کشمیر، جونا گڑھ، حیدر آباد اور انڈیا کے توسیع پسندانہ عزائم


یہ کہنا بے جا نہیں کہ تقسیم برصغیر کے فوری بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنے سیاسی مسائل کو ہٹ دھرمی اور دھونس پر مبنی سازشوں اور فوجی طاقت کے بل پر اپنے حق میں ناجائز طور پر حل کرنے پر مبنی کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس کی بڑی مثالیں کشمیر، حیدر آباد اور جونا گڑھ مناور کی ریاستوں پہ بھارت کے فوجی قبضے کی کارروائیوں سے ظاہر ہوتی ہیں۔ تقسیم برصغیر کے وقت آل انڈیا مسلم لیگ، کانگرس اور برٹش حکومت نے اس اصول کو تسلیم کیا تھا کہ غیر منقسم ہندوستان میں موجود 562 ریاستیں آزاد رہنے یا پاکستان یا بھارت کے ساتھ اپنے الحاق کا فیصلہ کرنے میں پوری طرح آزاد ہوں گی۔

ریاست حیدر آباد نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ نے اس وقت بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا کہ جس وقت وہ کشمیریوں کے علم آزادی بلند کرنے کی صورتحال میں اپنا اقتدار چھوڑ کر جموں فرار ہو گیا تھا اور یہ الحاق بھی اس بات سے مشروط تھا کہ ریاست جموں وکشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ریاستی عوام کی رائے شماری سے کیا جائے گا۔

ریاست جموں وکشمیر میں اکثریتی مسلمانوں نے ڈوگرہ مہاراجہ سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ کو کشمیر سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا اور ریاست کے ایک بڑے حصے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آزاد کروا لیا۔ بھارت نے پہلے تو اپنی بھرپور فوجی طاقت سے ریاستی عوام کی جنگ آزادی کو کچلنے کی کوشش کی لیکن ناکامی سے دوچار ہونے پر بھارت نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت اور پاکستان کی رضامندی سے یہ قرار دادیں منظور کیں کہ کشمیر کے مسئلے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریاستی عوام کی رائے شماری سے کیا جائے گا۔

ریاست جونا گڑھ گجرات کے کاٹھیاواڑ خطے میں واقع تھی اور ساڑھے تین ہزار کلومیٹر پر مشتمل ریاست کا ایک حصہ بحیرہ عرب سے ملتا تھا۔ ریاست کی آبادی میں ہندو آبادی کی اکثریت تھی جبکہ حکمران مسلمان خاندان تھا۔ نا گڑھ کے نواب محمد مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور 15 ستمبر 1947 کو پاکستان نے سرکاری گزیٹیئر بھی جاری کیا۔ جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کے معاہدے پر کراچی میں گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور جونا گڑھ کے حکمران نواب مہابت خانجی نے دستخط کیے ۔

بھارت نے 15 ستمبر 1947 کو فوج کشی کرتے ہوئے ریاست جونا گڑھ پہ ناجائز قبضہ کر نے کے لئے جونا گڑھ کا محاصرہ کرنے کے بعد 9 نومبر 1947 کو باقاعدہ جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں سخت احتجاج کیا اور انڈیا کے اقدام کو پاکستان اور بین الا اقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے انڈین فورسز ہٹانے سے انکار کیا اور بھارتی فوج کے ذریعے ایک نام نہاد ریفرنڈم کراتے ہوئے جونا گڑھ کو بھارت میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔

پاکستان جنوری 1948 مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا یو این کا موقف ہے کہ پہلے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے اسی تناظر میں جونا گڑھ کا بھی حل نکالا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیر پر استصواب رائے کے ساتھ ساتھ جونا گڑھ مناور پر ریفرنڈم کی قراردادیں منظور کی گئی تھیں۔ جونا گڑھ کا مقدمہ اب تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں موجود ہے۔ جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق پر پاکستان کا عالمی سطح پر یہی موقف قائم ہے کہ جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو چکا ہے اور جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہے۔

اسی تناظر میں پاکستان کے سرکاری نقشے میں بھی جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ جونا گڑھ اور مناودر ہمیشہ سے اس کا حصہ تھے کیونکہ جونا گڑھ کے راجا نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انڈیا نے بزور طاقت اس ریاست پر اپنا قبضہ جما لیا۔ جونا گڑھ اب بھی ایک متنازع علاقہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ اٹھا بھی تھا لیکن بحث کے بعد بھی اس کا تصفیہ نہیں ہو پایا تھا۔

ریاست حیدر آباد 1724 میں قائم ہوئی اور اس کا رقبہ 2 لاکھ 14 ہزار 187 مربع کلومیٹر اور 1941 کی مردم شماری کے مطابق آبادی 1 کروڑ 33 لاکھ 8534 نفوس تھی۔ 1947 میں تقسیم برصغیر کے وقت برٹش حکومت کی طرف سے طے پائے اصول کے مطابق غیر منقسم ہندوستان کی سب سے امیر ریاست حیدر آباد کے حکمران نظام حیدرآباد دکن میر عثمان علی خان آصف جاہ ہفتم نے ریاست کی آزاد اور خودمختار حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 11 جون 1947 کو نظام نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ اس نے پاکستان یا ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان نے حیدرآباد کی خود مختاری کو قبول کیا اور مشتاق احمد خان اس کے سفیر کی حیثیت سے پاکستان میں تعینات ہوئے۔ حیدرآباد نے برطانیہ میں بھی اپنا سفیر مقرر کیا۔

قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کی رات ہی بھارت نے ’آپریشن پولو‘ کے کوڈ نام کے ساتھ حیدر آباد پر فوجی حملہ شروع کر دیا۔ بھارت کے 35 ہزار فوجی اس حملے میں شامل تھے۔ حیدر آباد کی فوج 24 ہزار افراد پر مشتمل تھی جس میں سے صرف 6 ہزار مکمل تربیت یافتہ تھے۔ 21 اگست 1948 کو حیدرآباد کے محکمہ خارجہ کے سکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 ( 2 ) کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر سے درخواست کی کہ وہ سنگین تنازعہ پر غور کریں، جو کہ جب تک حل نہیں ہو جاتا، بین الاقوامی قانون اور انصاف کے مطابق، بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی کو خطرے میں ڈالنے کا امکان ہے۔

13 ستمبر 1948 کو حیدرآباد کے محکمہ خارجہ کے سکریٹری جنرل نے ایک کیبل گرام میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مطلع کیا کہ حیدرآباد پر ہندوستانی افواج کی طرف سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ سلامتی کونسل نے 16 ستمبر کو پیرس میں اس کا نوٹس لیا۔ حیدرآباد کے نمائندے نے سلامتی کونسل سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب VII کے تحت فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بھارت نے سلامتی کونسل میں یہ موقف اختیار کیا کہ ریاست حیدر آباد کے باشندوں کی اکثریت ہندوستان میں شامل ہونا چاہتی ہے۔

حیدرآباد کے نمائندے نے مداخلت کے لیے ہندوستان کے عذر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹینڈ اسٹل معاہدے میں واضح طور پر یہ بات فراہم کی گئی تھی کہ اس میں کوئی بھی چیز ہندوستان کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ داخلی نظم و ضبط کی بحالی میں مدد کے لیے فوج بھیجے۔ معاملہ ابھی سلامتی کونسل میں زیر بحث تھا کہ بھارتی فوج نے 17 ستمبر کو حیدر آباد پر قبضہ کر لیا اور ریاست حیدر آباد کو ناجائز طور پر بھارت میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ بھارتی فوج نے حملے کے دوران ریاست حیدر آباد میں بدترین قتل و غارت گری کی۔ بھارتی وزیر اعظم نے ریاست حیدر آباد میں بھارتی فوج کی قتل و غارت گری کی کارروائیوں کی تحقیقات کے لئے سندر لال کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی لیکن اس کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے اسے چھپا دیا گیا۔

تقریباً 65 سال بعد سندر لال کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج نے ریاست حیدر آباد میں ہزاروں افراد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا اور آگ لگانے، لوٹ مار، قتل عام اور جنسی زیادتیاں کی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے مسلمانوں کے خلاف کی اور زیادتی میں حصہ لیا۔ کئی جگہوں پر فوجیوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لیے ہندووں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

بعض موقعوں پر فوج نے خود مسلمانوں کو قتل کیا کئی دیہات اور قصبوں میں بھارتی فوج نے مسلمان مردوں کو مکانوں سے نکالا اور اور ان کو قتل کیا۔ اس خفیہ سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ہم نے کنوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں ہم دیکھ سکتے تھے۔ سندر لال رپورٹ کے مطابق اس دوران 27 سے 40 ہزار افراد کو قتل کیا گیا۔ عالمی مبصرین کے مطابق 13 سے 18 ستمبر 1948 تک ریاست حیدرآباد میں ہندوستانی افواج اور بلوائی قتل عام میں مصروف رہے اور دو لاکھ افراد کے قتل کے بعد حیدرآباد ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔

یوں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بھارت نے تقسیم بر صغیر کے ساتھ ہی تقسیم ہندوستان کے اصول کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی فوجی طاقت کے ناجائز استعمال سے مختلف ریاستوں پر قبضے کی مہم شروع کر دی اور اس دوران بھارتی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں عام شہریوں کو وحشیانہ طور پر ہلاک کیا۔ بھارتی حکومت کی یہ کارروائیاں کسی اصول کے بجائے دھونس اور ہٹ دھرمی پہ مبنی رہیں۔ جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق غیر مشروط اور قطعی تھا لیکن بھارت نے اس کی صریحا خلاف ورزی کرتے ہوئے عالمی قوانین کی بھی پامالی کی۔

کشمیر کے بارے میں بھارت کا موقف رہا کہ ریاستوں کے حکمران کو حق حاصل ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے الحاق کر لے لیکن جونا گڑھ اور حیدر آباد کی ریاستوں کے بارے میں بھارت نے اس اصول کے بجائے الگ ہی اصول بنا لیا۔ کشمیر کے بارے میں ڈوگرہ حکمران نے اس وقت بھارت سے الحاق کا معاہدہ کیا جب وہ ریاست کشمیر کے حکمرانی سے محروم ہو چکا تھا اور اس الحاق کے مشروط معاہدے میں یہ واضح ہے کہ ریا ست جموں وکشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ریاستی عوام کی رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔

کشمیر کا سنگین سلگتا ہوا مسئلہ آج بھی جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لئے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے اور تمام خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ کے طور پر درپیش معاملہ ہے۔ بھارت اپنی تمام تر سازشوں، بھر پور فوجی دہشت گری کے باوجود کشمیر کے عوام کے جذبہ آزادی کو دبانے میں ناکام ثابت ہوا ہے اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوام متحدہ، عالمی برادری کے سامنے حل طلب معاملہ ہے۔ اسی طرح جونا گڑھ کا معاملہ بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

بھارت کی دھونس اور ہٹ دھرمی پہ مبنی توسیع پسندانہ جارحانہ حکمت عملی کے مزید ثبوت یہ ہیں کہ بھارت نے ”اکھنڈ بھارت ’کی پالیسی کے تحت 1961 میں دادرا، نگر حویلی اور گوا پر قبضہ کر لیا گیا اور اپریل 1975 میں سکم کی ریاست پر بھی قبضہ کر لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارت علانیہ طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے دعوے کرتے ہوئے پاکستان کو بھی قبضے میں لیتے ہوئے‘ اکھنڈ بھارت ’کے اپنے مذموم عزائم کے راستے پر گامزن نظر آتا ہے۔

یہ تمام حقائق اور صورتحال اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالمی برادری بھارت کی اس جارحانہ پالیسی کا سختی سے نوٹس لے، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق حل کرائے، جونا گڑھ کا مسئلہ حل کرائے اور بھارت کی عالمی قوانین کی پامالی کی پالیسی کا تدارک کرے۔ تاریخی واقعات، حقائق یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بھارت صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، انسانیت پر مبنی عالمی اصول اور قوانین کے سامنے بھارت دھونس اور ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور اگر کوئی اس کے سامنے ڈٹ جائے تو وہ فوری طور خود کو امن کا پرچاری قرار دینے لگ جاتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا خوب کہا تھا کہ مکر و فریب میں ہندو کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن اگر ان سے سچائی پر مبنی دو ٹوک بات کی جائے تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور وہ گھبرا جاتا ہے۔ یوں یہ ہمارے لئے بھی بڑا سبق ہے کہ بھارت کے مکروہ عزائم کا کھل کر مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ یہاں اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط و منسلک معاملہ ہے اور پاکستان کشمیر میں بھارتی جارحیت پہ کسی صورت لاتعلق نہیں رہ سکتا، اور پاکستان کا یہی عزم بھارت اور عالمی برادری کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments