صاحب منزل


کسی کو خراج تحسین پیش کرنا بھی عدل کے زمرے میں آتا ہے، اور ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ملزم کو مجرم کہنا ظلم ہے۔ اسی طرح خراج تحسین میں بھی حسن معاملہ تب ہی ممکن ہے جب تک ہم وسیع تناظر میں کسی شخص کو سمجھیں، پڑھیں اور اس سے تعلق قائم کریں۔ یہ بھی شرط نہیں کہ اس میں معانقہ ہو یا نا ہو۔ بے شک دنیا کے بہترین تعلق کی امثال میں ہم ان سے روحانی app سے جڑے رہتے ہیں مالک کائنات کی ذرے ذرے سے شناسائی ہے۔ انسان کا پاکیزہ و معطر چہروں سے تعلق ”ذات“ سے نکل کر زبان اور اس کے خیال تک بھی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر اکرام چغتائی عزائم اور اعمال کے سفر پر عام انسانوں جیسے ہی نظر آتے تھے۔ یونیورسٹی سے ایم ایس سی کے بعد جب میں نے اردو سائنس بورڈ جوائن کیا تو اس وقت چغتائی خیالات کی ترتیب سے آزاد ہو رہے تھے۔ تب وہ اقبال کے خواب کی تعبیر کو ڈھونڈنے، منزلوں کے نشان خوابوں میں نہیں حقیقت میں تلاش کرنے جرمنی کے سفر پر تھے۔ وہ رابطوں سے جڑ نے کی کوشش میں تھے ؛ یہ رابطے علم سے علم کے رابطے تھے، یہ سفر جب زندگی کے پل سے گزرتا ہے تو بے شمار اس پل پر ہی منزلیں ڈھونڈنے میں اصل مقصد سے دور ہو جاتے ہیں ؛ چغتائی نے ماضی میں سفر کیا ان مسافروں کے مقاصد سے رجوع کیا، ان کو روشنی دکھائی، ان کو بیدار کیا، وہ ان کو حال میں منتقل کرنے کے ارادے اور منصوبے ان کے پیش نظر تھے۔

ہمارا دفتر ایک عام سرکاری دفتر سے ہٹ کر علمی و ادبی مرکز تھا؛جہاں علم کے جانثار اپنے اپنے دامن سے گلشن علمیت کو چشم رحمت دیوان بنانے کے لئے دن رات محنت کرتے۔ بیشتر افراد سرد مزاج تھے، حق یہ ہے کہ مجھ جیسی شوخ و چنچل مزاج نے اس ماحول میں رہ کر جلد ہی طلوع راز دریافت یوں کیا کہ ہم ان کے مزاج اور وہ ہمارے مزاج میں ڈھلنے لگے، اور یوں علم اسلوب و بیان نئے زاویوں میں ڈھلنے لگا۔ جب وہ جرمنی سے واپس لوٹے تو ان کی ذہنی افق میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ دفتر کے ماحول کی حسن ترتیب میں تبدیلی نے ان کو عرفان الہی کا مظہر دیا۔

امر واقعہ یہ ہوا کہ بظاہر چغتائی علم کے ٹوٹے ہوئے دھاگوں کو جوڑنے لگے مگر وہ خود ان دھاگوں میں ایک نیا اضافہ ہو گا ؛ اس کا احساس داستان بننے کے بعد سنانے والے کو ہوا۔ ان کے سفر میں ایک جانب واصف علی واصف کا سایہ رہا تو دوسری جانب ”I am wind you are fire“ کی مصنفہ این میری شمل رابطے میں تھی۔

این میری شمل کے اندر درد رومی کی سرشاری کا عالم یہ تھا کہ پاکستان آنے سے قبل جب وہ انقرہ میں تھیں تو زیادہ وقت کونیہ میں گزارتیں ؛یوں 1980 میں یہ رابطے The Triumphal Sun کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ متلاشی انسان مختلف راہوں سے گزرتے گزرتے نئی منزلوں اور نہروں کا مسافر بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ رومی سے شمل، اور شمل سے چغتائی تک محدود نہیں رہتا ؛یہ عمل ”Reine To Indus“ کی طرح پورے ماحول کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے یوں خرد اور جیون مل کر رب کی آگاہی حاصل کرتے کرتے انسانوں کے درد، حقوق اور انسانیت کی رضائے الہی کا سفر جاری رہتا ہے۔ مثلث بنتی رہے تو رویے عاجزانہ رہتے ہیں، ماحول میں خوشحالی اور سفر آسانی سے دوچار رہتا ہے۔

فیثا غورث زندگی کے بنیادی عناصر پانی آگ، ہوا اور مٹی سے A+B=Cسے منکشف ہوا۔ آئن سٹائن نے E=mc 2 کا فارمولا دیا اور سٹیفن ہاکنگز نے سٹرنگ تھیوری سے بلیک ہول تھیوری کا سفر جاری رکھا۔

نیکی اور عمل میں فرق یوں ہے جیسے لکھنا عمل ہے اور ضمیر کی آواز شامل ہو تو سچ ہے، نیکی ہے ؛بصورت دیگر الفاظ سے شوروغل بنتا ہے۔ سب تدبیریں بے کار، سب وفائیں بے وفا اور حقیقت کے سائے بھی بے ضمیر دلوں کی مانند ماند پڑ جاتے ہیں۔ جلوے ہی جلوے انتہائی قرب میں بھی بے بصر کو نہیں دور بیٹھے صاحب عشق منتظر کو نور بخشتے ہیں۔ علم والوں سے علم سیکھنے سے بڑھ کر اگر اس دریافت اور جنون کی سطح کو چھو لیں جس سے وہ گزرے تو پھر ایک نہیں بے شمار کائناتوں تک رسائی ہے۔

یوں Universe سے انسان multiverse کا مسافر بنتا ہے۔ ہم جو کچھ ”ہیں“ اس کو سرفرازی سمجھ کر سفر جاری رکھیں تو زمین سے گفتگو رہتی ہے۔ زمین سے محبت کرنے میں انسانوں میں رب کے مظاہر نظر آنے لگیں تو ”جز“ بنتا ہے۔ تب ہی تو رب سے آغوش مادر اور پھر بے ضمیری کے سفر پر پہنچنے کے لئے برابر کی محنت درکار ہے ؛ یعنی سمجھیں زندگی دینا اور لینا دونوں کو ہمہ وقت ایک ہی کشتی میں سوار کرنا پڑتا ہے۔ نفس کو ماریں تو ضمیر کو زندگی بخشتے ہیں۔ تربیت کی موت، بدبختوں کے لئے جہنم کا باعث بنتی ہے۔

چغتائی صاحب نے اپنے سانسوں کے کھیل میں بے شمار دوستوں کے تخیل و تحیر سے وابستگی نبھانے کی کوشش کی۔ آشنائی کے اس سفر میں ماضی اور حال کے بے شمار طبقۂ فکرو خیال کے رازوں سے مٹی اور دھول کو صاف کر کے دیکھتے اور دکھاتے رہے۔

ماضی یعنی تاریخ کو زندہ رکھنا ایسے ہی ہے لوگوں کی جہد مسلسل کاوش کا نتیجہ ہوتا ہے۔

تاریخ ماضی کو پڑھنا نہیں دراصل ”تبدیلی کا مطالعہ تاریخ ہے“ ۔ یہ تبدیلی، یہ مطالعہ ہماری نگاہوں میں معتبر ہو تو ہم اس کو زندہ رکھتے ہیں۔ خاک کا انسان فانی مگر اس کا خیال ”ابدی“ ہے، یعنی physical اور Tangible کو موت اور metaphysicalکو ہم کیا زندہ رکھتے ہیں، وہ ہی زندہ رہتی ہے۔

یہ نگاہیں اگر اپنی ذات کے سفر پر جانے کا حوصلہ رکھیں تو مولانا جلال الدین رومی کے نام کا وجود بنتا ہے۔ جو ماضی، حال اور مستقبل کی تاریخ یعنی ”تبدیلی“ کے رازوں کو جان لیتے ہیں۔ خاموشی کو زبان عطا کرنا ممکن ہی تب ہے جب ساکن رازوں کے مفاہیم کو سمجھا جائے۔ وہ جو شوروغل میں آندھی کی طرح اڑنے والی مٹی بن جاتے ہیں ؛ وہ تاریخ میں شامل اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ کسی تبدیلی کا موجب نہیں بنتے۔

چغتائی صاحب کی سوچ میں بے شمار آشنائی کے خزانے گاہے گاہے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جمع ہوتے گئے۔ شعور کی چٹان میں گرم سرد موسموں نے آگ پانی اور ذروں کو خاموش رہنے کا حکم دیا۔ ان کے تحقیقی سفر میں ان کے اپنے فکر و شعور کے مد و جذر کو انہوں نے تسلسل میں ترتیب کو صرف ارادے کا پابند نہیں، قدرت کا بھی پابند رکھا۔ تب ہی زندگی کے تمام مکاتیب فکر ذی جان سے بے جان میں ترتیب اور تسلسل کا کلیہ سرفرازی ء منزل کا باعث بنا ہے۔

مرشد رومی اور مرید ہندی کا تعلق اس شعور کے سفر کا تسلسل ہے ؛ جس میں مثنوی ء رومی اور شکوہ جواب شکوہ کو بڑے اعتماد سے ایک دوسرے کے پہلو با پہلو رکھا جا سکتا ہے۔ مثنوی کے 2666 اشعار کے تعلق سے اقبال اور رومی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ یہ تعلق سلسلہ ءتصوف کی ایک سیریز ہے ؛ یہ نسبت عالمگیر پھیلاؤ کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے ؛ وحدت الوجود کے ارضی شعور کو روحانی انداز میں عقیدوں، مذاہب اور نظریات سے نکل کر دیکھیں تو درویشوں کے رقص ”سماع“ متحرک ذرات کا ایک مجموعہ، محبت کی صدا ہے، محبت کی گونج ہے ؛یہ صدا محبوب کے دل پر وار کرتے کرتے خود اس کا شکار ہو جاتی ہے۔ سب کائناتیں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ رہتے ہوئے ”اس“ کے آگے باندی بنی رہتی ہیں اور یوں وحدت الوجود کا یہ سفر اپنی اپنی اکائیوں کو برقرار رکھتے ہوئے ہمسفر کی تلاش جاری رکھتا ہے جہاں تصوف کے عالمگیر پھیلاؤ کے مسافر ”اہل صدف“ بن جاتے ہیں۔

”لطف نظارۂ قاتل دم بسمل آئے“

طالب اور مطلوب، عاشق اور معشوق کے اصل تعلق کا سفر بندۂ خاکی کے ذرے ذرے میں برابر اور uniform انداز میں پہنچتا ہے ؛بس ہم بے بس انسان تعلق میں وسعتوں اور بے تعلق میں فاصلوں کو ماپتے رہ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال مزار رومی پر کبھی بھی نا جا سکے مگر یہ تعلق محدود سے نکل کر لامحدود تک پہنچ گیا تھا اور وہ ان کے ساتھ روحانی تعلق میں موجود رہے۔

چغتائی کا سفر کچھ ایسا منفرد ہے جہاں خیال اور احساس کی وسعت کے درمیان ایمان کی امانت بھی موجود ہے۔ تب ہی تو Road to Mecca کے خالق ”محمد اسد“ کے لئے A life for dialogue کے سیمپوزیم پر 2011 میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں ”پاکستان اور محمد اسد“ جیسے موضوع پر بات کرنے کو باعث افتخار سمجھا۔

جب بے نیازی کا سفر ہو تو اس میں پلاننگ اور دشواری دونوں کی حیثیت ہوتی ہی نہیں۔ واصف علی واصف کی ”حرف حرف حقیقت“ کے حرف چند میں اکرام چغتائی نے صاف صاف کہہ دیا کہ انسان کو اللہ کے راستے پر جانے سے روکنا نہیں، اس کے لئے راستے ہموار کیے جائیں۔ واصف صاحب کے جانے کے بعد ”حرف حرف حقیقت“ کی اشاعت کا اہتمام ہوا جس میں اکرام چغتائی نے 8، جنوری 1994 کو اس کتاب کے ابتدائے میں اس تخلیق کو ”داستان وصل“ کا درجہ دیا۔

Iqbal and Goethe

کو ایک کشتی میں سوار کرنے میں دیگر کے علاوہ اکرام چغتائی اور ”این میری شمل“ نے مل کر 2000 میں ایک ضخیم کتاب مرتب کی۔ اس میں اگر Bridging of East and West (Iqbal and Goethe) کو پڑھ لیں تو بے شمار ان سوالوں کے جواب مل جائیں گے جو ہمیں لباس، زبان، محسن، معلم یا کسی بھی رنگ کے چوغے پہننے نہیں ملتے۔

زمین کی انٹلیکچوئل تاریخ کو پڑھنا اور سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ زمین کی ارضی صورت میں تبدیلی، رہن سہن یا ثقافت سے نہیں اس فلسفے اور خیال سے رونما ہوتی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ مغرب والے اگر مشرق سے مرعوب رہے تو اس میں ان کی دانش و فکر کے فلسفے کی انفرادیت کا عمل دخل رہا۔

اس طرح ہم تبلیغ کیے بغیر ازخود انسانی تعلق کے ہمہ گیر چراغ کی مانند ادھر اور ادھر جلتے رہتے ہیں۔ جان وولف گوئٹے نے اپنے اور خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی کے درمیان صدیوں کے فاصلوں کے باوجود 1814 میں مل لیا۔ دیوان حافظ کے جرمن ترجمے کو پڑھ کر گوئٹے کے سامنے ایک نئی دنیا کا نقشہ کھلا۔ وہ ایک ایسی صورت بنی جس میں گوئٹے کو اس کی شاعری میں اپنی شاعری اور اپنی روحانی کیفیتوں کا عکس نظر آنے لگا۔ کیسے ممکن ہے کہ مغرب اور مشرق کے مختلف زمانے یوں عکس نمانا ہوں اور سن میں اشتراک کی کوئی شکل نا ہو۔

اس میں این میری شمل لکھتی ہیں کیسے ایک تیسرا شخص ان رویوں کو ملاتے ملاتے
Bridging of East and West —Iqbal and Goethe.
( The Sorrow of the Young Werther)
کیسے گوئٹے کے دیوان میں پیام مشرق کا عکس ہے۔

جاوید نامے میں گوئٹے اس طرح موجود ہے جس طرح گوئٹے کے دیوان میں پیام مشرق اور حافظ کے دیوان میں گوئٹے ہے۔ اس تعلق میں ایک تیسرا شخص جو اس کی نشاندہی کرتا ہے، وہ اس مثلث کو مکمل کرتا ہے جس کو بنانے میں دولت اور محنت سے زیادہ خیال اور احساس شامل ہے۔ہاییڈل برگ میں اقبال جرمن زبان سیکھنے کی غرض سے گے تو ادھر انہیں گوئٹے کو پڑھنے کا بہترین موقع ملا۔ اپنی جرمن استاد فرالین ایماسے روحانی تعلق قائم ہوا۔ اقبال کا یہ تعلق ایما کے نام لکھے خطوط میں اظہار کی صورت میں موجود ہے۔ اقبال کیسے گوئٹے سے ایما اور ایما سے گوئٹے تک پہنچا۔

گوئٹے زندگی کے آخری لمحے تک
More lightکہتا رہا۔
وہ تیسرا شخص، کیسے۔
مولانا جلال الدین رومی۔ حیات و افکار
محمد اسد بندۂ صحرائی۔ خود نوشت سوانح
شاھان اودھ کے کتب خانے
تاریخ مشغلہ
سرسید احمد خان۔ فکر اسلامی کی تعمیر نو
شاہ ولی اللہ
مجموعہ خواجہ حسن نظامی

اور بے شمار تاریخی انٹلیکچوئل کے چہرے دکھاتا رہا ہے۔ اس تیسرے شخص کا نام اکرام چغتائی بھی ہے۔ ہمارے روحانی رابطے، تعلق اور رشتے راہ استقامت میں شوق کے مرید ہوں تو قائم ودائم رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں جذبوں میں لامحدودیت کا چہرہ روشن ہونے لگتا ہے۔ جیسے پودے کی افزائش عمل کے مراحل سے اس کے عزائم، نسل اور مقصد نہیں بدلتے، ہر چند کہ چہرہ، مقام اور ضروریات بدل جاتی ہیں۔ سو چغتائی اپنے عزائم اور مقصد سے جڑے رہے۔

کسی بھی شخص کا سب سے بڑا انعام و اکرام، سب سے بڑا معجزہ، سب سے خوشگوار واقعہ اپنے آپ کو سمجھنے پر ظاہر ہوتا ہے۔ جب کہ کثرت سے مختصر، حسن سے بدنما، امیر سے غریب اور حکمران سے عوام ہونے میں مشکل درپیش نہ ہو تو بے ترتیبی میں موسی کے ہاں فرعون انعام کے چہرے سے پردہ اٹھاتا ہے۔

چغتائی صاحب کے طرز ہائے حیات میں نفسی زندگی سے بغاوت کا اندھا دھندا چہرہ دراصل انہیں منزل کے قریب تر ہونے میں ان کے اندر کے مخلص انسان کو تراشنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان کی دوستیوں کی پوٹلی میں دشمنوں کی لمبی قطار شامل ہوتی ہے۔ دوست اور دشمن وہ خاکی انسان نہیں ؛اس کے باوصف ان کے ضمیر، شعور یعنی Concious کی کارکردگی مراد ہے۔ یہ شرط ہے کہ زندگی اس حالت میں جسم میں روح اور روح کے لئے جسم ہو تو یہ یکجا سفر کرتے ہوئے عمل مظاہر انوار تک رسائی رکھ سکتے ہیں۔

رابطے وہ نہیں جو ہم کریں ؛ دراصل رابطہ وہ ہے کہ وہ ہمیں نا بھولے ؛ یہ راز عمل والوں کا مقدر بنتا ہے۔ ایسی حالت میں خاکی جسم، روحانی کائنات کے مناظر کا جائزہ لے تو ادھر قربت ذات، عالم تخلیق کا رسے عشق انتہا کو پہنچنے کے لئے تیار بیٹھا نظر آتا ہے۔ بے شک عددی سفر کی منزل کے امکانات وحدت کے سفر سے ہی منسوب ہیں۔ اس حالت نور کے سفر میں نفس اور ذات کے شعور کا عرفان بھی متحرک ہو تو پھر ”ون وے ٹکٹ“ لینا مشروط ہے۔

بے قرار دل محبوب کا دم بھرتا ہوا، قرب خدا، دیدار خدا اور بار خدا تک کا سفر اس ہی ”ون وے ٹکٹ“ کو انعام کا لفظ بخشتا ہے۔ حسن انتظار میں نفس فعال کا سفر اس مزمان و مکاں کی قید سے خارج کر دیتا ہے۔ نفس بصیر میں خالق سے رابطہ ہونا دراصل حیات الیہیہ سے براہ راست فیض یاب ہونا ہے۔ علامہ اقبال اس کو خودی کا سفر قرار دیتے ہیں۔ اسرار خودی کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ خودی کی حیثیت اس قطرہ بے مایہ کی طرح نہیں جو سمندر میں جا کر فنا ہو جائے اور اپنی ہستی کو گم کر دے ؛ بلکہ اس قطرے کی ہے جو سمندر میں جا کر گوہر بنے۔ قطرے کی عقیدت میں عمل کے اختیار کا ارادہ مصمم رہے تو وجود اگر ٹوٹ بھی جائے تو محبت کا لفظ اس کے وجود کو بکھرنے نہیں دیتا اور اپنی پہچان برقرار رکھتا ہے۔

” اقبال میں گوئٹے“ ، گوئٹے میں حافظ ”، اقبال میں رومی“ ، اور ”چغتائی میں اقبال“ کو زندہ رکھیں تو سمجھیں کہ ”چشم بینا“ کی فانی دنیا میں سفر لا حاصل سے ”صاحب منزل“ کے مقام تک پہنچ جاتا ہے ۔ خرد کے خزانوں کی کنجیاں لوہے کے تہہ خانوں میں محفوظ نہیں کی جاتیں، اس کے لئے بلبلے سے نازک اور متحرک عاقبت اور عبرت سے بالاتر جذبوں کی حدت درکار ہوتی ہے۔ ان ہی جذبوں کی بدولت ڈاکٹر اکرام چغتائی نے پا جا سراغ زندگی کی داستان کو دہرایا ہے۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments