’آستین کا ہلکا سا لمس‘ جس سے ایک راہبہ اور راہب کی محبت کی انوکھی کہانی کا آغاز ہوا


یہ لنکاشائر کے قصبے پریسٹن میں زیرِ تربیت راہباؤں کے ایک کمرے میں ایک راہب کی آستین کا ہلکا سے لمس تھا جس نے راہبہ (سسٹر) میری الزبتھ کی زندگی مکمل طور پر تبدیل کر دی۔

خانقاہ کی خاتون مہتمم میری الزبتھ کو راہب رابرٹ سے ملاقات کے لیے لے جا رہی تھیں۔ تاہم راہبہ میری الزبتھ کے ہمراہ مہتمم کو فون سننے کے لیے عین اسی موقع پر بلا لیا گیا، اس لیے مہمان خانے میں راہب رابرٹ اور راہبہ میری الزبتھ دونوں اکیلے رہ گئے۔

’یہ ایک ساتھ ایک کمرے میں موجود رہنے کا ہمارا پہلا موقع تھا۔ ہم ایک میز پر بیٹھے اور جب انھوں (راہب رابرٹ) نے کھانا کھا لیا، اور بڑی راہبہ واپس نہیں آئیں تو مجھے انھیں رخصت کرنے کے لیے باہر تک چھوڑ کر آنا تھا۔‘

میری الزبتھ نے ایک راہبہ کے طور پر ایک متقی، سادہ اور زیادہ تر خاموش زندگی گزاری تھی اور وہ اپنا دن کا بیش تر حصہ اپنے ’حجرے‘ میں گزارتی تھیں۔

جیسے ہی وہ راہب رابرٹ کو دروازے تک لے کر گئیں تو انھوں نے راہب کی آستین کو اتفاقاً چھوا اورانھیں جیسے ایک جھٹکا سا لگا۔

میری الزبتھ نے کہا کہ ’میں نے وہاں صرف ایک خوبصورت جذبہ محسوس کیا، کچھ عجیب سا، اور پھر میں تھوڑی سی شرمندہ ہوئی اور میں نے سوچا کہ اُف میرے خدا کیا انھوں نے بھی ایسا محسوس کیا ہو گا۔‘

’جب میں انھیں دروازے سے رخصت کر رہی تھی تو مجھے یہ سب کچھ بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد راہب رابرٹ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ خانقاہ چھوڑ کر ان سے شادی کے لیے تیار ہو جائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے تھوڑا سا عجیب لگا تھا۔ میں نے نقاب پہنا ہوا تھا، اس لیے انھوں نے کبھی میرے بالوں کا رنگ بھی نہیں دیکھا تھا۔‘

’وہ واقعی میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، میری پرورش کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ انھیں میرا عام نام تک معلوم نہیں تھا۔‘

جب میری الزبتھ خانقاہ میں داخل ہوئی تھیں تو اس وقت ان کی عمر 19 برس تھی۔ اگرچہ ان کے والدین مذہبی نہیں تھے، لیکن ان کی ایک خالہ (جن کا مذہب کی طرف جھکاؤ تھا) نے کچھ اُن میں کچھ ایسا جذبہ بیدار کیا کہ انھوں نے اپنے والد سے اپنے سونے کے کمرے میں عبادت کے لیے ایک جگہ بنانے کو کہا۔

وہ کہتی ہے کہ ’میرے پاس حضرت مریم کا ایک چھوٹا مجسمہ تھا اور جنوب مغربی فرانس کے ایک شہر لورڈس کے کلیسہ کے پانی سے بھری ہوئی ایک چھوٹی سی بوتل تھی۔‘

’دراصل میں نے سوچا کہ یہ وہ بوتل ہے جو مقدس ہے نہ کہ پانی، اس لیے میں اس بوتل میں نل سے بھر بھر کر پانی پیا کرتی تھی۔‘

اپنے آبائی شہر میں وہ رومن کیتھولک گرجا گھروں میں سے ایک میں جاتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم کے لیے اس کے دل میں بے پناہ عقیدت پیدا ہوئی اور بالآخر اس میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اُس کا یہی مقصدِ حیات ہو گا۔

انھوں نے خانقاہ میں ہر ہفتے کے آخر میں اعتکاف میں اس وقت سے بیٹھنا شروع کر دیا تھا جب وہ ابھی نوعمر ہی تھیں، اسی وجہ سے انھوں نے مذہب سے لگاؤ کا شدت سے احساس محسوس کیا تھا۔

وہ فوری طور پر راہبہ بننا چاہتی تھیں مگر اُن کی والدہ جو اپنی بیٹی کے فیصلے سے پریشان تھیں، نے خفیہ طور پر خانقاہ کو لکھا کہ ان کی روانگی میں کچھ مہینوں کے لیے تاخیر کی جائے، تاکہ ان کی بیٹی ایک اور کرسمس گھر پر گزار سکیں۔ اس کے بعد وہ نئے سال کے آغاز میں راہبہ کی باقاعدہ تربیت کے عمل میں شامل ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد سے میں نے ایک دنیا سے الگ زندگی بسر کرنا شروع کر دی تھی۔ ہمارے پاس دن میں دو تفریحی وقفے ہوتے تھے، تقریباً آدھا آدھا گھنٹہ، جب ہم آپس میں بات کر سکتے تھے، ورنہ ہم اپنے حجرے میں اکیلے ہوتے تھے۔‘

ان برسوں میں راہبہ میری الزبتھ نے محسوس کیا کہ ان کے الفاظ کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ان کے پاس دوسری راہباؤں کے ساتھ بات کرنے کے لیے سوائے باغ کے موسم اور فطرت کے کوئی اور موضوع ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہ راہبائیں ان سے کئی کئی سال بڑی تھیں۔ وہ اپنی والدہ کو سال میں صرف چار بار صرف لوہے کی کھڑکی سے دیکھتی تھیں۔

اپنے ماضی کے وقت کو بڑے شوق سے یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’جب میری 21ویں سالگرہ تھی، میرا کیک اور میرے کارڈز سبھی مجھے دروازے کے سوراخ سے دیے گئے تھے۔

تاہم اس دن خانقاہ کے مہمانوں کے کمرے میں یہ سب کچھ ایک بازو کی آستین کے چھونے اور اس کے بعد ایک پیغام سے بدل گیا جس میں پوچھا گیا کہ کیا وہ خانقاہی زندگی سے الگ ہو کر شادی کر لیں گی۔

راہبہ میری الزبتھ نے رابرٹ کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ کیا کرنا ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔

راہب رابرٹ خانقاہ کے دورے کے دوران کبھی کبھار قریبی خانقاہ میں اجتماعی خطاب کرنے آیا کرتے تھے اور لیزا نے ایک لوہے کی کھڑکی کے پیچھے سے ان کے خطاب سُن رکھے تھے۔

پولینڈ کی سرحد کے قریب جرمنی کے شہر سیلیسیا سے متعلق ان کی کہانیاں سنتے ہوئے وہ جوان ہوئی تھیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے زندگی میں محبت کرنے کے بارے میں کچھ باتیں بھی سُنیں تھیں۔ اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ان کہانیوں کا ان پر گہرا اثر پڑا تھا۔

اب اچانک وہ سب کچھ بدل گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نہیں جانتی تھی کہ محبت کرتے ہوئے کیا محسوس ہوتا ہے اور میں نے سوچا کہ دوسری راہبائیں میرے اندرونی جذبات کو میرے چہرے سے پڑھ سکتی ہیں۔ اس لیے میں کافی گھبرا گئی۔‘

راہبہ میری الزبتھ نے آخرکار ہمت کر کے اپنے سے بڑی راہبہ سے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ رابرٹ کے لیے جذبات رکھتی ہیں لیکن اُنھیں جو جواب دیا گیا یہ ناقابلِ یقین تھا۔

وہ کہتی ہے کہ ’میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ کیسے ہوا کیونکہ ہم وہاں ہر وقت اس بڑی راہبہ کی نگرانی میں رہتے تھے۔ میری نگراں راہبہ نے پوچھا کہ میں اتنے کم رابطے کے بعد کیسے پیار کر سکتی ہو۔‘

الزبتھ اس بات پر بھی غور و فکر کرتی تھیں کہ آیا اس محبت کے بعد خدا کے ساتھ ان کا رشتہ بدل جائے گا۔

تاہم ان کی نگراں راہبہ کے ساتھ بات چیت نے انھیں معاملات کو تیز کرنے پر اکسایا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’نگراں راہبہ مجھ سے قدرے ناخوش تھیں اور ان کا رویہ ناگوار تھا، اس لیے میں نے اپنے کپڑے اور ٹوتھ برش ایک بیگ میں ڈالے اور میں وہاں سے باہر چلی گئی، اور پھر میں وہاں سسٹر میری الزبتھ کے طور پر کبھی واپس نہیں گئی۔‘

رابرٹ نے انھیں پیغام دیا تھا کہ وہ ان سے ملنے کے لیے اس شام دوبارہ پریسٹن آنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ اس بار قریبی پب میں مشورے کے لیے وہ ایک کارملی خانقاہ میں ایک دوست سے ملنے آ رہے تھے۔

وہ پہلے شخص تھے جن پر انھوں نے اپنی اور راہبہ میری الزبتھ کی محبت کا راز بتانے کے لیے بھروسہ کیا تھا۔ لیزا نے اندازہ لگایا کہ وہ سڑک پر تقریباً ایک میل کے فاصلے پر بلیک بُل پب میں ملیں گے، لہٰذا انھوں نے وہیں جانے کا فیصلہ کیا۔

تاہم بجائے اس کے کہ یہ ان کے لیے ایک خوشگوار لمحہ ہوتا، نومبر 2015 کی اس رات نے انھیں ایک گہرے مسئلے میں الجھا دیا تھا۔

وہ ایک لمحاتی خودکشی کے خیال کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’بارش برس رہی تھی جب میں گارسٹانگ روڈ پر چل رہی تھی۔ سامنے سے روشن ہیڈلائٹس کے ساتھ بہت زیادہ ٹریفک میری آنکھوں کو چُندھیا رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ ’میں بس اسے (زندگی کو) ختم کر سکتی ہوں۔‘

’میں نے سوچا کہ مجھے خود کو روکنا ہو گا اور رابرٹ اپنی زندگی میرے بغیر بھی بسر کر سکتا ہے لیکن میں نے یہ بھی سوچا کہ کیا اس نے شادی کرنے کے بارے میں جو کہا تھا کیا وہ واقعی ایسا ہی چاہتا تھا۔‘

تاہم لیزا (راہبہ الزبتھ) چلتی رہیں اور پھر جمعہ کی رات وہ بلیک بُل (پب) کے باہر بغیر کوٹ کے بھیگتے ہوئے کھڑی تھیں۔ انھوں نے اندر جانے کی ہمت تب ہی پیدا کی جب انھوں نے ایک کھلے دروازے سے راہب کو اندر بیٹھے دیکھا۔

رابرٹ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے الزبتھ کو دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن رُک گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اصل میں خوشی سے نہیں بلکہ خوف سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے، کیونکہ میں اس وقت جانتا تھا کہ مجھے مکمل طور پر لیزا کے لیے ذہنی طور پر موجود ہونا ہے لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ ہم عملی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

رابرٹ اس وقت تک 13 سالوں سے کارملائیٹ سلسلے میں بڑے راہب تھے۔ وہ ایک مفکر تھے، بہت پڑھے لکھے تھے اور ایک عالمِ دین بھی تھے جو خانقاہی زندگی میں مقصدِ حیات کی تلاش میں آئے تھے۔

رابرٹ کا کہنا ہے کہ ’میں کارملائیٹ خانقاہی سلسلے کے بارے میں پہلے زیادہ نہیں جانتا تھا اور نہ ہی میں نے راہب بننے پر غور کیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے نے انھیں سکھایا گیا تھا کہ کس طرح اندھیرے، مشکلات اور بحرانوں کو اس مقام تک قبول کرنا چاہیے جہاں تک وہ خود کو مطمئن محسوس کریں۔ تاہم لیزا کے ساتھ ملاقات، جسے وہ بمشکل اس وقت راہبہ (سسٹر) میری الزبتھ کے طور پر جانتے تھے نے ان کی زندگی کو بدل ڈالا تھا۔

رابرٹ کہتے ہیں کہ ’میری آستین پر لیزا کے اس لمس نے ایک تبدیلی کا آغاز کیا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنے دل میں اس جذبے کو آہستہ آہستہ کچھ بڑھتا ہوا محسوس کیا تو اُس وقت مجھے ایسا نہیں لگتا تھا کہ میں کبھی اس مقام پر پہنچ جاؤں گا جہاں میں یہ محسوس کروں گا کہ میں محبت میں پاگل ہو گیا ہوں، کیونکہ ایک راہب یا راہبہ بننے کے دوران وہ آپ کو سکھاتے ہیں کہ محبت جیسے جذبات سے کیسے نمٹا جائے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ لیزا (راہبہ الزبتھ) کو شادی کا پیغام بھیجنے کا مطلب یہ تھا کہ کیا وہ شادی کر سکتی ہیں، یہ تقریباً ان کا اپنے آپ سے ایک فکری جھگڑا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب وہ پب میں آئیں تو میں خوفزدہ تھا لیکن میرا خوف مذہبی یا روحانی نہیں تھا، یہ خالصتاً اس بات پر منحصر تھا کہ میں 53 سال کی عمر میں نئی ​​زندگی کیسے شروع کروں گا۔‘

یہ تبدیلی مشکل تھی، خاص طور پر شروع میں۔ لیزا کو کرسمس سے عین پہلے ایک لمحہ یاد آتا ہے، جب دونوں نے اپنی خانقاہی زندگی چھوڑ دی تھی۔

لیزا کہتی ہیں کہ ’میں نے رابرٹ کی طرف دیکھا اور وہ پریشان تھے اور رو رہے تھے۔ اس وقت ہم دونوں ذہنی طور پر بہت زیادہ بے بسی محسوس کر رہے تھے اور ایسا لگا کہ ہمیں رومیو اور جولیٹ کی طرح کچھ کر لینا چاہیے اور زندگی ختم کر لینی چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت مشکل تھا کیونکہ ہم دونوں خود کو بہت تنہا اور الگ تھلگ محسوس کرتے تھے اور ہمیں آگے جانے کا راستہ نظر نہیں آتا تھا لیکن ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اس مشکل مرحلے سے گزر گئے۔‘

وہ ایک جاب سینٹر میں اس لمحے کو بیان کرتے ہیں جب وہ دونوں اس وقت رو پڑے جب ان کی اُس تعلیم و مہارت کے بارے میں پوچھا گیا جو وہ نئی ملازمت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ایک اور وقت وہ تھا جب وہ پریسٹن سے یارکشائر جا رہے تھے۔

رابرٹ کہتے ہیں کہ ’میں نے پولش زبان میں راہباؤں کے بارے میں ایک کتاب منگوائی تھی جنھوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر خانقاہی زندگی ترک کر دی تھی۔ میں نے اسے کار میں لیزا کے لیے پڑھا اور ترجمہ کیا لیکن اسے موٹروے پر گاڑی رکوانی پڑی۔ ہم دونوں رونا چاہتے تھے کیونکہ اس کتاب کی کہانیاں جذباتی تھیں اور ہم سے تعلق رکھتی تھیں۔‘

ان کا اپنے ایمان سے جڑے رہنے نے انھیں قلبی سکون دیا تھا اور یہی وہ چیز تھی جو انھیں رہبانیت کی زندگی کی جانب لے گئی تھی۔

لیزا کہتی ہیں کہ ’آپ کی ساری مذہبی زندگی کے دوران آپ کو بتایا گیا تھا کہ آپ کا دل تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ خدا کے لیے وقف ہے۔ اچانک مجھے ایسا لگا جیسے میرا دل رابرٹ کے تھام لینے کے لیے بڑا ہو گیا ہے، لیکن میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میرے دل نے میرے پاس موجود تمام چیزوں کو بھی تھام لیا۔ میں خدا کے بارے میں کچھ مختلف محسوس نہیں کرتی، اور یہ میرے لیے اطمینان بخش تھا۔‘

اگرچہ رابرٹ ابتدا میں رومن کیتھولک مرکز کے ایک خط سے پریشان ہوئے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ اب کارملائیٹ سلسلے کے رکن نہیں رہے، تاہم اُنھیں جلد ہی چرچ آف انگلینڈ میں قبول کر لیا گیا۔

ان دونوں نے شادی کر لی، اور اب شمالی یارکشائر کے گاؤں ہٹن رڈبی میں دونوں ایک ہی گھر میں اکٹھے رہتے ہیں۔ یہاں رابرٹ کو مقامی چرچ کے حلقے کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ وہ اب بھی خانقاہ سے باہر کی زندگی سے جڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

لیزا 24 سال سے عام زندگی سے الگ تھلگ تھیں اور اس سے پہلے وہ رابرٹ کی تعلیمی زندگی کے ماحول سے آگاہ نہیں تھیں۔

وہ بیرونی دنیا کے بارے میں ایک مبصر کی طرح بات کرتی ہیں۔ خانقاہ میں زندگی گزارنے کے بعد اب وہ صرف اس بات پر کام کر رہی ہیں کہ ان کے لیے کون سے ہیئر سٹائل اور کپڑے بہترین ہوں گے۔

وہ دونوں اب بھی خانقاہی زندگی کے کچھ پہلوؤں کے لیے ترستے ہیں۔ لیزا کہتی ہیں کہ ’ہم خاموشی اور تنہائی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اسے اب دنیا کے کاروبار میں تلاش کرنا مشکل ہے، آپ بہت سی مختلف سمتوں میں کھنچے جاتے ہیں، اس لیے میرے اور رابرٹ کے لیے مرکز اور بنیاد پر رہنا ایک مستقل جدوجہد ہے۔‘  

لیکن انھوں نے ایک حل ڈھونڈ لیا ہے جو ان کے لیے کام کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اکثر سوچتی ہوں کہ میں یہاں رابرٹ کے ساتھ ایک خانقاہ میں رہتی ہوں، جیسے دو کارملائیٹس جہاں ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ خدا کے لیے مخصوص ہے۔

’ہم اپنے آپ کو عبادت میں غرق کر لیتے ہیں لیکن محبت آپ کے ہر کام کو ایک خیر و برکت کا ذریعہ بنا سکتی ہے اور مجھے احساس ہے کہ واقعی میرے لیے کچھ بھی نہیں بدلا۔‘

لیزا کا کہنا ہے کہ وہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اس شادی میں وہ تین ارکان ہیں۔

’حضرت عیسیٰ ہمارے مرکز میں ہیں اور ہر چیز سے پہلے آتے ہیں۔ اگر ہم انھیں اپنی اس زندگی سے نکال دیتے تو میرے خیال میں یہ واقعی دیر تک برقرار نہ رہتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments