(3) ”اداس نسلیں“ اور ”نادار لوگ“ ; بیسویں صدی کے متنوع جہانوں کے غماز


”اداس نسلیں“ اور ”نادار لوگ“ فقط بیسویں صدی کے برصغیر، پنجاب اور پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات میں سے گزرنے والی جامع انسانی زندگیوں کی ایک تصویر دکھانے تک ہی محدود نہیں۔ یہ دونوں ناول اپنے زمانوں میں رائج رہن سہن کے متنوع طور طریقوں، خاص طور پر شہری اور دیہاتی طرز زندگی، کی بھی غمازی کرتے ہیں۔

”اداس نسلیں“ کے شروع میں ہمیں روشن محل کی ایک تقریب کا منظر دکھایا جاتا ہے۔ یہ تقریب روشن پور گاؤں کے نئے مالک، روشن آغا کی تاج پوشی کے لیے منعقد کی گئی جس میں ہندوستان کی اشرافیہ، سیاستدان، مہاراجے اور انگریز افسران مدعو تھے۔ اس منظر میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا کہ لوگ کس طرح کی سواری میں بیٹھ کر آئے، کیسے کپڑے پہنے ہوئے، کس کے ساتھ بیٹھے، کیا باتیں کر رہے تھے۔ اس تقریب کے علاوہ بھی ناول میں کئی دفعہ روشن محل اور اس کی پارٹیوں کے منظر بیان کیے گئے، کہ ان میں شامل ہونے والے لوگ کیسے وسیع و عریض لان میں بیٹھ کر بے فکری سے تاش کھیلتے، سیاست، آرٹ اور فلسفے کے موضوعات پر گرم جوشی سے بحث کرتے اور اندر ہی اندر اپنے اور دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے۔ ان سب مناظر کے ذریعے عبداللہ حسین نے بیسویں صدی کی تہذیب یافتہ، شاہی، امیر، ”تعلیم یافتہ“ اشرافیہ کے ماحول کی ایک جھلک دکھائی ہے۔

روشن محل کے برعکس اور روبرو ”روشن پور“ نامی گاؤں کی زندگی تھی۔ روشن محل کی طرح روشن پور میں بھی ایک دستار بندی کی تقریب ہوئی جس میں جوگندر سنگھ کو ساتھ والے گاؤں سے بھینس چرا کر لانے پر ”دلیری اور مردانگی“ کی پگڑی پہنائی گی۔ روشن محل کی تقریب کی طرح یہاں بھی عبداللہ حسین نے تقریب کے انتظامات اور اس میں شرکت کرنے والے کسانوں کی تفصیلات کے ذریعے دیہاتی زندگی کا ایک نقشہ کھینچا؛ کہ اس دستار بندی میں شامل ہونے والے کسانوں کے کھانے پینے، سوچنے، خوشی منانے اور بات کرنے کے طور طریقے کیا تھے۔ اس کے بعد ناول میں وقتاً فوقتاً دکھایا گیا کہ کسانوں کی زندگی کا اپنی فصلوں اور جانوروں کے ساتھ کیسا گہرا سمبندھ ہوتا ہے۔ جب پہلی جنگ عظیم کی ریکروٹمنٹ کے لیے فوجی افسر اور سارجنٹ روشن پور آئے تو انہیں بعض کسانوں کو ”پسلیوں میں رائفلوں کے دستے اور سنگینیں چبھو چبھو کر بیلوں“ سے علیحدہ کرنا پڑا۔

یہ اس خاص دیہاتی طرز زندگی کا ہی اثر تھا کہ یہ کسان جب جنگ لڑنے یورپ گئے تو محاذ جنگ میں بھی اپنے بیلوں، گھوڑوں اور فصلوں کو یاد کرتے رہتے۔ علی بھی زیادہ عرصہ گاؤں سے دور نہ رہ سکا۔ شہر میں فیکٹری کے مشینی کام نے کچھ ہی عرصے میں اسے جسمانی اور ذہنی طور پر ماندہ کر دیا اور گاؤں واپس لوٹ جانے کی خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہو گیا۔ علی اکیلا اس لاچار صورتحال سے دوچار نہ تھا، اس کے ساتھ ملوں میں کام کرنے والے اکثر لوگ درحقیقت کسان تھے جو ”خشک سالی و مزارعہ گیری سے تنگ آ کر شہر میں محنت کرنے کے لئے آ گئے تھے“ اور یہاں آ کر دیہاتی زندگی کی ”چھوٹی چھوٹی، غیر اہم چیزوں“ سے مرحوم ہو کر ایک ”بیمار، تنہا“ زندگی گزار رہے تھے۔

جس صنعتی بستی میں علی اور مل کے دوسرے مزدور رہتے تھے، وہاں تین مختلف طبقوں کے لوگ رہائش پذیر تھے۔ چھ صفحات تک ان مکینوں کے ماضی، تعلیم، نفسیات، روز مرہ کی روٹین اور ان کے گھروں اور گلیوں کی وضع قطع کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ یہ تفصیلات اس زمانے میں ابھرنے والی اس شہری صنعتی زندگی کو بخوبی عکس بند کرتی ہیں۔

اگرچہ ”نادار لوگ“ میں بھی ایک مخصوص دیہاتی طرز زندگی کی جھلک ناول کے شروع میں یعقوب اعوان کی یادوں کے ذریعے دکھائی گئی لیکن شاید بٹوارے کے بعد کی اس کہانی میں دیہاتی زندگی کا وہ مرکزی کردار نہیں جو ”اداس نسلیں“ میں تھا۔ یعقوب اعوان وقت مرگ اپنے کھیتوں اور دیہاتی زندگی کو یاد کرتا ہے جو بٹوارے کی زد میں آ کر اس سے چھن گئے، لیکن اس کے دونوں بیٹے، ناول کے اہم کردار اعجاز اور سرفراز، اپنا زیادہ تر وقت شہر اور شہری زندگی میں ہی گزارتے ہیں۔

بٹوارے سے پہلے کے روشن پور کے برعکس ”نادار لوگ“ کے گاؤں میں اب کسانوں کے علاوہ خشت کے بھٹے بھی تھے جن میں مزدور کام کرتے تھے، ہندوستان کے اپر باری دو آب کا پانی بند کرنے سے زمین بارانی ہو گئی تھی، گاؤں کے زمیندار ملک جہانگیر نے اپنی ایک شوگر مل کھول لی تھی جس میں مزارعوں کے بجائے مزدوروں اور کاریگروں کی ضرورت تھی اور ملک میں ہر طرف ایوب خان کی اصلاحات اور انڈسٹریلائزیشن کا بول بالا تھا۔

ایسی معاشی صورتحال میں لیبر یونین کی سیاست بھی فعال ہوئی جس کے ماحول کا ادراک ہمیں اعجاز کے کردار کے ذریعے ہوتا ہے۔ جب اعجاز نے نئی نئی یونین جوائن کی تو اسے سیاست کا اتنا علم نہیں تھا لیکن جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا ہے، اعجاز اور اس کے ساتھ ساتھ قارئین، اس وقت کے سیاسی ماحول سے آشنا ہوتے جاتے ہیں۔ مارشل لا، مزدور، کسان، یونین لیڈرز، جلسے، تقریریں، ذوالفقار علی بھٹو، الیکشن، خواب، امید، نا امیدی، احساس شکست، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی سیاست کے یہ سب رنگ ناول میں دکھائے گئے ہیں۔

دوسری طرف سرفراز کے کردار کے ذریعے اس زمانے کی ملٹری ٹریننگ، آفیسرز کی نجی محفلوں، نفسیات، ادب آداب، ضابطوں اور آپس میں گفتگو کرنے کے طور طریقوں کی منظر کشی کی گئی ہے۔ فوجی افسری کا یہ ماحول سرفراز کے بچپن کے دیہاتی ماحول سے کافی مختلف تھا؛ ایک دن وہ بے چین ہو کر وردی میں ملبوس اپنے آفس کا دروازہ بند کر کے دری پر لیٹ کر لوٹنے لگا جیسے بچپن میں دوسرے بچوں کے ساتھ چارے کے کھیتوں میں لوٹا کرتا تھا۔ لیٹے لیٹے ہی وہ اپنے گاؤں کے گدھوں کی طرح دونوں ٹانگیں اور بازو ہوا میں چلانے لگا۔ ان حرکتوں سے اسے بے پناہ مسرت ملی۔ جب چند منٹ کے بعد وہ اچانک اپنی فوجی افسری دنیا میں واپس آیا تو خدا کا شکر ادا کرنے لگا کہ ان حرکتوں کے دوران کسی نے دروازہ نہ کھٹکھٹایا تھا۔

شاید سرفراز، نعیم اور عذرا کے کرداروں کا ایک المیہ یہ تھا کہ انہیں ان سب متنوع اطوار زندگی میں سے کسی میں بھی چین اور سکون نہ ملا۔ وہ نئی، شہری، ”پڑھی لکھی“ اور پرانی، دیہاتی، ”ان پڑھ“ دنیاوٴں کے بیچ مارے ہوئے لوگ تھے۔

یوں عبداللہ حسین نے ان دونوں ناولوں میں تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ ان زمانوں میں رائج گیتی کے مختلف طور طریقوں کو بھی ہم بعد میں آنے والوں کے لیے عکس بند کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments