اپنی مدد آپ


”خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں“ ۔ کسی نے یہ جملہ یونہی نہیں کہہ دیا ہو گا بلکہ یہ انسان کی زندگی بھر کا تجربہ، قوموں کی جد و جہد اور نسلوں کی ریاضت کا عکاس ہے مگر یہ ہے کیا؟

اپنی مدد آپ کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ کو اپنا اور اپنے مسائل کا ادراک ہو اور آپ ان کو حل کرنا چاہتے ہوں اور ہمارے ہاں کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے انفرادی سطح پر کوشش کی مثالیں کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ہم عمومی طور پر مسائل کو یا تو اپنے سسٹم یا پھر قسمت کی دین سمجھتے ہیں اور بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہاں کچھ نہیں بدلنے والا۔

مقالات سر سید سے لیا گیا مضمون ”اپنی مدد آپ“ میرے اردو کے نصاب کا حصہ ہے جس کو پڑھ کر پہلی چیز جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم شاید بہت زیادہ کوشش کرنے والے لوگوں میں سے نہیں تھے۔ ممکن ہے دنیا کی باقی اقوام کا حال بھی ہم سے ملتا جلتا ہو مگر چونکہ ابھی میں نے ان کا مطالعہ نہیں کیا تو ان کے بارے میں نہیں لکھ سکتی۔ ہاں مگر سرسید اس مضمون میں ہمیں ایشیا کی اقوام سے ملواتے ہیں کہ وہ یہی سمجھتی رہی کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسا مجموعہ قوم کے چال چلن کا ہوتا ہے اسی کے موافق اس کے قانون اور اسی کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے جس طرح کے پانی خود اپنی پنسال میں آ جاتا ہے تو اسی طرح عمدہ رعایا پر عمدہ حکومت ہوتی ہے اور جاہل و غیر تربیت یافتہ رعایا پر اکھڑ اور نا اہل حکومت مسلط ہوتی ہے۔

کوئی بھی قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور ایک قوم کی تہذیب درحقیقت ان مردوں، عورتوں اور بچوں کی شخصی ترقی ہے جن سے وہ قوم بنتی ہے۔ اسی طرح قومی تنزلی مجموعہ ہے، شخصی سستی، شخصی بے عزتی، شخصی بے ایمانی، شخصی خود غرضی اور شخصی برائیوں کا۔ نا تہذیہی اور بدچلنی جو اخلاقی و تمدنی یا باہمی معاشرت کی بدیوں میں شمار ہوتی ہے، درحقیقت وہ خود اسی شخص کی آوارہ زندگی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ بیرونی کوشش سے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں اور نیست و نابود کر دیں، تو یہ برائیاں کسی اور نئی صورت میں اس سے بھی زیادہ زور و شور سے پیدا ہو جائیں گی۔

سرسید لکھتے ہیں کہ اگر یہ رائے صحیح ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ قوم کی سچی ہمدردی اور سچی خیر خواہی کرو۔ غور کرو کہ تمھاری قوم کی شخصی زندگی کا چال چلن کس طرح پر عمدہ ہو، تا کہ تم بھی ایک معزز قوم ہو۔ کیا جو طریقہ تعلیم و تربیت کا، بات چیت کا، وضع لباس کا، سیر سپاٹے کا شغل اشغال کا تمھاری اولاد کے لیے ہے، اس سے ان کے شخصی چال چلن، اخلاق و عادات، نیکی و سچائی میں ترقی ہو سکتی ہے؟

وہ شخص در حقیقت غلام نہیں ہے، جس کو ایک خدا نا ترس نے جو اس کا ظالم آقا کہلایا جاتا ہے، خرید لیا ہے یا ایک ظالم اور خود مختار بادشاہ یا گورنمنٹ کی رعیت ہے بلکہ در حقیقت وہ شخص اصل غلام ہے جو بداخلاقی خود غرضی، جہالت اور شرارت کا مطیع اور اپنی خود غرضی کی غلامی میں مبتلا اور قومی ہمدردی سے بے پروا ہے۔ وہ قو میں جو اس طرح ذہنی غلام ہیں، وہ بیرونی عوامل سے یعنی عمدہ گورنمنٹ یا عمدہ قومی انتظام سے آزاد نہیں ہو سکتیں، جب تک کہ غلامی کی یہ اندرونی حالت دور نہ ہو۔

جان اسٹیورٹ مل جو ایک بہت بڑا دانا حکیم گزرا ہے، کا قول ہے کہ

”ظالم اور خود مختار حکومت بھی زیادہ خراب نتیجے نہیں پیدا کر سکتی۔ اگر اس کی رعایا میں شخصی اصلاح اور شخصی ترقی موجود ہے اور جو چیز کہ شخصی اصلاح و شخصی ترقی کو دبا دیتی ہے در حقیقت وہی شے اس کے لیے ظالم و خود مختار گورنمنٹ ہے پھر اس شے کو چاہو جس نام سے پکارو“ ۔

لہٰذا وہ بنیادی اصول جس سے دنیا کی معزز قوموں نے عزت پائی ہے وہ ہے ”اپنی مدد آپ“ ۔ جس وقت لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں گے تو پھر خضر کو ڈھونڈ نا بھول جایں گے۔

انسانی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو موجودہ علم انسانوں کے نسل در نسل کے کاموں سے حاصل ہوا ہے۔ مستقل مزاج محنت کرنے والوں، زمین کے جوتنے والوں، کانوں کے کھودنے والوں، نئی نئی باتوں کے ایجاد کرنے والوں، مخفی باتوں کو ڈھونڈ کر نکالنے والوں، آلات جرثقیل سے کام لینے والوں ہنر مندوں، شاعروں، حکیموں، فلسفیوں ملکی منتظمین نے انسان کو موجودہ ترقی کی حالت پر پہنچانے میں بڑی مدد دی ہے۔ ایک نسل نے دوسری نسل کی محنت پر عمارت بنائی ہے اور اس کو ایک اعلی درجے پر پہنچایا ہے۔

ان عمدہ کاریگروں سے جو تہذیب و شائستگی کی عمارت کے معمار ہیں، لگا تار ایک دوسرے کے بعد ہونے سے محنت اور علم و ہنر میں جو ایک بے ترتیبی کی حالت میں تھی، ایک ترتیب پیدا ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ قدرت کی گردش نے موجودہ نسل کو اس زرخیز اور بے بہا جائیداد کا وارث بنایا ہے، جو ہمارے پرکھوں کی دانش اور محنت سے مہیا ہوئی تھی اور وہ جائیداد ہم کو اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ ہم صرف مثل مار سر گنج اس کی حفاظت ہی کیا کریں، بلکہ ہمیں اس لیے دی گئی ہے کہ اس کو ترقی دیں اور ترقی یافتہ حالت میں آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑ جایں۔

یہ پچھلا علم وہ علم ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اسی سے عمل، قومی مضبوطی اور قومی عزت حاصل ہوتی ہے۔ یہی علم وہ علم ہے کہ جو انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق محفوظ رکھنے اور زندگی کے کاروبار کرنے اور اپنی عاقبت کے سنوارنے کے لائق بنا دیتا ہے۔ اس کو آدمی صرف کتابوں سے نہیں سیکھ سکتا اور نہ ہی یہ صرف کسی درجے کی علمی تحصیل سے حاصل ہوجاتا ہے بلکہ عمل سے سیکھتا ہے۔

لارڈ بیکن کا قول ہے : ”کہ علم سے عمل نہیں آ جاتا۔ علم کو عمل میں لانا علم سے باہر اور علم سے برتر ہے اور مشاہدہ آدمی کی زندگی کو درست اور اس کے علم کو با عمل یعنی اس کے برتاؤ میں کر دیتا ہے“ ۔ علم کی بہ نسبت معمل اور سوانح عمری کی بہ نسبت عمدہ چال چلن، آدمی کو زیادہ تر معزز اور قابل ادب بناتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments