گورکن کی محبت


گورکن قبر کی کھدائی میں مصروف تھا۔ گیلی مٹی اور سردی نے اس کے کام کو اور مشکل کر دیا تھا۔ یخ بستہ ہوا کے باوجود اس کے ماتھے سے پسینہ بہہ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے رکتا اور پھر لمبا سانس لے کر کدال اٹھا لیتا۔ تیس پینتیس لوگ جنازے کے ساتھ بہت بے چینی سے قبر کے تیار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس ہجوم میں چوبیس سالہ رضوانہ ہلکے لال رنگ کے قمیض شلوار اور سفید دوپٹے میں کتنی تر و تازہ لگ رہی تھی۔ وہ دور سے کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی اور اس کی نگاہیں گورکن پہ جمی ہوئی تھیں۔ اس کے جسم میں ایک جھر جھری سی آئی اور وہ بے ساختہ اور قریب آ گئی تو اس کے پیر منجمد ہو گئے۔ ’بشیرا؟ میں بشیرے سے بے ٹوک بات کروں یا میں یہاں سے بھاگ جاؤں! ‘

بشیرے گورکن کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کون اسے دیکھ رہا ہے اور کون نہیں۔ وہ بس اپنے کام کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتا تھا۔

پچھلی طرف کی قبر پکی تھی اونچی دیواروں کے ساتھ۔ رضوانہ اس قبر کی دیوار کے پیچھے چھپ کر بشیرے کو غور سے تکنے لگ گئی۔ ’کتنا بدل گیا ہے پانچ سالوں میں، لگتا ہے اس کو زمانے کی بری مار پڑی ہے جو پانچ سالوں میں پندرہ برس بڑا ہو گیا ہے۔ چہرے پہ ایک عجب اداسی، ناک اور کان لٹکے لٹکے سے، آنکھوں سے چمک غائب۔ کیا واقعی یہ بشیرا ہے! کم سے کم پوچھوں تو سہی کہ اسے کون سا مرض لگ گیا ہے۔ ‘

قبر کی کھدائی مکمل ہو چکی تھی۔ میت کو قبر میں اتارنے کے بعد بشیرا سلیں رکھ کر مٹی ڈال رہا تھا اور اب ہانپ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے قبر کی منڈیر بنائی، اپنے کام کی اجرت لی اور آگے ایک دوسری قبر کی طرف چل پڑا۔ اس نے سگریٹ نکال کر اس میں کچھ بھرا اور اس قبر کے باہنی طرف ٹیک لگا کر گہرے گہرے کش لینے لگا۔ رضوانہ کے منہ سے بے اختیار نکل پڑا۔ ’کمینے کا اب بھی وہی انداز ہے چرس کے سٹے لگانے کا ۔‘

اب وہ قبر سے لپٹ گیا تھا۔

رضوانہ نے دبے پاؤں قبروں کے درمیان چلتے ہوئے چند قدم بڑھائے مگر اونچی نیچی زمین ہونے کی وجہ سے گرتے گرتے بچی۔ بشیرے نے مڑ کر دیکھا پھر دوسری طرف دیکھنے لگا۔

’بشیرے۔ ‘

بشیرے نے پھر گردن موڑی، چندھیائی ہوئی آنکھوں سے رضوانہ کو دیکھا اور پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ ڈھونڈنے لگ گیا۔

’بشیرے تو نے مجھے پہچانا نہیں۔ دیکھ میری طرف۔ میں رضو ہوں رضو!‘
بشیرے نے سرسری نظروں سے رضو کو دیکھا۔ ’ہو گی کوئی رضو، کیا کام ہے تجھے مجھ سے! ‘

’مجھے تجھ سے کوئی کام نہیں۔ میں تو پڑوس کی ایک مائی کی میت کے ساتھ آئی تھی۔ تجھے پہچان لیا تو سوچا تجھ سے ایک دو باتیں ہی کر لوں۔ کیا حالت بنا رکھی ہے تو نے اپنی؟‘

بشیرا پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔

’اچھا تو نے بات نہیں کرنی تو نہ کر ۔ تو تو شروع سے ایسا ہی ہے۔ یہ تو نے اپنا حال کیا بنایا ہوا ہے۔ یہ کس کی قبر کے ساتھ تو چمٹا ہوا ہے؟‘ رضوانہ کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی۔

’تجھے کیا؟ میں کسی سے بھی چمٹوں یا دھتکاروں۔ تو کون ہے مجھے پوچھنے والی؟‘ اب بشیرا سگریٹ میں کچھ بھر رہا تھا۔

’میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ اس قبر میں ہے کون جس سے تو اتنی محبت کرتا ہے! ‘ رضوانہ بالکل اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

’یہ میرا راز ہے راز۔ جا تو یہاں سے دفعہ ہو جا۔ مجھے تنگ نہ کر رضو کی بچی! ‘ بشیرے نے اب قبر سے ٹیک لگا لی تھی۔

’میں نہیں جاؤں گی چاہے مجھے تو دھکے مار۔ تو بتا سب کچھ ورنہ میں تیرے کان کھینچ لوں گی جیسے پہلے ایک بار کھینچے تھے۔ ‘

بشیرے نے کوئی جواب نہیں دیا اور بے نیازی سے مسکرانے لگ گیا۔
’اوئے منا میسنا نہ بن۔ بتا مجھے کس کی قبر ہے یہ؟‘
’تجھے کیا۔ جس کسی کی بھی ہو۔ تجھے کیوں بتاؤں میں؟ چل یہاں سے۔ ‘

’مجھ سے تو کس طرح بول رہا ہے! تجھے کوئی خیال نہیں آتا کہ تو اس طرح مجھ سے بات کر رہا ہے۔ مجھ میں اب اور برداشت نہیں ہے۔ ‘

’اوئے میرے کان نہیں کھینچ۔‘ اس نے رضوانہ کو پرے کرتے ہوئے کہا۔ ’دیکھ میرے کانوں میں تو نے درد کر دیا ہے۔ ‘

بشیرا کان کو سہلانے لگ گیا۔
’بتاتا ہوں تجھے۔ ‘ بشیرے نے ایک گہرا سانس کیا۔
’جلدی کر ۔ اب نخرے نہ کر ۔ ‘ رضوانہ نے ایک ہاتھ جارحانہ انداز سے آگے بڑھایا۔
’تو سن لے۔ ‘ بشیرے نے آواز بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’یہ رضو کی قبر ہے میری رضو کی۔‘

رضوانہ تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں آ گئی۔ ’بشیرے تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تو نے مجھے زندہ جی مار دیا۔ یہ کیا بکواس کر رہا ہے تو !‘

’میں صحیح بتا رہا ہوں۔ یہ رضو کی قبر ہے قسم خدا کی۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔ اب جا تو ۔ دفعہ دور ہو جا۔‘

’میں تیرے سامنے زندہ کھڑی ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ رضو کی قبر ہے۔ کیا ہو گیا تجھے؟ اپنا علاج کروا ورنہ بھیجہ اور بگڑ جائے گا۔‘ رضوانہ کے سر سے دوپٹہ پھسل کر گردن پہ آ گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر بشیرے کو مٹی بھرے بالوں سے پکڑ لیا۔

’پتا نہیں کس انجانے کی قبر کو میری قبر بنا دیا ہے تو نے! ‘
بشیرے نے گردن اوپر کی اور مسکرانے لگ گیا۔
’یہ قبر میں نے بنائی ہے لیکن اس میں کوئی ہے نہیں۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments