دعا زہرہ کیس اور لڑکیوں کے حوالے سے ہماری معاشرتی پیچیدگیاں


آج سے کوئی سات مہینے قبل، اپریل 2022 میں ایک ٹین ایج لڑکی کراچی میں اپنے گھر سے غائب ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین سخت پریشانی میں پولیس کے پاس بچی کے گم یا اغوا ہونے کی رپورٹ درج کراتے ہیں۔ اور اس کے بعد افواہوں، اور غلط فیصلوں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ بچی کی عمر چودہ سال ہے، نہیں سولہ سال ہے، نہیں اٹھارہ برس ہے۔ بچی اغوا ہوئی ہے نہیں بچی نے شادی کی ہے۔ شادی ہو سکتی ہے، نہیں شادی نہیں ہو سکتی۔ ایسا بھی ہوا کہ والدین عدالت میں دھاڑیں مار کر روتے رہ گئے اور عدالت نے انہیں اپنی بیٹی سے ملنے تک کا موقع نہ دیا۔ کسی زندہ معاشرے کے لیے جس میں بچوں کے حقوق کی اہمیت اور ان سے آگہی ہو، یہ کیس مشکل تھا نہ ہی پیچیدہ۔ بس کچھ سنجیدہ مسائل ہیں جو ہمارے معاشرے کو لاحق ہیں اور ہمارے بچے خاص طور پر لڑکیاں انہیں بھگت رہی ہیں۔

پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک ایٹمی طاقت والا بائیس کروڑ سے زیادہ انسانوں پر مشتمل ملک اس قابل نہیں ہے کہ اپنے بچوں کی پیدائش کے اندراج کو یقینی بنا سکے۔ اگر بچی کی درست عمر کا تعین ہو جاتا تو عدالت کچھ بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتی۔ دعا زہرہ اور اس کے والدین کو سات مہینے یوں خوار نہ ہونا پڑتا۔ ایک طرف تو پیدائش کے اندراج کا کوئی موثر نظام نہیں ہے اور دوسری جانب حکومت کے کسی بھی سرٹیفیکیٹ پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایک ہی بچے کی تاریخ پیدائش کے متعلق کئی دستاویزی ثبوت مل سکتے ہیں اور سب پر الگ الگ معلومات درج ہوتی ہیں۔

دوسرا مسئلہ ہمارے ہاں بچے کی تعریف (یعنی بچہ کس کو کہتے ہیں ) کا واضح نہ ہونا ہے۔ پچھلے تینتیس برسوں سے تقریباً ساری دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اٹھارہ سال تک کی عمر کے تمام لڑکے، لڑکیاں اور ٹرانس جینڈر بچے کہلائیں گے۔ بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ تینتیس برس قبل آیا تھا جس میں بچے کی یہ تعریف دی گئی تھی۔ پاکستان اس معاہدے کی توثیق کرنے والے پہلے بیس ممالک میں سے تھا لیکن صحیح معنوں میں اس کا نفاذ ابھی تک نہیں کر سکے۔ ملا کا گلہ کیا کریں یہاں تو سیاست دان، جج یا اپنے تئیں پڑھے لکھے بیوروکریٹس بھی اس بات کو اہمیت دیتے ہیں نہ سمجھنے کو تیار ہیں۔ ایک بچی کو نو سال کی عمر میں ماہواری شروع ہو جائے تو سبھی اسے بالغ عورت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

لڑکیوں کی بچپن کی شادی کی قبولیت بہت زیادہ ہے۔ بچپن کی شادی کے خلاف بات کرنا خلاف مذہب سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے لڑکی کا نکاح جیسے تیسے ہو جائے اس میں لڑکی کی رضامندی ہو نہ ہو بس اس پر سب بے بس ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بس اب یہ گھر نہ ٹوٹے۔

بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے یعنی یو این سی آر سی کے مطابق مصیبت میں گھرے ہر بچے کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بچے کا بہترین مفاد اہم ترین چیز ہے۔ والدین، کمیونٹی، مذہب، کلچر یا نسل تمام معاملات بعد میں آتے ہیں اور سب سے پہلے بچے کا بہترین مفاد آتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں پر مذہب اور کلچر پہلے آتے ہیں اور بچے کا بہترین مفاد سب سے آخر میں۔

مصیبت میں گھرے بچے کی شناخت یعنی اس کا فوٹو، نام اور پتہ سمیت تمام ایسی چیزوں کو راز میں رکھنا ضروری ہے جن سے بچے کی شناخت ہو سکتی ہے۔ رازداری کی بات سب سے پہلے میڈیا کو سکھانا ضروری ہے۔ باقی بھی تمام اداروں کے لیے سسٹم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بچے کی شناخت کو ظاہر کیے بغیر کیس کو ڈیل کیا جائے اور بچے کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔

عدالت اور پولیس کے ساتھ ساتھ بچوں کے تحفظ کے معاملات پر کام کرنے والے ماہرین جیسے کہ چائلڈ پروٹیکشن آفیسرز کو فیصلوں میں شامل کرنا اور ان کی رائے کو اہمیت دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کیس میں عدالت کا والدین کو دعا زہرہ سے ملنے کی اجازت نہ دینا اور اسے ”خاوند“ کے ساتھ بھیج دینا غلط فیصلہ تھا۔ دعا بھی والدین سے ملنے پر راضی نہ تھی لیکن اس کے انکار کے پیچھے بہت سارے خوف ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں اس کو والدین سے ملوانا اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔

اس کیس میں چائلڈ پروٹیکشن افسر ، اگر ہوتے تو، ان کی رائے بھی جج سے مختلف ہوتی۔ والدین کی دعا زہرہ سے ملاقات بہت اہم تھی۔ اس طرح کے مشکوک کیس میں بچی کو اس کے شوہر یا سسرال کے ساتھ نہیں بھیجنا چاہیے۔ عدالت کو چاہیے کہ لڑکی کو اپنی سرپرستی میں رکھے اور والدین کو بچی سے ملاقات کرنے دے۔ اگر عدالت کو اس میں کوئی خطرہ نظر آئے تو لڑکی اور والدین کی ملاقات سیفٹی پروٹوکول کے تحت بھی کرائی جا سکتی ہے۔

والدین کے ساتھ ساتھ لڑکی کو ماہر نفسیات یا کم از کم چائلڈ کونسلر کے ساتھ ملوانا بھی ضروری تھا۔ والدین اور کونسلر کو معقول وقت دیا جائے تاکہ وہ بچی کے تحفظات کو جان سکیں اور درست طریقے سے اس کی مدد کر سکیں۔ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکی عدالت میں اپنے اغوا کنندگان کے حق میں بولتی ہے اس کی وجہ اغوا کنندگان کی جانب سے دھمکی ہو سکتی ہے کہ اگر تم نے عدالت میں یہ نہ کہا تو ہم تمہارے بہن بھائیوں یا والدین کو قتل کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے لڑکی کو شوہر (یا اغوا کنندگان) سے دور مناسب اور محفوظ وقت ملنا چاہیے تاکہ صورت حال کا درست اندازہ ہو سکے اور ایسے فیصلے پر پہنچا جا سکے جو لڑکی کے بہترین مفاد میں ہو۔

ٹیل پیس: اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کی سات وفاقی اکائیوں میں سے چھ یعنی اسلام آباد، گلگت بلتستان، کشمیر، خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان میں بچوں کے تحفظ کے نئے قوانین پاس کیے گئے ہیں اور ان قوانین کے نفاذ کے لیے متعلقہ سٹاف کی تربیت بھی ہو چکی ہے۔ سب سے بڑا صوبہ پنجاب سب سے پیچھے رہ گیا ہے وہاں بھی کام کسی حد تک شروع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں یونیسیف معاشی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments