افسانہ: سارہ


ہوٹل کی لفٹ سے نکل کر سارنگ گراؤنڈ فلور پر آیا تو اسے کوریڈور میں آتے جاتے لوگوں میں سارہ دکھی۔ برسوں بعد ہوٹل میں یوں اچانک اسے دیکھا تو سارنگ کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، اس نے اپنی دھڑکن کی آواز بلند ہوتی محسوس کی۔ اس دن اسے سمجھ آیا کہ کچھ جذبوں کا خاتمہ دراصل وہم ہوتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم انہیں کب کا کچل چکے ہیں، مار چکے ہیں، لیکن پھر اچانک کسی نہ کسی موڑ پر وہی جذبات کسی تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا جاتے ہیں۔

سارہ :او ہائے! (برسوں بعد بھی اس کے لہجے میں وہی بے تکلفی تھی)
سارنگ : ہیلو!
سارہ : یہاں کیسے؟
سارنگ : ایک میٹنگ کے سلسلے میں آیا تھا۔ اور تم؟
سارہ : اتنی صبح صبح میٹنگ ہے؟
سارنگ : نہیں نہیں! میٹنگ تو کل تھی۔ آج واپسی ہے، اور صبح صبح اٹھنے کی عادت تو پرانی ہے۔
سارہ: جانتی ہوں۔ (اتنی سی اپنائیت بھی جیسے امید باندھنے کے لیے کافی ہوتی ہے )
سارنگ : تم نے بتایا نہیں! تم یہاں کیسے؟

سارہ : کنیکٹنگ فلائٹ تھی اور کسی وجہ سے فلائٹ لیٹ ہے تو۔ سوچا ائر پورٹ پر بور ہونے کے بجائے یہاں آ کر کچھ آرام کر لوں۔

سارنگ : اچھا کیا۔
سارہ : واقعی! کیسے! ؟
سارنگ : اچھا ہی کیا نا! ورنہ کیسے ملاقات ہوتی
سارہ : تم نہیں بدلے۔ (اس نے مسکراتے ہوئے کہا)
سارنگ : بالکل نہیں۔ ویسے میں ناشتہ کرنے جا رہا تھا۔ تم بھی چلو۔
سارہ : اچھا! (لمحہ بھر سوچ کر ) چلو۔
سارنگ : آ جائیں۔
(وہ دونوں ہوٹل سے منسلک ریسٹورانٹ میں چلے گئے )

سارہ : مجھے یقین نہیں آ رہا تم نے ابھی تک شادی نہیں کی! (اس کی حیرت میں شرارت بھی تھی)
سارنگ : تم نے کر کے کیا بگاڑ لیا؟
(سارہ کو اس طرح کے جواب کی بالکل امید نہ تھی اور سارنگ کو بھی فوراً اپنی حماقت کا احساس ہو گیا)

سارنگ : سوری۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔
سارہ : ارے نہیں۔ تمہاری کوئی بات مجھے ناگوار نہیں گزر سکتی۔ ویسے کچھ غلط بھی نہیں کہا۔
سارنگ : میں طنز نہیں کر رہا تھا۔ (اس کے چہرے پر فکر کے آثار نمایاں تھے )
سارہ : جانتی ہوں۔

سارہ :مجھے لگا تھا تم ماریا سے شادی کر لو گے۔ تم لوگ پہلے بھی ساتھ پڑھتے تھے نا۔ پھر تمہاری بے تکلفی بھی تھی اس کے ساتھ۔ اور پھر وہ تمہارے شہر میں رہتی تھی۔ ہو سکتا ہے دل میں بھی رہنے لگی ہو۔

سارنگ: دل کسی غریب کا گھر تھوڑی ہے! کہ جہاں جو چاہے جب چاہے منہ اٹھا کر چلا آئے۔
سارہ: تم نے بتایا نہیں؟
سارنگ: کیا!
سارہ : یہی کہ تم نے اب تک شادی کیوں نہیں کی
سارنگ: تم نہیں جانتی؟ یا میرے منہ سے سن کر تسلی کرنا چاہتی ہو۔
سارہ : لوگ شاید صحیح کہتے ہیں جوڑیاں آسمانوں پر بنتی ہیں۔

سارنگ : یہ تم کہہ رہی ہو! ”جوڑیاں آسمانوں پر نہیں بنتیں۔ اگر آسمانوں پر بنتی ہوتیں تو کبھی بے جوڑ نہ ہوتیں اور نہ ہی ٹوٹتیں۔ جوڑیاں تو انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ بے جوڑ بھی ہوجاتی ہیں، ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے، کوئی توہین، کچھ خرابی نہیں ہے۔“ یہ تم کہتی تھیں نا؟ تم کب سے ماننے لگی ہو ایسی باتیں! بہت بدل گئی ہو۔

سارہ : ہاں شاید! تم نہیں بدلے۔ خیر مناؤ کہ تم مرد ہو۔ مجھے بدلنا پڑا، مرد نہیں ہوں شاید اس لیے۔
سارنگ: تم تو بہت آزاد رہی ہو! تم کیوں شکایت کرتی ہو؟

سارہ: عورت ہمارے معاشرے میں آزاد کہاں ہوتی ہے؟ اس کی قید کے دائرے مختلف ہوتے ہیں لیکن وہ آزاد ہرگز نہیں ہوتی۔ ابھی تک یہ مرد کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عورت کی رسی کتنی لمبی رکھتا ہے۔ لمبی رسی آزادی کیسے ہو سکتی ہے! ایک کے گلے میں رسی کا ایک سرا ہو اور دوسرے کے ہاتھ میں رسی کا دوسرا سرا ہو تو ان دونوں کے برابر بیٹھنے سے برابری نہیں ہوتی۔

سارنگ : انکل کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ (اسے بخوبی اندازہ تھا کہ ان دنوں رسی کا دوسرا سرا کس کے ہاتھ میں تھا) ان کے انتقال کی خبر مجھے بہت دیر سے ملی۔ اور تمہاری شادی کے بعد کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔

(وہ کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ سارنگ سوچ میں پڑ گیا ”ہمارے درمیاں اتنی خاموشی کبھی نہیں رہی۔ میری بات اور ہے میں تو ہمیشہ سے کم گو رہا ہوں لیکن سارہ اور خاموشی! حیرت ہے! ہمارے درمیان اتنا فاصلہ بھی کبھی نہیں رہا۔ کبھی کبھی تو وہ میرے اتنا قریب آجاتی کہ اس کے لمس کی مہک اور اس کے روح کی انرجی میرے ہی وجود کا حصہ محسوس ہونے لگتی۔ وہ لمحہ بڑا شاندار ہوتا! جیسے تصوف میں جز کے کل میں سما جانے کا تصور ہوتا ہے۔

بالکل ویسے ہی میرے وجود کا قطرہ جلوائے جاناں کے سمندر میں سما جاتا۔ اور میرا دل رومی کے درویشوں کی طرح بے خودی میں رقص کرنے لگتا۔ میرا ذرہ ذرہ قلندر کے ملنگوں کی طرح دھمال ڈالنے لگتا۔ اور پھر کئی گھنٹوں تک میں اپنی ہستی میں ایسے سکون اور اطمینان کو محسوس کرتا جیسے کوئی مقدس راہوں کا مسافر گھر لوٹنے کے بعد سارے گناہوں سب خطاؤں کے بوجھ سے پاک محسوس کرتا ہو گا۔“

سارنگ: تم سے بچھڑ کر لگتا تھا کہ جیسے آنکھیں ہوتی ہی رونے کے لیے ہیں۔ میرے دوستوں کو لگتا تھا کہ شاید یوں ہی روتے روتے کسی دن میرا دم نکل جائے گا۔ کاش دم نکلنا بھی اتنا ہی آسان ہوتا جتنا آسان تمہارے دل سے نکلنا تھا۔ (اس سے رہا نہ گیا، کرب و رنج کی گھڑیوں کا ذکر کیے بغیر) تم نے بہت زیادتی کی۔

سارہ: میں نے! اور کس کے ساتھ؟
سارنگ : میرے ساتھ۔ اور اپنے ساتھ بھی
سارہ : میرے پاس اختیار کب تھا؟
سارنگ: تم ہمارے لیے کھڑی ہو سکتی تھی! لڑ سکتی تھی۔

سارہ : کس کے ساتھ؟ بابا کے ساتھ! سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا سارنگ! کس کس کے ساتھ لڑتی میں! ؟ میرے خلاف پورا مائنڈ سیٹ کھڑا تھا۔ وہ مائنڈ سیٹ جسے صدیوں سے پال پوس کر کسی دیو کی طرح کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس کے سامنے کچھ برسوں کی ابھی چلنا سیکھنے والی سو کالڈ آزاد عورت کیسے لڑ پاتی!

سارنگ: پھر بھی!

سارہ: میں اپنے خاندان کی ہی نہیں بلکہ برادری کی، اس پورے علاقے کی پہلی لڑکی تھی جسے یونیورسٹی تک پڑھنے کی اجازت ملی تھی۔ میرے کندھوں پر صرف میری ذات کا بوجھ نہیں تھا! بلکہ ان تمام لڑکیوں کا بوجھ بھی تھا جن کے والدین نے میری اس تھوڑی سی آزادی کے دیکھا دیکھی انہیں بھی پڑھنے کا موقع دینے پر رضامندی دکھانا شروع کر دی تھی۔ ان حالات میں ایک حد تک ہماری محبت کے لیے میں لڑ سکتی تھی اور وہاں تک میں بالکل لڑی۔

لیکن اس سے آگے اگر میں جاتی تو اپنی ذات کی حد تک تو شاید آزادی کے مزے لے بھی لیتی لیکن پھر اگلے کئی برسوں تک یہ واقعہ کئی لڑکیوں کی تھوڑی بہت آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا۔ بہت مفاد پرست اور منافق معاشرے کے لوگ ہیں ہم! تم جانتے ہو یہاں ہر کسی کو بیٹا اس لیے چاہیے کہ اس پر دل کھول کر سرمایہ کاری کر سکے، کیونکہ بیٹے نے آگے چل کر اس سرمایہ کاری کے بدلے منافع دینا ہوتا ہے۔ بیٹی تو کسی اور گھر چلی جاتی ہے!

اس لیے اس پر سرمایہ کاری کرنے کا مطلب ہو گا سرمایہ کاری آپ کریں اور منافع کوئی اور بٹورے! اس لیے یہاں بیٹی پر سرمایہ کاری کرنا گھاٹے کا سودا بن جاتا ہے۔ بیٹیوں کو اسی وجہ سے آج بھی یہاں وراثت میں حصہ نہیں ملتا! اور نہ اس کی تعلیم و تربیت پر اتنا پیسا لگایا جاتا ہے۔ یہی کاروباری سوچ بیٹے کی اہمیت بڑھا دیتی ہے۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر بیٹا اپنے پیشے یا پیشن کے چکر میں والدین سے دور جانا چاہے تو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طعنے سننے پڑتے ہیں۔ کیونکہ اس کے پیچھے یہی سوچ چل رہی ہوتی ہے کہ تجھ پر اتنی سرمایہ کاری کی گئی اور اب جب اس کا نفع دینے کا وقت آیا تو تم بھاگنا چاہتے ہو! ایسا تو نہیں ہو سکتا! یہ تو نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بہت سی مجبوریاں تھیں۔ ورنہ میں کبھی۔ کبھی بھی۔

سارنگ : جانتا ہوں
(سارہ گھڑی دیکھتی ہے اور کھڑی ہو جاتی ہے )
سارہ: میری فلائٹ کا وقت ہونے والا ہے۔

سارنگ : کیوں جانا چاہتی ہو؟ (سارہ چونک سی جاتی ہے اور سارنگ کی آنکھوں میں دیکھنے لگتی ہے۔ ) تمہاری بہت سی مجبوریاں تھیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن اب تو کوئی مجبوری نہیں۔ ظہیر سے تمہاری علیحدگی کو بھی کافی وقت ہو چکا ہے۔ اب کیوں جانا چاہتی ہو؟ مجھے پھر سے اکیلا چھوڑ کر۔

ہوٹل کا ملازم : میم! ائرپورٹ کے لیے ٹیکسی بلا لیں؟

(سارنگ نے نظریں پھیر لیں وہ اسے پھر سے دور جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے ماتھے پر گھبراہٹ کا پسینہ اسی طرح چمکنے لگا تھا جیسے کیمپس میں پہلی بار سارہ سے بات کرتے وقت)

سارہ: نہیں۔

(شاید زندگی میں پہلی بار سارنگ کو اس کے منہ سے انکار اچھا لگا تھا۔ سارنگ نے مسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔ سارہ کے چہرے پر بھی وہی اطمینان بھری مسکان تھی جو سارنگ کے دل میں تھی۔ )

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments