کر دیا گیا۔ جس کے مطابق ملک میں 13 لاکھ، 10 ہزار 426 عیسائی اور 12 لاکھ، 76 ہزار، 116 ہندو موجود تھے۔ 1998 ء میں ہونے والی مردم شماری کے فارم میں شیڈول کاسٹ کا خانہ بحال ہوا۔ نتائج کے مطابق، 20 لاکھ، 92 ہزار 902 عیسائی، 21 لاکھ، 11 ہزار، 217 ہندو اور 3 لاکھ 32 ہزار 343 شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے تھے۔ جب کہ 2017 ء کی مردم شماری کے مذہب کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔

ہمارے ملک میں قانون آئین کے ساتھ اسلام شریعت بھی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا، انا احق من اوفی بذمتھ۔“ غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔ جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے۔

دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودان باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے o ’(‘ القرآن، البقرة، 2 : 256 ) (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے o ”(القرآن، الکافرون، 109 : 6 ) اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments