مثبت رویہ اختیار کریں – دو دلچسپ قصے


مثبت اور منفی رویے کی نشاندہی کے لیے اکثر اس گلاس کی مثال دی جاتی ہے جو نصف بھرا ہوا ہوتا ہے اور نصف خالی ہوتا ہے۔ مثبت سوچ کے حامل افراد کو آدھا گلاس بھرا ہوا نظر آتا ہے جب کہ وہی گلاس منفی سوچ رکھنے والوں کو آدھا خالی دکھتا ہے۔ گلاس ایک ہی ہے، اس کی طرف دیکھنے کے دو مختلف انداز اور رویے ہیں۔ دیکھنے کے دو مختلف انداز سے دو مختلف شخصیت کی پہچان ہوتی ہے۔ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی آپ ہمیشہ یہی دو انداز اور رویہ اختیار کرتے ہیں۔

مثبت رویہ صحت مند سوچ سے ترقی پاتا ہے اور منفی رویے کو شکوک و شبہات اور علمی فقدان سے تقویت ملتی ہے۔ آپ کا مثبت رویہ آپ کے رجائیت پسند ہونے کی علامت ہوتی ہے اور منفی رویہ آپ کے قنوطیت پسند ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ کسی معاملے میں مثبت رویہ اختیار کرنے سے اس کے خوش کن نتائج سامنے آتے ہیں۔ منفی رویہ اپنانے سے ایک خراب صورتحال کے مزید خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مثبت رویہ کے حامل افراد خراب صورتحال میں بھی مطمئن رہتے ہیں اور اس کے بہتر ہونے کی امید رکھتے ہیں۔

مثبت سوچ مسائل میں مواقع تلاش کرنے کا ہنر سکھاتی ہے اور منفی خیال مسائل سے پریشان ہونا سکھاتی ہے۔ ایک رویہ شخصیت کی تعمیر کے وسائل مہیا کرتا ہے اور دوسرا شخصیت کی تخریب کا سامان فراہم کرتا ہے۔ ذیل میں مثبت اور منفی رویے کی اہمیت کو ہم دو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مثال تھامس الوا ایڈیسن کی ماں کا اس کے بیٹے کے تعلق سے ہے اور دوسری مثال سوامی ویویک آنند کا ان کے ایک یہودی دوست کے حوالے سے ہے۔

تھامس الوا ایڈیسن امریکہ کا سب سے بڑا سائنسدان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے بچپن کا ایک واقعہ ہے جو بڑا دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ اس کی ماں نے اس کا داخلہ ایک اچھے اسکول میں کرایا تاکہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن سکے۔ کچھ دنوں تک وہ پڑھتا رہا۔ ایک دن اسکول کے پرنسپل نے ایڈیسن کو آفس میں بلایا اور اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھماتے ہوئے کہا کہ اسے تم اپنی ماں کو دے دینا۔ وہ گھر آیا اور کاغذ کا وہ ٹکڑا اپنی ماں کو دے دیا۔

اس کی ماں کاغذ کے اس ٹکڑے پر لکھی عبارت پڑھ کر زار و قطار رونے لگی۔ تھامس، جو ابھی بچہ تھا، گھبرا گیا۔ اس نے اپنی ماں کو چپ کراتے ہوئے پوچھا کہ ماں اس میں ایسی کون سی بات لکھی ہے جسے پڑھ کر آپ رونے لگیں۔ اس کی ماں نے کہا کہ بیٹا اس میں لکھا ہے۔ ”آپ کا لڑکا بہت ذہین ہے۔ یہ میرے اسکول کے معیار سے اوپر ہے۔ ہمارے پاس اس کی تعلیم و تربیت کے لیے قابل اساتذہ نہیں ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ اسے خود پڑھائیں۔“

ایڈیسن کو اس کی ماں نے پڑھایا اور خوب دل سے پڑھایا۔ وہ آگے چل کر دنیا کا عظیم سائنسدان بنا۔ اس نے برقی بلب، فونوگراف اور متحرک فوٹو کیمرہ وغیرہ ایجاد کیے۔ آج ہم رات کی تاریکی میں برقی بلب کی روشنی میں اسی کی بدولت پڑھتے ہیں۔ بلاشبہ وہ دنیا کے چند اہم سائنسدانوں میں سے ایک ہے۔ سائنسدان کی حیثیت سے مشہور ہو جانے کے بعد کا واقعہ ہے۔ ایک دن وہ اپنے گھر کی چیزوں کو الٹ پلٹ رہا تھا کہ ایک بکسے کے نیچے اس کو وہی کاغذ کا ٹکڑا ملا جو اس کے پرنسپل نے اسکول کے زمانے میں اس کی ماں کے لیے دیا تھا۔ جب اس کی نظر اس میں لکھی عبارت پر پڑی تو وہ گھنٹوں تک رویا۔ اس خط میں لکھا تھا:

Your son is addled. We would not let him come to school any more

یعنی آپ کا بچہ دماغی طور پر کمزور ہے۔ ہم اسے اسکول آنے کی مزید اجازت نہیں دے سکتے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں جو کچھ لکھا وہ کچھ اس طرح ہے :

Thomas Alva Edison was a an addled child that, by a hero mother, became the genius of the century

یعنی تھامس الوا ایڈیسن ایک دماغی طور پر کمزور بچہ تھا جسے اس کی ذہین ماں نے صدی کا ذہین انسان بنا دیا۔

اگر ایڈیسن کی ماں منفی سوچ کی حامل ہوتی تو یہ ممکن تھا کہ آج بھی پوری دنیا سورج کے غروب ہوتے ہی تاریکی میں ڈوب جاتی۔ ایک مثبت سوچ اور فکر صرف آپ کی زندگی میں نہیں بلکہ آپ کے آس پاس کے لوگوں کی زندگی میں بھی روشنی لا سکتی ہے۔ ایک پر امید انسان نیچے سے اوپر اٹھ سکتا ہے، تاریکی میں روشنی تلاش کر سکتا ہے اور ناکامی کے دنوں میں کامیابی کے خواب دیکھ سکتا ہے۔ اگر آپ مثبت سوچ کے مالک ہیں تو خراب صورتحال میں بھی اپنی کامیابی کا تصور کر سکتے ہیں۔

مثبت ذہن کا آدمی خرابی میں بھی اچھائی کا پہلو ڈھونڈ لیتا ہے۔ اس حقیقت کو ایک اور واقعہ سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ سوامی ویویک آنند کو ان کے ایک یہودی دوست نے اپنے گھر پر دعوت دی۔ انہیں ایک ایسے کمرہ میں بٹھایا جہاں ایک ٹیبل پر مختلف مذاہب کی مقدس کتابیں ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہوئی تھیں۔ کتابوں کی ترتیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے یہودی دوست نے کہا کہ سوامی جی اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔

سوامی جی نے دیکھا کہ ہندو دھرم کی کتاب سب سے نیچے رکھی ہوئی ہے، جب کہ بائبل سب سے اوپر ہے۔ ان کے دوست نے یہ حرکت در اصل سوامی جی اور ان کی دھارمک کتاب کی تذلیل کرنے کی غرض سے کی تھی۔ یہ صورت حال بظاہر ناخوشگوار معلوم ہوتی ہے اور اس پر منفی رد عمل کا اظہار بعید از قیاس نہیں۔ مگر سوامی جی نے اس پر جس رد عمل کا اظہار کیا وہ مثبت رویہ کے حامل افراد سے بالکل متوقع ہے۔ سوامی جی نے اپنے دوست کے سوال کے جواب میں کہا۔

”The foundation is really good۔“
یعنی اس کی بنیاد واقعی میں بہت اچھی ہے۔ ان کا دوست یہ جواب سن کر شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ جو چیز بظاہر غلط نظر آ رہی تھی اس میں سوامی جی نے مثبت سوچ رکھنے کی بنا پر ایک اچھا پہلو تلاش کر لیا۔ انہوں نے اپنے دوست کو جواب بھی دے دیا، اپنی مقدس کتاب کی عظمت کو ثابت بھی کر دیا اور دونوں کے درمیان کوئی تلخی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ یہاں ایک منفی سوچ کے حامل انسان کا ردعمل ایسا ہوتا کہ وہ اپنے دوست کو دشمن بنا لیتا اور اپنی مذہبی کتاب کی عظمت کو بھی منطقی طور ثابت نہ کر پاتا۔ مثبت رویہ میں آپ کا ردعمل تعمیری ہوتا ہے اور منفی رویہ میں آپ کا رد عمل تخریبی ہوتا ہے۔

ایڈیسن کی ماں منفی سوچ کی حامل ہوتی تو وہ اپنے بچے کو پرنسپل کا خط پڑھنے کے بعد کسی کام میں لگا دیتی اور نتیجتاً دنیا ایک عظیم سائنسدان سے محروم ہو جاتی۔ کسی معاملے میں منفی رویہ اختیار کرنے سے آپ ہمیشہ غلط اقدامات اٹھاتے ہیں اور غلط اقدامات کے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ مثبت فکر میں اتنی طاقت ہے کہ وہ دنیا کو ایک سائنسدان دیتی ہے۔ مثبت ردعمل سے آپ کے دشمن آپ کے دوست بن سکتے اور منفی ردعمل سے آپ کے دوست آپ کے دشمن ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).