کیا ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے؟


صرف چھ ماہ رہ گئے ہیں۔ داخلہ ٹیسٹ میں۔
پچھلے سال فرسٹ ائر میں بھی نمبر امید سے کم ہیں۔
کسی اور اکیڈمی کا بھی پتہ کرنا چاہیے۔
اگر اپنے شہر کے کسی کالج میں میرٹ نہ بنا تو؟
اور اگر اوپن میرٹ پر نہ آ سکا، تو اور تباہی ہے۔
کسی پرائیویٹ کالج میں فیس بھرنے کی جرات بہت مشکل کر دے گی۔
اور اگر جمع جوڑ کر ہی لیا، تو باقی کے دو بچے بھی تو ہیں۔
سنو! اگر وہ ڈاکٹر نہ بن سکا تو؟

وہ یہی باتیں سنتے اپنی جاب پر پہنچی تھی۔ جب سے بڑا بیٹا سیکنڈری اسکول میں آیا تھا۔ مستقبل میں وہ کیا بنے گا، دن رات، صبح، شام دونوں میاں، بیوی کی یہی فکریں تھیں۔ اور انھی اندیشوں میں گھرے تین سال ہو رہے تھے۔ اور اسے اب لگنے لگا تھا کہ ان دونوں کے درمیان ہر وقت یہی باتیں رہ گئی ہیں۔ دوسری طرف بیٹا ان کی ایسی باتیں اور ان دیکھا دباؤ سہ سہ کے اپنی قوت ارادی، خود پر بھروسا، اعتماد سب کھونا شروع ہو گیا تھا۔ اچھا بھلا پڑھائی میں تھا لیکن اب دو چار ماہ سے اس میں بھی سستی دکھا رہا تھا۔

کل رات تو بات اتنی لمبی ہو گئی کہ وہ خود بھی بیزار ہو گئیں۔ اور تب سے اب تک وہ الجھی الجھی ادھر اپنے دفتر میں کرسی پر آ بیٹھیں۔

دن کے گیارہ بجے، پورے ڈیپارٹمنٹ کا ایک چکر لگایا۔ کلاسز، اساتذہ کو ملتے ہوئے، سپورٹ سٹاف کو دیکھتے ہوئے، انھوں نے انتظامی امور پر کچھ مشورے دیے اور جیسے ہی دوبارہ دفتر آئیں تو چپڑاسی نے بتایا کہ ایک طالبہ کے والدین ملنا چاہتے ہیں۔

جیسے ہی وہ اندر آئے۔ سلام، دعا کے بعد بیٹھتے ساتھ ہی وہ شروع ہو گئے۔ جیسے بہت دنوں کا غبار اکٹھا ہو۔ میڈم ہم کافی دن سے آپ سے ملنے کے خواہاں ہیں۔ آج، کل کرتے اتنے دن گزر گئے۔

جی کہیے! میں کیا خدمت کر سکتی ہوں آپ کی؟

خدمت کیا؟ ہم تو آپ سے گزارش کرنے آئے ہیں۔ براہ مہربانی اپنے اساتذہ کی تھوڑی تربیت جدید خطوط پر کروائیں۔ تاکہ ان کو طالب علموں کی دلچسپی بنانی اور قائم رکھنی آئے۔

کیوں کیا ہوا؟
میری بیٹی کے گریڈز دن بدن کم ہو رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس کا کوئی پراجیکٹ ہم نے دیکھا ہے۔

دیکھیے! اس میں مسئلہ پڑھانے والوں کا نہیں بلکہ پڑھنے والوں کا ہے۔ آپ کی بیٹی کی غیر مطمئن کارکردگی کی رپورٹ مجھے بھی مل رہی ہے۔ وگرنہ باقی بچے اچھے جا رہے ہیں۔ اس پر میں نے آپ کی بیٹی کو بلا کر بات بھی کی ہے۔ تاکہ میں اندازہ لگا سکوں کہ خرابی کدھر ہے؟

تو پھر اس نے کیا کہا؟

وہ کچھ پریشان تھی لیکن جو بے ربط باتیں اس نے کی ہیں تو اس میں مجھے یہ لگا کہ شاید وہ اس فیلڈ میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس لئے باوجود کوشش کے وہ اتنا نہیں کر پاتی، جتنی اس میں صلاحیت ہے۔

پتہ نہیں کب سمجھ میں آئے گی اسے یہ بات۔
کیا بات؟

وہ انگریزی ادب میں آگے پڑھنا چاہتی تھی۔ اس کی کتاب بینی، ذخیرہ الفاظ ماشاءاللہ کمال ہیں۔ ایف۔ ایس۔ سی تک کئی مقابلوں میں حصہ لے چکی ہے۔ انعامات کی قطار لگی ہے ہماری الماریوں میں۔ لیکن ہم دونوں میاں بیوی ماہر تعمیرات ہیں۔ سوچا کہ اسی میں بیٹی بھی آ جائے گی۔ تو کل کو نہ اسے روزگار کا تردد ہو گا اور ہمارا نام لیوا بھی کوئی ہو گا۔ بس اتنی سی بات اس نے سر پر سوار کر لی ہے۔

محترم! یہ اتنی سی بات نہیں ہے۔ آپ اسے اس کے مخالف رجحان چلانے پر مصر ہیں۔

میڈم! اس ڈگری کے ساتھ اچھے رشتے بھی نہیں ملنے۔ اب تو ہر کسی کو ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹ، اور اسی طرح کی ڈگری یافتہ بہو چاہیے۔ آرٹس مضامین کو تو اب کوئی پوچھتا ہی نہیں۔

جناب! ایسی بات نہیں۔ آپ مجھ سے زیادہ سوجھ بوجھ، علم اور تجربہ رکھتے ہیں۔ لیکن میرا پھر بھی مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی پر یہ ظلم نہ کریں۔ اور نہ ہی اتنی دور تک سوچیں۔ مولا نے سب کے لیے اسباب تیار رکھیں ہیں۔ باقی جو آپ کو بہتر لگے۔ کیجیے۔

شکریہ کے ساتھ انھیں رخصت کیا۔ پتہ نہیں ان کے دل پر اس کے خیالات نے کوئی اثر کیا یا نہیں۔ یہ تو آنے والے دن ہی بتا سکتے تھے۔ بہرحال میں روزانہ کے بقیہ دفتری امور دیکھنے لگی۔

شام ڈھلی اور وہ گھر واپس پہنچی تو اس کے شوہر کی ممانی آئی ہوئی تھیں۔ چائے، پانی کا دور چل رہا تھا۔ وہ بھی وہیں لونگ میں ان کے پاس بیٹھ گئی۔ بعد از حال احوال بتانے لگیں کہ بیٹے اور بہو پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ کسی جگہ پلاٹ لے لیں۔ جہاں کا کہہ رہے ہیں، وہاں ان دنوں زمین سستی ہے۔ جس پر آگے کہیں وہ گھر بنا سکتے ہیں۔ لیکن وہ دونوں تو سارا پیسہ اپنی مزید تعلیم پر ہی برباد کر رہے ہیں۔

لیکن ممانی! ان کا تو اپنا گھر ہے۔

ہاں! ابھی تو ان کے بچے نہیں۔ کل کو خاندان بڑھے گا۔ تو پھر زیادہ بڑی جگہ کی ضرورت ہو گی۔ اور کیا انھوں نے اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑنا ہے؟ اچھا آپ فکر مند نہ ہوں۔ اللہ بہتر کرے گا۔ باقی سب کیسے ہیں گھر پر؟

ٹھیک ہیں۔ لیکن چھوٹے کی سنو۔ ڈگری کیے سال ہو گیا ہے اور ابھی تک کسی نوکری سے نہیں لگا۔ تمہارے ماموں نے اپنے جان پہچان والو کو کہہ رکھا ہے۔ دیکھو کیا بنتا ہے؟

تو وہ خود کیوں نہیں کہیں کوشش کرتا؟ اپنا سی۔ وی اچھا تیار کرے۔ مختلف اداروں کو بھیجے۔ اس تجربے سے گزرے گا تو اللہ نے چاہا تو نوکری مل جائے گی۔

وہ تو بچہ ہے۔ کہاں خوار ہوتا پھرے گا۔ یہ تو ہمارے بتانے کے کام ہیں۔ ماں، باپ ہوتے کس لئے ہیں؟

ایسی ہی گفتگو کر کے، ایک گھنٹے بعد ممانی اپنے گھر کو سدھاریں۔ تو وہ بھی کسلمندی سے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئی۔

صبح جس ذہنی پراگندگی کو ہمراہ لئے گھر سے نکلی تھی، وہ ابھی تک اس کے ساتھ تھی۔ بلکہ سارا دن ملنے والے لوگوں نے اس میں اضافہ ہی کیا۔ ذہن بوجھل تھا اور دل بھاری۔ کسی سے بھی زیادہ کلام کو طبیعت آمادہ نہ تھی۔ بس ضرورتا اہم چیزیں دیکھیں۔ اور وضو کر لیا۔ وہ جب بھی ایسی کسی گنجلک کا شکار ہوتی، جس میں انسان مددگار ثابت نہ ہوتے۔ تو وہ اپنے رب کے سامنے باوضو بیٹھ جاتیں۔ آج بھی وہ بے بس اس کے حضور تھیں۔

مولا! کیا والدین بننا اتنا مشکل ہے۔ بچے کو تخلیق سے پیدائش کے جان لیوا مراحل، پھر شیر خوارگی کی تکالیف، پھر تعلیم و تربیت کی آزمائشیں، کیا پڑھائیں، کہاں نوکری کریں، ان کی شادی کے فیصلے، اخراجات، ان کے گھر بنانا وغیرہ وغیرہ۔ اے میرے رب! یہ تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ بس خدشے اور ڈر ہیں۔ ان کے مستقبل کے۔ ہر دم۔ ہر گھڑی۔ کہیں کوئی ’بریک‘ ہی نہیں۔ روتے، بولتے اس نے جائے نماز تہہ کی۔ اور بستر پر آ لیٹی۔

کتھارسس سے وہ ہلکی تو ہو گئی تھی۔ لیکن رہنمائی اور حل ابھی تک نہیں سمجھ آیا تھا۔ کہ یک دم یوں جیسے دل پر کوئی بات نازل ہو۔ جیسے کوئی ان دیکھا کہہ رہا ہو:

میری پیاری بندی! میں نے تو اپنے کسی بندے پر برداشت سے زیادہ وزن نہیں ڈالا۔ میں نے تو اپنا دین بھی انسان کی آسانی کے لئے بنایا۔ اور احکام بھی اس کی فطرت سے مطابقت رکھتے ہوئے۔ میں نے تو بچوں کی تربیت کی تاکید کی ہے۔ کفالت کا کہا ہے۔ جب تک وہ بالغ و عاقل نہ ہو جائیں۔ مطلب ان کو حالات سے نبرد آزمانے کا گر سکھانا، اپنی عقل کو استعمال کرنے کے مواقع فراہم کرنا، اپنی ذمہ داریوں و فرائض سے بتدریج آگاہ کرنا، جا نشینی کی تیاری کروانا۔

جس مشقت سے تم بیزار ہو۔ وہ انسان کی اختیاری ہے۔ ہر کسی کو اپنے قابو میں رکھنے کی خواہش ہے۔ خود کو خود ساختہ خوش فہمی میں رکھنے کا فریب ہے۔ ورنہ کیا تم نہیں جانتی کہ ہر ذی نفس کو فنا ہے۔ موت کی دستک زندگی کے ساتھ جڑی ہے۔ اس دنیا میں کسی جاندار کو ثبات نہیں۔ تو جب تم میں سے کوئی بھی ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں تو پھر اولاد اور رشتوں کی باگ ڈور، جب مناسب وقت ہو، ان کے ہاتھ میں دے دو۔ ورنہ یہ تھکن تمہارا خون نچوڑ لے گی اور سکون پھر بھی نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments