موٹیویشنل اسپیکرز اور الیکٹرانک گالیاں


بھلے دنوں کی بات ہے کہ ہمارا دسترخوان ہماری تربیت گاہ بھی ہوتا تھا جہاں دادی، دادا، والدین اور کنبے کے دیگر بزرگ اپنے خاندان کی اعلٰی روایات، رومی و سعدی کی حکایات اور اپنی زندگی میں پیش آئے واقعات سے اپنی نئی پود کو آگاہ کرتے تھے جس سے نئی نسل راہنمائی حاصل کر کے اپنی عملی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے کمر بستہ ہوتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ ایک چھوٹی سی ڈیوائس ہمارے درمیان حائل ہوئی جس نے بظاہر فاصلے تو سمیٹے مگر اپنوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے، ہماری اہم درسگاہ اجڑ گئی ایک ہی چھت تلے لوگ اجنبیت کا شکار ہونے لگے، خونی رشتے بے اثر ہوتے گے اور مصنوعی رشتے پروان چڑھتے گئے۔ نانی اماں، دادی اماں کی کہانیاں بن سنائے سینوں میں ہی دفن ہو کر رہ گئیں، کیوں کہ ان کی بہو بیٹیوں نے اپنے بچوں کو بتا دیا تھا کہ ان کے کھانسنے سے بیکٹیریا جنم لیتا ہے جو ٹی بی کا سبب بنتا ہے۔

طے شدہ بات ہے کہ نئی نسل ہو یا پرانی اسے کہانیاں سننے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے، چنانچہ اس کام کے لیے اب باقاعدہ موٹیویشنل اسپیکرز کی صنعت وجود میں آ چکی ہے اور یہ فریضہ اب باقاعدہ کرائے کے موٹیویشنل اسپیکرز سر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ صنعت اتنی منافع بخش ہے کہ بعض یونیورسٹیوں کے شعبہ جات اس کی باقاعدہ مصنوعی کھیپ تیار کرنے لگے ہیں ان کے بنیادی مقاصد میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ ہمارے مقاصد میں سے اولین مقصد موٹیویشنل اسپیکر پیدا کرنا ہے یقیناً یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

یاد رہے کہ ہم جو کہتے ہیں اس سے لوگ ”موٹیویٹ“ نہیں ہوتے بلکہ جو کرتے ہیں اس سے دوسروں کو ”موٹیویشن“ ملتی ہے۔ عبدالستار ایدھی اگر کسی کو موٹیویٹ کرتے تو بات بنتی تھی، اگر مدر ٹریسا موٹیویٹ، کرتیں تو تب بھی بات جچتی تھی، اگر عمران خان بات کرے تو بات سجتی ہے، اگر جاوید میانداد بات کرے تو بات موثر ہو گی، اگر ڈاکٹر عبدالقدیر بات کرتے تو موٹیویشن بنتی تھی، اگر جہانگیر خان بات کرے تو بات بنتی ہے، اگر جان شیر بات کرتے تو پھر بھی بات بنتی ہے، اگر نصرت فتح علی بات کرتے تو بات با وزن ہوتی، اگر ارفع کریم رندھاوا بات کرتی تو بات دل کو لگتی، اگر احسان دانش نے جہان دانش لکھی تو بات دل و دماغ میں اثر جماتی ہے اگر جالب نے جالب بیتی لکھی تو بات میل کھاتی ہے، مگر مجھے یہ بتائیے کہ مکرمی قاسم شاہ صاحب نے کون سے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے ہیں کہ وہ لوگوں کو ”موٹیویٹ“ کرتے پھر رہے ہیں، جب کسی نے کچھ نہیں کیا ہوتا ہے اور اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے تو وہ مستعار واقعات سے لوگوں کے دل لبھانے کی کوشش کرتا ہے، قاسم علی شاہ کی غیر منطقی گفتگو میں اپنی زندگی کے تجربات کی بجائے دوسروں کی تحریروں کی صاف جھلک دکھائی دے رہی ہوتی ہے انہوں نے اسٹیفن ہاکنگ سے لے کر منا بھائی ایم بی بی ایس تک کسی کو نہیں بخشا۔

پاکستان میں موٹیویشنل اسپیکر کی ضرورت نائن۔ الیون کے فوراً بعد محسوس ہوئی کیونکہ عالمی طاقتوں کو خدشہ تھا کہ افغانستان میں قدم جماتے وقت ہمیں پاکستان سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو

لہذا ان کے سہولت کاروں نے چند کہانی گڑھ سرکاری ”توتے“ میڈیا پر بیٹھا کر بے ضرر بابے بنانے کی کامیاب فیکٹری چلائی اور ہمارے یہاں فیصل آباد کے کارخانے تو بند ہو گے مگر اس بابا سازی کی صنعت نے خوب ترقی کی اور اب حال یہ ہے کہ ہر چوراہے پر بے لباس پہنچا ہوا کامل بابا دستیاب ہے جو اپنی قسمت تو نہیں سنوار سکا مگر نعوذ باللہ آپ کی تقدیر بدلنے کا دعویدار ضرور ہے جو مختلف نفسیاتی حربوں کے ذریعے کئی گھرانوں کو تباہ کر چکے ہیں، تبلیغی جماعت کی ستانوے سال کی مسلسل مساعی کے باوجود ان کی موٹیویشن کا یہ حال ہے کہ وہ خود اپنا جوتا مسجد کے باہر رکھنے کا رسک نہیں لے سکتے اور نہ اتنے عرصے میں ان کا لوٹا بستر بند اور زنجیر سے رہائی پا سکا ہے۔

بہترین تعلیمی اداروں کے باوجود ہمارے یہاں فٹ پاتھ کے استعمال کو توہین سمجھا جاتا ہے اور سڑک پر پیدل مٹر گشت کرنا قومی فریضہ تصور کیا جاتا ہے، پڑھے لکھے افراد کے دفاتر جہاں خواتین، نوجوانوں اور بچوں کا متواتر آنا جانا لگا رہتا ہے وہاں سگریٹ کے دھوئیں کے سیاہ بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں جو مفت میں پھیپھڑوں کا کینسر بانٹنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ان موٹیویشنل اسپیکرز کی چرب زبانی کے زیر اثر ہماری نئی نسل شارٹ کٹ کی عادی ہو کر محنت سے بالکل عاری ہو چکی ہے صرف دیسی مرغی کے علاوہ ہم سب کچھ امپورٹڈ پسند کرتے ہیں ہمارے پاس اپنی کل متاع چند لیکس آڈیوز، بہت سی گندی وڈیوز اور لاہور کا پاوا اختر لاوا کے سوائے دنیا کو فخر سے دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

کسی بھی قوم کے مزاج، یا ذوق، تمدن، تہذیب کو سمجھنے کے لیے اس کے درو دیوار پر لگے سائن بورڈز کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے، ہمارے در و دیوار پر جگہ جگہ لکھا نظر آ رہا ہے،

”چرسی چائے“ چرسی کڑاہی اور چرسی ”چرغہ“ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں چرسیوں کا ہی بسیرا ہے میری ارباب اختیار سے استدعا ہے کہ ایسے سائن بورڈز کو نہ صرف مٹایا دینا ضروری ہے بلکہ ایسے ریستوران کو فی الفور بند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

سڑکوں پر ہارن کی صورت میں الیکٹرانک گالیاں جا بجا سننے کو ملتی ہیں یہ اتنا غیر مہذب اور ناشائستہ رویہ ہے کہ کوئی سامنے سے با آواز بلند الیکٹرانک گالیاں دے رہا ہوتا ہے تو کوئی کسی طرف سے لیکن کبھی کبھی ہم گالیاں لے بھی رہے ہوتے ہیں۔

اس لیے دوسروں کا خیال بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہارن کے بلا ضرورت استعمال سے گریز کرنا ہی کون سکھائے گا چھوٹی چھوٹی گاڑیاں اتنے پریشر ہارن بجاتی ہیں کہ مریض آسانی سے انستھیزیا کے باوجود آپریشن تھیٹر سے بھاگ سکتا ہے۔ ہم پاکستانی اپنی نئی نسل کے لیے خواہ مخواہ ٹینشن لیتے ہیں کہ ان کا کیا بنے گا، آپ سڑکوں پر ڈرائیو کرتے انہیں دیکھیں کہ یہ کہاں سے کیسے اپنی جگہ بناتے ہیں نہ کوئی اصول نہ ضابطہ نہ سینیئرز سٹیزنز کا خیال نہ سکول جاتے بچوں کی پروا شاید یہ بھی چرسی چائے، چرسی کڑاہی اور چرسی چرغہ کھانے کے اثرات ہیں کہ ہمیں نہ کوئی ہوش ہے اور نہ کوئی خبر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments