مسمی ساحر لدھیانوی ملک چھوڑ کر چلا گیا


یہ جون 1948 کا لاہور ہے جب آگ برساتی گرمی میں 27 سال کا ایک دراز قد نوجوان حیرت انگیز طور پر سخت سردیوں کا لباس زیب تن کیے ہوئے جس میں اوورکوٹ، مفلر، ہیٹ اور سیاہ چشمہ شامل ہے۔ انگریزی ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جانے والے جاسوسوں کی مانند لاہور کی ایبٹ روڈ پر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا تیزی سے چلا جا رہا ہے۔ گرمی اپنے پورے جوبن پر ہے، وہ چوٹی سے ایڑی تک پسینے میں تربتر ہے اور وہ اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی اٹیچی بھی تھامے ہوئے ہے۔

یہ نوجوان ایک تانگے میں سوار ہوجاتا ہے، تانگے میں سوار ہونے کے بعد بھی وہ سہما اور گھبرایا ہوا ہے اور خوفزدہ ہو کر بار بار ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد تانگہ اس کی منزل مقصود لاہور کے والٹن ائر پورٹ پر پہنچ جاتا ہے۔ ائر پورٹ پہنچ کر وہ ٹکٹ کی کھڑکی پر دہلی کی پرواز کی بابت معلوم کرتا ہے خوش قسمتی سے اسے پتہ چلتا ہے کہ آدھے گھنٹے بعد دہلی کے لیے ایک پرواز روانہ ہونے والی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سفر کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اس لیے یہ نوجوان لاہور سے دہلی جانے والے ہوائی جہاز میں بلا کسی روک ٹوک کے سوار ہوجاتا ہے اور بالآخر خیرو عافیت کے ساتھ دہلی پہنچ جاتا ہے ۔ یہ نوجوان برصغیر پاک و ہند کا مقبول انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی تھا۔

ساحر لدھیانوی 1948 تک ایک مقبول اور انقلابی شاعر کے طور پر پہچانے جانے لگے تھے۔ اور تمام برصغیر کے مشاعروں میں ان کو بلایا جاتا تھا اور بڑے شوق سے سنا جاتا تھا۔ ساحر کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”تلخیاں 1944“ میں ان کی طالب علمی کے زمانے میں ہی منظر عام پر آ گیا تھا۔ اس مجموعے میں شامل ایک نظم ”تاج محل“ مغل بادشاہ کی تعمیر کے تمسخر کے طور پر لکھی گئی تھی اور صرف اسی ایک نظم نے ساحر کو ہندوستان میں بے پناہ شہرت عطا کر دی تھی۔ ساحر کے تخیل کی پرواز، گہرائی اور گیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب یہ نظم تخلیق کی تھی تو اس وقت تک انھوں نے نہ تاج محل دیکھا تھا اور نہ کبھی وہ آگرہ شہر گئے تھے۔

تقسیم ہند کے وقت ساحر لدھیانوی بمبئی میں تھے لیکن ان کی والدہ ان کے آبائی شہر لدھیانہ مشرقی پنجاب میں تھیں۔ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا لاکھوں مسلمان مارے گئے اور باقی مغربی پنجاب جو پاکستان کا حصہ بن چکا تھا وہاں ہجرت کر گئے۔ ساحر کی والدہ بھی کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ گئیں اور ساحر بھی فوراً لاہور پہنچ گئے اور انہوں نے اپنی ماں کو مہاجر کیمپ میں ڈھونڈ نکالا۔ ساحر اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے ایک دیرینہ دوست اور اس زمانے کی مشہور ادبی شخصیت حمید اختر کے ساتھ ایبٹ روڈ پر واقع ایک متروکہ مکان میں رہائش پذیر ہو گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب نوزائیدہ مملکت پاکستان کے ترقی پسند عناصر بہت سرگرمی سے اس نئی مملکت کے نظام حکومت کو اپنے آدرشوں کے مطابق چلانا چاہتے تھے۔ دوسری طرف جاگیردار اور سرمایہ داروں کا گروہ اس نئی مملکت کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھتا تھا اس کشمکش میں پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہی ترقی پسند سیاسی کارکنوں، دانش وروں، شاعروں اور فن کاروں کے خلاف حکومت کی خفیہ ایجنسیاں سرگرم ہو گئیں اور مستقل ان کی نگرانی اور جاسوسی کی جانے لگی۔

ساحر لدھیانوی چونکہ واضح طور پر اس ترقی پسند گروہ کا حصہ تھے اور ان کے افکار و خیالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں تھے اس لیے یہ بھی ان خفیہ ایجنسیوں کے عتاب کا شکار ہو گئے، خفیہ پولیس والے ساحر کو اپنی کم فہمی اور کم علمی کی بدولت انتہائی خطرناک آدمی سمجھتے تھے۔ حالانکہ ساحر بہت سادہ اور بے ضرر سے انسان تھے۔ لیکن خفیہ پولیس والوں نے انھیں یہاں سے بھگانے کے لیے ایک سیاسی مخبر کی خدمات حاصل کیں جو اتفاق سے ساحر کا دوست بھی تھا۔ اس کی ذمہ داری میں شامل تھا کہ وہ روزانہ ساحر کے پاس آتا اور انھیں یہ کہہ کر ڈراتا تھا کہ خفیہ پولیس والے اسے گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعہ میں لے جائیں گے جہاں خطرناک حشرات الارض کی بہتات ہے اور قیدیوں پر تشدد کے بھی مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں، غرض کہ اس دوست نما دشمن یا دشمن نما دوست، (جو بھی کہیں ) نے ساحر کے سامنے بڑا خوفناک نقشہ کھنچا۔ ان سب باتوں کو سننے کے بعد ساحر حوصلہ ہار بیٹھے۔ اور وہ اس قدر گھبرائے کہ پاکستان آنے کے ایک سال کے اندر ہی ہندوستان واپس جانے پر مجبور ہو گئے۔

ہندوستان پہنچ کر کچھ عرصے تک دہلی میں ہی اپنی پیشہ ورانہ ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے لیکن ان کو اپنا بہتر مستقبل بمبئی میں ہی نظر آ رہا تھا، اس زمانے میں ان کا ایک قول بہت مشہور ہوا کہ، بمبئی کو میری ضرورت ہے۔ بمبئی پہنچ کر بھی ان کو اپنا مقام بنانے میں خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ 1949 میں ایک فلم، ”آزادی کی راہ پر“ کے نام سے ریلیز ہوئی جس میں پہلی دفعہ ان کے تحریر کردہ چار نغمات بھی شامل کیے گئے۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہو سکی اس لیے ساحر لدھیانوی کے گیتوں پر کسی نے توجہ نہ دی۔

سنہ 1951 میں فلم ”نوجوان“ منظر عام پر آئی اس فلم کی موسیقی اس وقت کے مشہور موسیقار ایس ڈی برمن نے ترتیب دی اور نغمات ساحر لدھیانوی کی کاوش کا نتیجہ تھے۔ اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے اور ساحر لدھیانوی کی قسمت کا ستارہ چمکنا شروع ہو گیا۔ وقت گزرتا گیا ساحر کے عروج اور کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ ان کو 1964 ہندوستانی فلمی صنعت کے سب سے معتبر اور مستند فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1971 میں یہ سرکاری پدما شری ایوارڈ برائے ”ادب و تعلیم“ کے حقدار ٹھہرے۔ 1977 میں ان کو دوسری بار فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ مارچ 2013 میں ان کی بیانویں سالگرہ کے موقع پر ہندوستانی محکمہ ڈاک نے ایک یادگاری ڈاک کے ٹکٹ کا بھی اجرا کیا۔

ساحر نے اپنی زندگی میں تو اپنی خوبیوں، اپنی صلاحیتوں اور اپنی عملی جدوجہد کی بدولت ایک اعلیٰ مقام پا لیا لیکن انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت جو ادبی شہ پارے تخلیق کیے وہ ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا مستقل اثاثہ بن گئے اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ وہ ساحر جو کہ اپنی آنکھوں میں مستقبل کے شاندار خواب سجائے مسلمانوں کے لیے بنائی گئی مملکت پاکستان میں بسنے آیا تھا اور حکومتی سطح پر ڈرا دھمکا کر واپس ہندوستان جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ممتاز ادیب حمید اختر اپنی کتاب ”آشنائیاں کیا کیا“ میں ساحر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جن لوگوں سے چھپ کر وہ لاہور میں گھر سے ائر پورٹ گیا تھا، وہ وہاں تک اس کے پیچھے پیچھے گئے اور واپس آ کر رپورٹ لکھی ”مسمی ساحر لدھیانوی ملک چھوڑ کر چلا گیا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments